دانشمندی کے تقاضے

مقتدا منصور  جمعرات 18 دسمبر 2014
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

سونامی15دسمبر کو تخت لہور کے پائیوں سے ٹکرا گیا۔ مختلف مقامات پر معمولی جھڑپوں کے علاوہ شکر ہے کہ فیصل آباد جیسا کوئی سانحہ رونما نہیں ہوا۔ اس کے برعکس کراچی میں پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت اور شہر کی نمایندہ جماعت ایم کیو ایم کی سیاسی بلوغت اوردانش مندانہ حکمت عملی کے باعث نہ صرف کوئی سانحہ رونما نہیں ہوا بلکہ دھرنا بھی زیادہ اہمیت حاصل نہیں کرسکا، کیونکہ شہرمجموعی طور پر پرسکون رہا۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ بیشتر مقامات پر درجن بھر سے بھی کم افراد کا راستہ روکنے کے باوجود پولیس نے کوئی کارروائی نہیں کی ۔ صرف تین تلوار پرچند سو افراد جمع تھے یا اس سے کچھ زیادہ لوگ عمران خان کی تقریر سننے کے لیے شاہراہ فیصل پر جمع ہوگئے تھے ۔

ملک کی موجودہ صورتحال کے بارے لوگوں کے ذہنوں میںان گنت سوالات کلبلا رہے ہیں ۔لوگ پوچھتے ہیں کہPTI کے اصل اہداف کیا ہیں ؟ وہ جاننا چاہتے ہیں کہ حکومت کے ہاتھ اگر صاف ہیں تو وہ تاخیری حربے کیوں استعمال کررہی ہے؟ ملک میں بدانتظامی، بدعنوانی اوربدامنی سے کب اور کیسے چھٹکارا ملے گا ؟ کیا چوہے بلی کا یہ کھیل یونہی جاری رہے گا اور عوام اسی طرح سسکتے اور بلکتے رہیں گے؟ یہ وہ سوالات ہیں، ملک کی سلامتی اور مستقبل کے حوالے سے جن پر سوچنا اور غور کرنا ہر شہری کی ذمے داری ہے۔

اس میں شک نہیں کہ ملک کا پورا انتظامی ڈھانچہ بد ترین فرسودگی کا شکار ہے۔ ریاستی انتظامی ڈھانچہ ہو یا عدالتی نظام ، الیکشن کمیشن ہو یا ترقیاتی منصوبہ بندی ، ہر طرف ابتری اورشکستگی کے مہیب سائے پھیلے ہوئے ہیں۔کوئی شعبہ ایسا نہیں جس میں کارکردگی کے قدرے بہتر اشاریے ملتے ہوں۔ ایک المیہ یہ بھی ہے کہ چاہے منتخب حکومت ہو یا غیر منتخب کسی نے بھی عوام کی فلاح کے لیے کچھ نہیں کیا ۔ایسی صورتحال میں عوام کی مایوسیاں حق بجانب ہیں۔

اس وقت ملک جن مسائل سے دوچار ہے، ان کے حل پر توجہ دینے کے بجائے پیٹ بھرے حکمران اور سیاست دان سبھی فروعی معاملات میں الجھے ہوئے ہیں۔ ہماری وہی حالت ہوچکی ہے جو 1258 سے پہلے بغداد کی تھی،جہاں عالم اس بحث میں الجھے ہوئے تھے کہ کنوئیں میں کتا گرجائے تو کتنے ڈول پانی نکالنے سے کنواں پاک ہوجائے گا چاہے کتا اندر ہی کیوں نہ پڑا رہے ۔اس غیر منطقی طرز عمل نے بری حکمرانی کو جنم دیا ہے، جس کی وجہ سے عوام کی مایوسیوں میں اضافہ ہوا ہے۔

موجودہ صورتحال پر نظر ڈالیں تو بگاڑ کی ذمے داری کسی ایک فریق پر عائد نہیں ہوتی ۔ بلکہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔ PTIکی شکایات درست مگر طریقہ کار قطعی غلط ہے۔ مسلم لیگ (ن) کا موقف صحیح ، مگر اندازمشکوک ہے ۔یہی سبب ہے کہ مجھے نہ توPTI کاطرز عمل سمجھ میں آرہا ہے نہ ہی مسلم لیگ(ن) کا رویہ ۔انتخابات میں دھاندلی کی شکایت پر دو رائے نہیں، مگر درستی کا راستہ وہ نہیں، PTI نے اختیار کیا ہے۔

PTI نے اپنا ہدف انتخابی عمل میں ٹھوس اوردور رس اصلاحات کے بجائے میاں نواز شریف کی حکومت کو گرانا بنا لیا ہے۔ جس نے اس کے کردار کے بارے میں مختلف نوعیت کے شکوک وشبہات پیدا کردیے ہیں۔ دوسری طرف حکومتی ترجمانوں نے شکایات کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لے کر ازالے کی کوشش کرنے کے بجائے دشنام طرازیوں کا جو طریقہ کار اختیار کیا ہے ، وہ مزید جلتی پر تیل کا کام کر رہا ہے ۔ پیپلز پارٹی ثالثی کی سنجیدہ کوششیںکرنے کے بجائے صرف تالیاں پیٹ رہی ہے گویا ہرطرف سنجیدگی کا فقدان ہے ۔ نتیجتاً مسائل کو سیاسی ویژن کے ساتھ ٹھوس بنیادوں پر حل کرنے پرکسی کی توجہ نہیں ہے ۔

عرض یہ ہے کہ انتخابی عمل پر اعتراضات آج سے نہیں1977 سے اٹھ رہے ہیں ۔دسمبر1970 سے مئی 2013ء  تک کل 10عام انتخابات ہوئے ہیں ۔ 1970 کے انتخابات کو چھوڑ کر کوئی ایسا انتخاب نہیں جو متنازعہ نہ ہو۔ مگرنہ پہلے اصلاحات لانے کی کوئی کوشش  کی گئی اور نہ اب سنجیدگی سے غور کیا جا رہا ہے۔ سول سوسائٹی کی مختلف تنظیموں جن میںPILDATاور FAFEN شامل ہیں، بعض ٹھوس اور قابل عمل تجاویز پیش کیں ۔مگر ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے فریقین کو انتخابی اصلاحات سے کوئی دلچسپی نہ ہو ، بلکہ وہ محض وقت گذاری کر رہے ہوں۔ یہاں پھر کئی سوالات مگر مچھ کی طرح منہ کھولے نظر آتے ہیں۔

اول، اگر بالفرض محال اس وقت میاں نواز شریف مستعفی ہوجاتے ہیں ، توکیاPTI پرانے الیکشن کمیشن اور قواعد وضوابط کے تحت انتخابات کوقبول کرلے گی ؟ایسی صورت میں دوسری جماعتوں کی جانب سے اٹھنے والے اعتراضات پر اس کا کیا رد عمل ہوگا؟ دوئم ، اگرجنرل پرویز مشرف کے مشورے کے مطابق ٹیکنوکریٹ حکومت تین سال کے لیے قائم کی جاتی ہے، تو اس کی آئینی، قانونی اور اخلاقی حیثیت کیا  ہوگی اور اس کے اختیارات کیا ہوں گے؟ سوئم، کیا عوام کے تمام طبقات اور تمام سیاسی قوتیں ایسے کسی سیٹ اپ کو تسلیم کریں گی ؟ چہارم، کیا اس صورت میں بدترین سیاسی بحران پیدا نہیں ہوگا ؟ ان سوالات پر کوئی حلقہ غور کرنے پر تیار نہیں ہے۔

نظام کی تبدیلی کی خواہش، ایک ناقابل تردید حقیقت ہے۔ ہر انسان اپنی زندگی میں بہتری لانے اور پرسکون زندگی گذارنے کا خواہش مند ہوتا ہے ۔ مگر اصل معاملہ طریقہ کار کا ہے ۔ کچھ جذباتی لوگ فرسودہ نظام کو کچرا دان میں پھینک دینے کا خوشنما نعرہ تو لگاتے ہیں، مگر اس کا متبادل پیش نہیں کرتے۔اسی طرح کچھ  رہنما قتال فی سبیل اللہ کے ذریعے تبدیلی کا درس دیتے ہیں ۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ اپنے سوا سب کو قابل گردن زدنی سمجھتے ہیں۔

یہ ایک خوفناک تصور ہے ، جو معاشرے میں اصلاح کے بجائے خانہ جنگی کا سبب بن سکتا ہے ۔ عرض ہے کہ بڑے بڑے دعوے کرتے ہوئے لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ انسانی معاشروں کا ارتقاء اختلاف رائے ہی سے مشروط ہے ۔وہی معاشرے آگے بڑھتے ہیں جہاں فکری تنوع ہوتا ہے ۔فکری تنوع دلیل کی بنیاد پر مکالمے سے مشروط ہوتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ جبرواستبداد پر مبنی نظام حکمرانی ایک صدی تو دورکی بات چند دہائیاں بھی مکمل نہیں کر پاتے۔ جب کہ آئین و قانون کے دائرے میں تبدیلی کا راستہ طویل ، سخت اور جان گسل ضرور ہوتا ہے، مگر یہی پائیدار بھی ہوتا ہے۔

برطانیہ کی مثال ہمارے سامنے ہے ۔جہاں عوام نے اپنے حق حکمرانی کے لیے طویل جدوجہد کی ۔1215ء میں شاہ جان اول کے میگناکارٹا پر دستخطوں سے آج تک8صدیوں کے دوران کئی سنگین اور خوفناک موڑ آئے۔ مگر برطانوی عوام نے تبدیلی کی خواہش کو قانون کے دائرے سے باہر نہیں نکلنے دیا ۔آئین اور قانون کی راہ پر ثابت قدم رہنے کا نتیجہ ہے کہ دنیا کی سب سے پائیدار جمہوریت برطانیہ میں قائم ہے۔

اچھی حکمرانی اور عوامی نمایندگی کے عمل کو شفاف بنانے کے لیے انتخابی اصلاحات وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہیں۔ مگراس پورے عمل کو آئین وقانون کے دائرے کے اندر ہونا چاہیے۔ تبدیلی پاکستانی عوام کی دلی خواہش ہے، مگر کسی امپائر کی انگلی کے اشارے سے نہیں بلکہ منتخب پارلیمان کے ذریعہ۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے، یہ راستہ طویل اور کٹھن ضرور ہے، مگر پائیدار بھی یہی ہے۔

اس میں شک نہیں کہ آج جدل Left اور Right کے درمیان نہیں بلکہ Right اور Wrong کے درمیان ہے ۔ مگر یہ کون طے کرے گا کہ Right کیاہے اورWrongکیا ہے؟ یہ فیصلہ بہرحال عوام ہی نے کرنا ہے اور اپنے ووٹ کے ذریعے کرنا ہے ۔ یہ بات بھی ذہن میں رہنا چاہیے کہ جمہوریت کو جمہوریت کے ذریعے ہی مزید بہتر بنایا جاسکتا ہے ۔ کسی آمرکو جمہوریت سے کیا دلچسپی ہوسکتی ہے، لہٰذا اس سے توقع کرنے کی خواہش کوسیاسی بلوغت میں کمی کے سوا اور کیا نام دیا جاسکتا ہے؟

PTI کی قیادت کو ان اعتراضات پرتوجہ دینے کی ضرورت ہے جو مختلف غیر جانبدار حلقے اس کے سیاسی نظریات اور طرز عمل کے بارے میں مسلسل اٹھا رہے ہیں ۔ خاص طور پر مذہبی شدت پسند عناصر کے ساتھ مذاکرات پر اصرار اورایک منتخب حکومت کوغیر جمہوری طریقہ سے ہٹانے کا عمل ۔اس کے علاوہ محترم کپتان اور ان کی منصوبہ ساز ٹیم کے ذہن میں یہ بات بھی لازمی طور پر موجود ہوگی کہ جمہوریت فکری تنوع کا نام ہے ۔ فکری تنوع دلیل کی بنیاد پر مکالمہ کے نتیجہ میں جنم لیتا ہے۔

؎انھیں یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ تنقید ہر شہری کا بنیادی حق ہے ، مگر ذاتیات پر حملہ آمرانہ سوچ کا عکاس ہوتا ہے ۔ دوسروں کی ذات پر کیچڑ اچھالنا اور خود منطقی تنقید بھی برداشت نہ کرنے کے عمل کو کیا نام دیا جائے ؟ اس پہلو پر بھی PTIکے رہنمائوں کو غور کرنے کی ضرورت ہے ۔

اس ملک کے ہر شہری کی خواہش ہے کہ ملک میں اچھی حکمرانی قائم ہو ۔شراکتی جمہوریت کے ذریعے عوام کے مسائل ریاستی انتظام کی نچلی ترین سطح پرحل ہوں ۔ تاہم  حکمرانی میں بہتری اور تبدیلی کا یہ عمل اگر برطانیہ کی طرح آئین و قانون کے دائرے میں ہوگا تو پائیدار اور دیرپا ہوگا۔ جب کہ کسی ایڈونچر کے نتیجے میں رونما ہونے والی تبدیلی بہت جلد اپنے منطقی انجام کو پہنچے گی۔

اس کے علاوہ ہمیں انقلاب فرانس کی بھی تمنا نہیں کرنا چاہیے،کیونکہ اس کے نتیجے میں فرانسیسی عوام کو نپولین بونا پارٹ کو بھگتنا پڑا تھا ۔ جب کہ ہم نے تو ان68برسوں میں چار نپولین بھگتے ہیں ۔اس لیے اب مزید کسی نپولین کو بھگتنے کی ہمت نہیں ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔