ہندوستان میں سیکولرازم کمزور ہوا، مسلمانوں کی حالت دلتوں سے بھی بدتر ہے، ڈاکٹر لوراں گائے

اقبال خورشید  جمعرات 18 دسمبر 2014
برصغیر پر تحقیق کرنے والے فرانسیسی سوشل سائنٹسٹ، ڈاکٹر لوراں گائے کے حالات و خیالات۔ فوٹو: فائل

برصغیر پر تحقیق کرنے والے فرانسیسی سوشل سائنٹسٹ، ڈاکٹر لوراں گائے کے حالات و خیالات۔ فوٹو: فائل

شلوار قمیص میں ملبوس یہ دھان پان سا شخص، بڑھی ہوئی شیو اور ہاتھ میں چائے کا کپ، جب آپ کی باتوں پر مسلسل گردن ہلائے، اردو کا پورا جملہ بول جائے، تو ممکن ہے، آپ اس کی رنگت کو نظرانداز کرتے ہوئے اُسے مقامی سمجھ بیٹھیں۔ اور ایسا سمجھنے میں کوئی مضایقہ بھی نہیں کہ یہ فرانسیسی ڈیڑھ عشرے سے اس خطے پر تحقیق کر رہا ہے۔ بلکہ یہ کہا جائے تو بہتر ہے کہ برسوں سے یہیں مقیم ہے۔ اس دوران اردو سیکھنے کے ساتھ حلیم اور نہاری کے ذایقے سے بھی دوستی کر لی۔ قوالیوں کا شایق۔ دہلی کے دنوں میں حضرت نظام الدین اولیاؒ کی درگاہ پر باقاعدگی سے حاضری دی۔

برصغیر کے شہری علاقوں میں بڑھتا انتشار، ہندوستانی مسلمانوں کی حالت زار تحقیق کا خاص موضوع۔ البتہ توجہ فقط بگاڑ تک محدود نہیں۔ اردو شاعری میں دل چسپی نے ایک نئی جہت میں سوچ بچار کی جوت جگائی۔ امروہہ کے ادبا کی خدمات پر تحقیق شروع کی۔

معروف فرانسیسی تحقیقی ادارے CNRS کے سینٹر CERI سے بہ طور ریسرچ فیلو منسلک ڈاکٹر لوراں گائے کی تین کتابیں منظر عام پر آئیں۔ Armed Militias of South Asia اور Muslims in Indian Cities معروف فرانسیسی محقق، کرستف جافریلوکے ساتھ مرتب کیں۔ یوں تو دونوں کا چرچا ہوا، مگر آخر الذکر کو خاصی شہرت ملی۔ 2012 میں شایع ہونے والی اس کتاب کا انڈین ایڈیشن چھے ماہ میں ختم ہوگیا۔ Karachi. Ordered Disorder and the Struggle for the City میں اس شہر کے مختلف پہلوئوں کا جائزہ لیا۔ اس کے دوسرے ایڈیشن کا خاکہ بھی ذہن میں ہے۔

ان کے تحقیقی کارناموں کی تفصیل سے پہلے یہ معلوم کرنا ضروری جانا کہ اُنھوں نے اردو کہاں سے سیکھی؟ کہنے لگے؛ آغاز پیرس کے اسکول آف اورینٹل لینگو یجیز سے ہوا، جہاں ایک برس زیر تعلیم رہے۔ دہلی میں بھی اردو سیکھتے رہے۔ دورانیہ سات برس۔ پڑھنا نسبتاً آسان رہا۔ اخبارات باقاعدگی سے مطالعے میں رہتے۔ تھوڑی بہت لکھ بھی لیتے ہیں۔ بولنے میں البتہ کچھ مشکل پیش آتی ہے۔ اُن کے مطابق لہجوں کا فرق بڑا مسئلہ ہے۔ لہجہ صاف ہو، تو 80 فی صد بات سمجھ میں آجاتی ہے، ورنہ یوں بھی ہوتا ہے کہ سامنے والا بولے جارہا ہے، اور یہ حیرت سے اُسے تک رہے ہیں۔

جنوبی ایشیا میں دل چسپی کی کہانی 95ء میں شروع ہوتی ہے، جو اُنھیں نیپال لے گئی۔ وہاں ایک مقامی اسکول میں پڑھاتے رہے۔ پھر گھومتے پھرتے ہندوستان پہنچے۔ یہ ٹریکنگ کا شوق تھا، جو 96ء میں اکیس سالہ لوراں کو پاکستان لایا۔ اسلام آباد سے چترال، پھر گلگت۔ اسی سفر میں پاکستان سے محبت ہوئی۔ بعد میں تحقیق کی خواہش اِن زمینوں پر لائی۔ مسکراتے ہوئے کہتے ہیں؛ اُن کے معاملے میں یہ 9/11 نہیں تھا، جو سیکڑوں غیرملکیوں کو پاکستان کھینچ لایا۔ وہ تو پی ایچ ڈی کی تحقیق کے دوران بھی آتے جاتے رہے۔

پی ایچ ڈی کی کہانی بھی سن لیں۔ موضوع تھا؛ ’’سیاسی شناخت کی گلوبلائزیشن: خصوصی حوالہ، ایم کیو ایم۔‘‘ کہتے ہیں،’’مجھے جنوبی ایشیا میں خصوصی دل چسپی تھی۔ میرے ایڈوائزر نے بھی کراچی پر کام کرنے کا مشورہ دیا۔ یہ تحقیق کے لیے ایک اہم موضوع تھا۔ میں نے جائزہ لیا کہ کیسے کراچی کی ایک جماعت نے بین الاقوامی نیٹ ورک بنایا۔

میں ایک عرصے لندن میں رہا، اور ایم کیو ایم کے انٹرنیشنل سیکریٹریٹ کا کئی بار دورہ کیا۔ کراچی بھی آیا۔ دیکھیں، 92ء سے لندن کا انٹرنیشنل سیکریٹریٹ ایم کیو ایم کی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز ہے۔ حالیہ برسوں میں اس نوع کی کوئی اور سیاسی تنظیم نہیں، جس کی قیادت ملک سے باہر ہو، اور وہ اتنے منظم و مربوط انداز میں کام کر رہی ہو، اپنے کارکنوں سے مسلسل رابطے میں ہو۔ یہ بات متاثر کن ہے۔‘‘

لوراں گائے 1975میں فرانس میں پیدا ہوئے۔ 98ء میں پیرس انسٹی ٹیوٹ آف پولیٹیکل اسٹڈیز المعرف Sciences Po سے انٹرنیشنل ریلیشنز میں ماسٹرز کی سند حاصل کی۔ اگلے چار برس وہیں پڑھاتے رہے۔ 99ء میں پی ایچ ڈی تحقیق کا آغاز ہوا۔ 2004 میں ڈگری ملی۔ پھر انڈیا چلے آئے۔ دہلی میں فرانسیسی وزارت خارجہ کے تحت کام کرنے والے تحقیقی مرکز CSH میں 2006 تا 2008 کوآرڈی نیٹر رہے۔ پھر فرانس لوٹ گئے، اور CNRS کا حصہ بن گئے۔

اب توجہ اُن کی کتب پر مرکوز کرتے ہیں:

2009 میں جنوبی ایشیا کی عسکریت پسند تنظیموں کے گرد گھومتے تحقیقی مضامین پر مشتمل Armed Militias of South Asia کی اشاعت عمل میں آئی۔ لوراں اور کرستفجافریلو کی مرتب کردہ اس کتاب میں مختلف ممالک کی تنظیموں کے ساتھ پاکستان کی دو کالعدم تنظیموں کو بھی موضوع بنایا گیا۔

کتاب پہلے فرانس میں شایع ہوئی۔ انگریزی ترجمہ لندن اور امریکا سے چھپا۔ کہتے ہیں،’’ہمارا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ اس خطے میں عسکریت پسند تنظیموں کوکسی نہ کسی سطح پر ریاستی آشیرباد حاصل رہی۔ ریاست اُنھیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہے۔ یہ ایک خطرناک کھیل ہے، کیوں کہ ایک مرحلے پر یہ تنظیمیں ریاست کے ہاتھ سے نکل جاتی ہیں، خطرہ بن جاتی ہیں۔ پاکستان میں بھی یہی ہوا۔ مگر یہ ایک ملک کا مسئلہ نہیں، پورے جنوبی ایشیا کا مسئلہ ہے۔ انڈیا اور دیگر ممالک میں بھی اس نوع کی تنظیمیں ہیں، جیسے بجرنگ دل وغیرہ، جسے اپنی کارروائیوں کے لیے گجرات حکومت کی سرپرستی حاصل رہی۔‘‘

مذکورہ کتاب میں ان کی توجہ مائوسٹ، انتہاپسند اورعلیحدگی پسندوں پر مرکوز رہی۔ اس مناسبت سے پوچھا؛ کیا جنوبی ایشیا کے ان گروہوں میں، نظریاتی فرق کے باوجود، کوئی تعلق نظر آتا ہے؟ اس بابت کہنا ہے،’’ماسوائے انڈیا کے ہمیں کسی ملک میں بیک وقت یہ تینوں عسکریت پسند گروہ نہیں ملتے۔ ایک زمانے میں یہ کہا جاتا تھا کہ انڈین حکومت سے برسرپیکار ان تنظیموں میں رابطہ ہے۔ اس کا الزام پاکستانی اداروں پر بھی عاید ہوتا، مگر کوئی ثبوت پیش نہیں کیا جاسکا۔ ہمیں اس نوع کا کوئی رابطہ یا تعلق نظر نہیں آیا۔‘‘

Muslims in Indian Cities دوبرس قبل شایع ہوئی۔ اس پر خاصی بحث ہوئی۔ ایک بڑے حلقے نے اسے سراہا۔ تنقید بھی ہوئی۔ لوراں کے مطابق اِس سے قبل ہندوستانی مسلمانوں کے مسائل کی عکاسی کرتی ایسی کوئی کتاب موجود نہیں تھی، جس میں ہندوستان کے قومی نظر یے کو پیش نظر رکھنے کے بجائے، نچلی سطح پر حقائق کا جائزہ لیا گیا ہو۔

ہندوستانی مسلمانوں کو کس قسم کے مسائل درپیش ہیں؟ کہتے ہیں؛ پہلا مسئلہ معاشی ہے۔ سرکاری ملازمتوں کے حصول میں دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ شہروں میں سیاسی مسائل زیادہ ہیں، جن سے فسادات جنم لیتے ہیں۔ ’’حالات میں بہتری کا امکان کم ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں کی حالت دلتوں سے بھی بدتر ہے۔ وہ غربت اور عدم تحفظ کا شکار ہیں، مگر پورے ہندوستان میں حالات یک ساں نہیں۔ کیرالا اور تامل ناڈو میں مسلمانوں کی صورت حال نسبتاً بہتر ہے۔ وہ معاشی طور پر مستحکم ہیں۔ اوڈیسہ میں حالات اچھے ہیں۔‘‘

ڈاکٹر لوراں کے مطابق ہندوستانی مسلمانوں کے مسائل حل کرنے کے لیے پہلے اُنھیں سمجھنا ہوگا، ریاستی سطح پر طویل المدت منصوبے بنانے ہوں گے۔ ’’دراصل 90 کے بعد ہندوستان میں سیکولرازم کم زور ہوا ہے۔ راجیو گاندھی کے زمانے میں اس کا آغاز ہوا۔ میرے نزدیک اس کا سبب صرف ہندو قوم پرست نہیں، اس میں سیکولر حلقوں، بالخصوص کانگریس کا کردار بھی رہا۔ ہندوستان میں ہمیں جمہوریت کا تسلسل تو نظر آتا ہے، مگر دیکھنا یہ ہے کہ مودی جی اس تسلسل کو کیا شکل دیتے ہیں۔‘‘

2005 میں لوراں گائے نے کراچی کی سیاسی تاریخ کو اپنی توجہ کا مرکز بنا لیا۔ 80 کی دہائی سے جاری خلفشارکا باریک بینی سے جائزہ لیا۔ اس تحقیق کو اپنی تازہ کتاب میں سمویا، جو پاکستان کے علاوہ امریکا، برطانیہ اور ہندوستان سے بھی شایع ہوئی۔ ریسرچ کے دوران سیاسی قائدین، سماجی کارکن اور عام شہریوں کے ساتھ خاصا وقت گزرا۔ اس عمل میں پروین رحمان مرحوم کی بھرپور معاونت حاصل رہی۔ ان کی موت کے سمے گہرے کرب سے گزرے۔

ان کے مطابق تشدد، ہڑتالوں، قتل و غارت گری کے باوجود کراچی میں معیشت کا پہیا چل رہا ہے، زندگی رواں دواں ہے۔ یعنی بگاڑ تو ہے، مگر اس میں بھی زندگی کی ایک ترتیب نظر آتی ہے۔ ’’میرے نزدیک کراچی پُرتشدد واقعات اور خلفشار کے ساتھ زندہ رہنے کا فن سیکھ گیا ہے۔‘‘

دوسرے ایڈیشن میں ان کی توجہ کا مرکز کراچی کی معیشت ہوگی۔ اس ضمن میں یہاں کے تاجروں سے، خصوصاً اولڈ سٹی ایریا میں، ایک سروے کیا، جہاں انھوں نے پایا کہ چھوٹے تاجر دھیرے دھیرے اپنا کاروبار محفوظ علاقوں میں منتقل کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق بڑے صنعت کاروں نے تشدد سے نمٹنے کا حل تلاش کر لیا ہے، جس میں ذاتی سیکیورٹی نمایاں ہے۔ بااثر گروہوں سے وہ رابطے میں رہتے ہیں۔ ’’دیکھیں، عسکریت پسند تنظیمیں بہت عملیت پسند ہیں۔ وہ اپنے مفادات پیش نظر رکھتی ہیں۔ اور اسی طرح یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔‘‘

اپنی آخری کتاب میں کراچی کی صورت حال کو منظر کرنے کے لیے کچھ شعرا کے منتخب کلام کا بھی ترجمہ کیا۔ اس تجربے کے دوران رئیس امروہوی کے قطعات نے گرویدہ بنایا۔ وہ ان قطعات کو پاکستان کی سیاسی تاریخ اور سماجی تبدیلوں پر بے مثال تبصرہ تصور کرتے ہیں۔ اُن تک رسائی کراچی میں مقیم دوستوں کے توسط ہوئی۔ پھر سید محمد تقی کے رشے دار، کاظم سعید سے ملاقات ہوئی۔ ان سے بھی بہت مدد ملی۔ اُنھیں افسوس ہے کہ اتنی اہم دستاویز کتابی صورت میں عام قارئین کے لیے دست یاب نہیں۔

اس تجربے کو آگے بڑھاتے ہوئے خاندان امروہہ پر توجہ مرکز کی۔ رئیس امروہوی، جون ایلیا، سید محمد تقی اورسید عباس کے ساتھ ساتھ کمال امروہوی اور صادقین کی علمی، فنی اور ادبی خدمات کا جائزہ لیا۔ اس کتاب میں اُن کی ماضی کی ریسرچ کی جھلکیاں بھی ملیں گی۔ دو برس قبل اس منصوبے پر کام شروع کیا۔ ان کے مطابق یہ انتہائی طویل اور دشوار ہے، شاید تکمیل میں تین چار برس لگ جائیں۔

اس بابت کہتے ہیں، ’’امروہوی برادران نے ادب عالیہ کو عوام سے جوڑنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ایک جانب انھوں نے ’مین اسٹریم‘ ادب تخلیق کیا، مگر ساتھ ہی اس کی دانش ورانہ جہت بھی برقرار رکھی۔ ایسی مثال فرانس یا کسی اور ملک میں کم ہی ملے گی۔ اس ضمن میں انشاء، عالمی ڈائجسٹ اور سب رنگ کا تذکرہ ضروری ہے۔ شکیل عادل زادہ کی بڑی خدمات ہیں۔ پھر یورپ پاکستانی ادب سے متعلق زیادہ نہیں جانتا، اس کوشش کا مقصد اُنھیں اِس سے متعارف کروانا بھی ہے۔‘‘

پاکستان غیرملکی صحافیوں کے لیے انتہائی غیرمحفوظ تصور کیا جاتا ہے۔ اس ضمن میں ڈاکٹر لوراں سے پوچھا، تو کہنے لگے؛ چھوٹے موٹے مسائل تو ہر جگہ ہوتے ہیں، مگر انھیں کبھی کوئی خاص دقت پیش نہیں آئی۔ ’’لوگ فرانس میں کہتے ہیں، لوراں بہت بہادر ہے، کراچی جیسے خطرناک شہر میں کام کر رہا ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ میرا اصول ہے کہ خطرے سے حتی الامکان دور رہا جائے۔ خواہ مخواہ ہیرو بننے کی ضرورت نہیں۔ کچھ غیرملکی صحافی ایڈونچرازم میں دل چسپی رکھتے ہیں۔

وہ کراچی آتے ہی اِس لیے ہیں کہ وہ اسے دنیا کا خطرناک ترین شہر سمجھتے ہیں۔ مگر میں کراچی آتا ہوں، کیوں کہ یہ جگہ مجھے پسند ہے، یہاں میرے دوست ہیں، جن کے دُکھ اور تکالیف میں محسوس کرسکتا ہوں۔‘‘ تسلیم کرتے ہیں کہ مغرب میں پاکستان کی شبیہہ خاصی منفی ہے۔ وہ اس خطے میں رپورٹنگ کرنے والے غیرملکی صحافیوں کو قصوروار ٹھہراتے ہیں، جو لوٹنے کے بعد ہمیشہ منفی پہلوئوں کی نشان دہی کرتے ہیں۔ ’’میں کبھی یہاں ہونے والے بم دھماکوں اور تشدد کے بارے میں انٹرویوز نہیں دیتا۔ میرے نزدیک ایک اور پاکستان بھی ہے، جو خوب صورت ہے، مہمان نواز ہے۔ میں اس میں زیادہ دل چسپی رکھتا ہوں۔‘‘

ان کے مطابق یہ پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ اِس کے پڑوس میں ایک طویل جنگ لڑی گئی، جس کی وجہ سے یہ بین الاقوامی اختلافات اور سازشوں کا شکار بن گیا۔ ’’اگر سوویت۔ افغان جنگ فرانس کے پڑوس میں ہوتی، تو وہاں کے حالات آج یک سر مختلف ہوتے۔ میرے نزدیک اس مسئلے سے نکلنے کے لیے پاکستان کو کچھ سنجیدہ فیصلے کرنے ہوں گے۔ ‘‘

ڈاکٹر لوراں مشرق اور مغرب کی تقسیم کے قائل نہیں۔ ’’جسے مغرب کہا جاتا ہے، درحقیقت وہاں مختلف ممالک، مختلف پالیسیوں پر عمل پیرا ہیں۔ طالبان اور اس کے حامی گروہوں کی ایک مشترکہ پالیسی ہے، اور اس نقطۂ نگاہ سے انھیں اپنے حریفوں پر فوقیت حاصل ہے۔‘‘

فرانس میں ایک عرصے سے حجاب کا مسئلہ زیر بحث، جس پر وہاں مقیم مسلمان سراپا احتجاج۔ یہ موضوع نکلا، تو کہنے لگے؛ جب کبھی کسی یورپی ملک میں حجاب پر پابندی کی بات ہوتی ہے، تو ردعمل میں مسلم خواتین میں اس کے استعمال میں شدت آجاتی ہے۔ یہ ایک سیاسی ایشو بن جاتا ہے۔ فرانس میں یہ مسئلہ بار بار سامنے آرہا ہے، لیکن میرے نزدیک یہ صرف حجاب سے متعلق نہیں۔ سکھ طلبا کو بھی پگڑی پہننے کی اجازت نہیں۔

جہاں تک یہودیوں کا تعلق ہے، ان کے کئی پرائیوٹ اسکولز ہیں۔ وہاں وہ اپنی مذہب روایات کے مطابق لباس زیب تن کرسکتے ہیں۔ البتہ سکھوں اور مسلمانوں کے پرائیوٹ اسکولز نہیں۔ یہ سچ ہے کہ فرانس سمیت پورے یورپ میں شناخت کا بحران ہے۔ جب رجعت پسند تنظیمیں حکومت میں آتی ہیں، تو صورت حال گمبھیر ہوجاتی ہے۔ 9/11 سے پہلے یورپ میں عرب تارکین وطن ہوا کرتے تھے، پھر اچانک اُنھیں مسلمان تارکین وطن کہا جانے لگا۔ راتوں رات نسلی تعصب مذہبی تعصب میں بدل گیا۔‘‘

2005 میں ایک جاپانی خاتون سے اُن کی شادی ہوئی۔ ایک بیٹی ہے۔ کہتے ہیں، بیگم ان کی فرانس کی محبت میں اپنا وطن چھوڑ کر آئیں۔ شادی کے بعد جب انھیں برصغیر میں رہنا پڑا، تو شروع میں دقت ہوئی، مگر اب اُنھیں اس خطے سے محبت ہوگئی ہے۔ خصوصاً پاکستان کے پُرفضا مقامات بہت بھائے۔ چاہتے ہیں کہ کراچی کے باسی اپنے شہر کو اور زیادہ قریب سے دیکھیں۔ مسالے دار کھانے اُنھیں پسند ہیں۔ کہتے ہیں، یہاں کی سبزیاں فرانس سے زیادہ ذایقہ دار ہیں۔ کھانے کے معاملے میں تو سہولت رہی۔ البتہ آلودگی نے تھوڑا پریشان رکھا۔ کرکٹ اس خطے کا مقبول ترین کھیل، مگر فرانسیسی ہونے کی وجہ سے اِس کی شدبد نہیں رکھتے۔ بالی وڈ کی فلمیں بھی توجہ حاصل نہیں کرسکیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔