(پاکستان ایک نظر میں) - اُسے پریاں لے گئیں

محمد عمیر دبیر  بدھ 17 دسمبر 2014

یکم دسمبر کو نظر نے مجھے اسکول سے آکر بتایا کہ اس کے اسکول میں میٹرک پاس کرنے والے طالب علموں کے لئے ایک عدد پارٹی کا اہتمام کیا گیا ہے۔ وہ اس بات پر خوش تھا کہ اگلے سال وہ بھی میٹرک میں ہوگا اور اس کو بھی ایسی ہی ایک پارٹی ملے گی ۔ اس سال نظر نے مجھے بتایا کہ پارٹی میں تلاوت قرآن پاک کے فرائض وہ سر انجام دے گا ۔ میں نے اس کا ماتھا چوما اور گلے سے لگا لیا ،گلے سے لگانے کے بعد میرے ذہن میں وہ تمام باتیں یا د آنے لگی کہ جب تین لڑکیوں کے بعد ایک اور خوشخبری آنے والی تھی۔میں ڈاکٹرکے پاس سے گھر واپس آئی اور اللہ سے اپنی خواہش کا اظہار کیا ۔ رات اپنے شوہر کی واپسی پر ان کو بھی خوشخبری دی اور اپنی بچیوں سے کہا کہ دعا کر و کہ اس دفعہ پریاں ہمیں بھائی دے کر جائے ۔ پھر کیا بچیاں بھی مجھ سے روز پوچھتی امی پری کب آئیگی؟ بھائی کب لائے گی؟

پھر وہ دن بھی آگیا کہ جب محمد نظر کی پیدائش ہوئی ۔ مجھے آج بھی یاد ہے میں تکلیف سے کررہا رہی تھی کہ اس کے بابا نے مجھے آکر بتایا کہ ہمارے گھر ننھا فرشتہ پیدا ہوا ہے ۔ میری ساری تکلیف ختم ہوگئی اور اب بس ایک ہی خواہش تھی کہ وہ میرے پاس آئے ،آج میں سوچ رہی تھی کہ ہماری گھرانہ مکمل ہوگیا ہے ، باپ کو اس کا سہارا مل گیا ہے ،بیٹیوں کی خوشی بھی قابل دید تھی ، جب میں گھر آئی تو خاندان کے لوگ اس کو دیکھنے آنے لگے، بچیاں بار بار زور سے کہتی تھینک یو پری ۔

نظراپنے چاچو کی شہادت کے بعد سے ہر روز یہ کہتا تھا کہ میں اپنے چاچو کے دشمنوں کو نہیں چھوڑوں گا ۔ تین سال کی عمر میں اُس نے سلوٹ مارنا شروع کر دیا تھا ۔ پھر تمام لوگوں کی رضا مندی سے اس کا داخلہ آرمی پبلک اسکول میں کروا دیا ۔ آج صبح وہ جلدی اٹھ کر نماز کے بعد تلاوت کی پریکٹس کر رہا تھا ۔ اس کی تلاوت سے میری آنکھ کھلی تو میں نے اُس کو ناشتہ کرنے کا کہا ، لیکن اُس نے فوجی والے انداز میں مجھے سلوٹ مار کر بولا نہیں سر آج میرے اسکول میں پارٹی ہے ، میں ناشتہ نہیں کرونگا ۔میرے بار بار اصرار پر اُس ناشتہ کر تولیا لیکن روزانہ سے بہت کم کھایا۔

نظر کی وین کا ہارن بجا ۔ لیکن آج اس کے جانے کا انداز کچھ مختلف سا تھا ۔ آج اُس نے سلوٹ مار کر بولا ’’ ماں میں جارہا ہوں‘‘ ، جبکہ وہ روز بولتا تھا کہ میں انشاء اللہ واپس آؤں گا ۔ میں نے اس کے ماتھے کو چوما اور وہ چلا گیا۔ آ ج میرا دل بڑا عجیب سا ہو رہا تھا ۔ گھریلو کام کاج کے بعد ٹی وی دیکھا تو پتہ چلا کہ اسکول پر حملہ ہو گیا ہے ۔ میں نے اپنے بھائی ارباب ایوب کو کال کی تو اُس نے بتایا کہ وہ امدادی کاموں میں مصروف ہے۔اتنی دیر میں بچیاں اسکول سے واپس آگئیں اور مجھ سے کہنے لگی ماما چپ ہوجائیں ، ہمارا بھائی خیریت سے ہوگا ،پریاں اس کی حفاظت کریں گی ۔

اس کے بابا بھی اسکو ل گئے ، وہ وہاں سے اسپتال بھی گئے لیکن وہ کہیں نہیں ملا ۔ گھر میں ایک قیامت بپا تھی ۔ یک دم فون کی گھنٹی بجی اور پتہ چلا کہ نظر ہم میں نہیں رہا ، وہ شہید ہوگیا ۔ اس کی لاش گھر آئی ۔ گھر پہ لوگ جمع ہونے لگے ۔ اس کے لبوں پر مسکراہت اور چہرے پر اطمینان تھا ۔ بچیاں زار و قطار روتے ہوئے مجھ سے کہہ رہی تھی امی نظر کو پریاں لے گئیں، دیکھیں کیسا مسکرا رہا ہے ۔ میں عجیب کشمکش میں تھی، جیسے ہی میں رونے لگی مجھے نظر کی وہ بات یاد آئی کہ “امی میں فوج کا سپاہی ہوں شہید ہوجاؤں تو رونا نہیں، بلکہ ماتھے پر پیار کر کے رخصت کرنا ہے۔”

پھر میں نے بہت ہمت کی اور سب کو چپ کرانے لگی ، بچیوں کو اپنے گرد بٹھایا اور ان کو سمجھایا کہ نظر بہت سکون میں ہے ، وہ زندہ ہے، تم لوگ رو کر اسے تکلیف نہ دو ۔ میں سب کے منہ پر پاگلوں کی طرح ہاتھ رکھتی رہی ، جس کے پاس جاتی وہ اور رونے لگتا ، لیکن جب نظر کا جنازہ اٹھا تو مجھ سے صبر کا دامن چھوٹ گیا ۔ نظر سے کئے گئے وعدے کی پاسداری نہ ہوسکی۔ آنکھوں سے اشک جاری تھے اور عجیب کیفیت میں بول رہی تھی ۔ ہاں میں شہید کی ماں ہوں میرا بیٹا شہید ہے، مجھے جنت میں لے کر جائے گا ۔ بس پھر کچھ یاد نہیں ۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔