معیشت کو دھچکا

ایم آئی خلیل  جمعـء 19 دسمبر 2014

16 دسمبر جسے لوگ سقوط ڈھاکا کے عنوان سے یاد کر رہے تھے، جس دن پاکستان کے دو ٹکڑے کیے گئے تھے کہ پاکستان کو پھر سانحہ پشاور کی صورت میں لہو لہان کر دیا گیا۔ آرمی پبلک اسکول میں معصوم اور نہتے بچوں کو جس وحشیانہ انداز میں شہید کیا گیا کہ اس پر ہر نمناک آنکھیں گواہی دے رہی ہیں کہ یہ واقعہ الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ہر غمزدہ کا دکھ اس کی آنکھ کے آنسوؤں سے چھلک رہا تھا۔

پاکستان جسے گزشتہ 14 برسوں سے دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے لیکن منگل کو ہونے والی دہشت گردی جس کی مثال دنیا بھر میں نہیں ملتی، اس خبر کے ملتے ہی کراچی اسٹاک مارکیٹ کریش ہو گئی، اور تاریخ میں سب سے بڑی مندی ریکارڈ کی گئی، جس سے سرمایہ کاری مالیت میں ایک کھرب 76 ارب روپے سے زائد کی کمی ہوئی۔ منگل کو پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کے حملے میں بچوں کی شہادت کی اطلاع پر غیرملکی سرمایہ کاروں اور سرمایہ کاروں کے گروپ نے حصص فروخت کرنا شروع کر دیے جس کے نتیجے میں مارکیٹ مندی کا شکار ہوکر رہ گئی۔ 82 فیصد حصص کی قیمتوں میں کمی ہوئی۔ تاجر برادری نے سانحہ پشاور پر تین روزہ سوگ کا اعلان کر دیا۔ دوسرے روز بھی کراچی اسٹاک ایکسچینج میں مندی اور سوگ کا راج رہا اور مزید 209 پوائنٹس کی کمی واقع ہوئی۔ حالیہ واقعہ پاکستان کی معیشت کے لیے بہت بڑا دھچکا ہے۔

جس کے بارے میں تاجر و صنعتکار برادری کا کہنا ہے کہ ملک دشمن عناصر پاکستان کو بدنام کرنا چاہتے ہیں۔ اس واقعے نے ملک کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے جس کا مقابلہ صرف اور صرف قومی اتحاد کے ذریعے ہی کیا جا سکتا ہے۔ ملک میں دہشت گردی کے واقعات کے باعث غیر ملکی سرمایہ کاروں کا ملک میں سرمایہ کاری سے گریز بڑھتا چلا جا رہا تھا اور ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی واقع ہو رہی تھی۔ اس واقعے کے باعث غیرملکی سرمایہ کاروں اور تاجروں کا ملک پر عدم اعتماد مزید پروان چڑھے گا۔ جہاں ایک طرف سرمایہ کاری میں کمی ہو رہی تھی پاکستان میں ان ہی دنوں سیکڑوں کی سرمایہ کاری کا حجم ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے 5 ماہ جولائی سے نومبر 2014ء تک بینکوں کی طرف سے مجموعی طور پر 4 کھرب 71 ارب 60 کروڑ روپے کی نئی سرمایہ کاری کی گئی۔ سرمایہ کاری میں سب سے زیادہ اضافہ نومبر میں ہوا۔ موجودہ مالی سال کے پہلے 5 ماہ کے دوران بینکوں نے نجی شعبوں کے لیے ان کے کاروباری سرگرمیوں کی خاطر 112 ارب 80 کروڑ روپے کے قرضے دیے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ قرضے گزشتہ مالی سال کی نسبت 26 ارب 50 کروڑ روپے کم ہیں۔

دہشت گردی کے باعث پاکستان کی معیشت میں برآمدی جمود واقع ہو چکا ہے۔ برآمدات میں اضافہ ملکی ترقی کے لیے ایک ناگزیر عمل ہے۔ برآمدات میں اضافے سے اسی حساب سے تجارتی خسارے میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔ درآمدات اور برآمدات کا فرق جتنا کم ہو گا تجارتی خسارہ بھی اسی قدر کم واقع ہو گا۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان اپنی رپورٹ میں واضح طور پر یہ بیان کر چکا ہے کہ 2010ء سے پاکستان برآمدی شعبے میں جمود کا شکار ہے۔ جی ایس پی پلس اسٹیٹس ملنے کے بعد اس بات کی توقع تھی کہ برآمدات میں اضافہ ہو گا لیکن جی ایس پی پلس ملنے کے باوجود اس کو پاکستان کے پاس رہنے دینے یا نہ دینے کے بارے میں تمام فیصلوں کے حقوق یورپی یونین کے پاس ہی ہیں۔ جسے انھوں نے مختلف شرائط کے ساتھ منسلک کر رکھا ہے۔ اور پاکستان کو ایک طویل فہرست تھما رکھی ہے کہ یہ مختلف شرائط ہیں اگر ان پر عملدرآمد نہ ہوا تو پھر پاکستان سے تجارتی مراعات واپس لے لی جائیں گی۔

اگرچہ جی ایس پی پلس ملنے کے بعد بھی پاکستان اپنی برآمدات میں خاطرخواہ اضافہ نہیں کر سکا۔ کیونکہ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات کے سبب غیر ملکی تاجر و صنعتکار اس طرف رخ نہیں کرتے۔ جب بھی کوئی حادثہ ہوتا تو پھر وہ پاکستان کی سیاست و معیشت کے بارے میں شکوک و شبہات میں پڑ جاتے۔ تجارتی وفود کے تبادلے رک جاتے۔ تاجر اپنی میٹنگز معطل کر کے بیٹھ جاتے ہیں۔ موجودہ مالی سال کے تجارتی اعداد و شمار اسی قسم کی صورتحال کی عکاسی کرتے نظر آتے ہیں کہ جولائی تا اکتوبر 2014ء برآمدات کا حجم محض 7 ارب 97 کروڑ ڈالر کا رہا جب کہ گزشتہ سال اسی مدت کے دوران برآمدی حجم 8 ارب 55 کروڑ 90 لاکھ روپے کے ساتھ 6.86 فیصد کم رہی۔ برآمدات میں کمی واقع ہوئی لیکن درآمدات کے مالی حجم میں 16.90 فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔

موجودہ مالی سال جولائی تا اکتوبر 2014ء کے دوران در آمدی بل16 ارب 78 کروڑ50 لاکھ ڈالرز کا رہا۔ جب کہ گزشتہ مالی سال کے اسی مدت یعنی جولائی تا اکتوبر 2013ء کے دوران درآمدی بل کی مالیت 14 ارب 45 کروڑ90 لاکھ ڈالر کی رہیں۔ اس طرح تجارتی خسارہ 8 ارب 81 کروڑ 30 لاکھ ڈالر تک پہنچ گیا۔ یوں تجارتی خسارہ میں 49 فیصد اضافہ ہوا۔

پاکستان کی برآمدات میں کمی اور درآمدات میں اضافے کی کئی وجوہات ہیں لیکن اس وقت دہشت گردی، امن و امان کا فقدان اور بجلی گیس کی شدید قلت کے علاوہ اب پانی کی قلت یا عدم فراہمی کے باعث بھی بہت سے سیکٹر کی برآمدات میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ مثلاً کراچی جہاں تین سو سے زائد چھوٹی بڑی ٹاول فیکٹریز ہیں، ٹاول سیکٹر جو کہ ٹیکسٹائل برآمدات کا 10 فیصد حصہ فراہم کرتا ہے جس میں سے کراچی کا حصہ 70 فیصد ہے۔ یہاں کے صنعتکاروں کا کہنا ہے کہ پانی کی 55 فیصد کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

جس کے باعث تولیے کی صنعت کو زبردست نقصان ہو رہا ہے اور برآمدات میں کمی واقع ہو رہی ہے حالانکہ جی ایس پی پلس ملنے کے بعد سے اس بات کا بھرپور یقین تھا کہ برآمدات میں کافی حد تک اضافہ ہو جائے گا۔ پاکستان کو اپنی برآمدات میں اضافے کے سلسلے میں بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس میں توانائی کا بحران، کہیں بجلی کی کمی کا سامنا، کہیں گیس کی قلت یا پھر گیس کی بندش کے باعث صنعتیں بند ہو جایا کرتی ہیں۔ ملک میں امن و امان کی خراب صورت حال کے باعث اکثر اوقات گیس کی پائپ لائن اڑا دی جاتی ہے چند یوم قبل ایسے ہی ایک واقعے کے سبب پنجاب کی صنعتوں اور گھریلو صارفین کو گیس کی بندش کا سامنا کرنا پڑا۔ دہشت گردی کے واقعات کے سبب ملکی معیشت بھی شدید متاثر ہو کر رہ گئی ہے۔

جس سے بیروزگاری میں بھی زبردست اضافہ ہو رہا ہے۔ دوسری طرف لاکھوں پڑھے لکھے نوجوان یونیورسٹی اور کالجز سے فارغ التحصیل ہو رہے ہیں لیکن ان کے لیے روزگار کے مواقع میسر نہیں آ رہے ہیں۔ دوسری طرف روزگار کے مواقع گھٹتے چلے جا رہے ہیں جس سے ملک میں بے روزگاروں کی تعداد میں زبردست اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ پوری قوم جس طرح متحد ہو گئی ہے دہشت گردی کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے۔ کیونکہ دہشت گردوں نے معیشت کو بھی بار بار اتنے دھچکے پہنچائے ہیں کہ معیشت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر رہ گئی ہے۔ آخر میں میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ شہیدوں کے لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے (آمین)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔