سیکولر تعلیم پر وار

جاوید قاضی  جمعـء 19 دسمبر 2014
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

وہ سارے میرے بچے تھے، میں یہ کہہ تو دوں، مگر میرے کہنے، میرے محسوس کرنے، میرے رو رو کے برا حال کرنے سے بھی وہ میرے بچے اس لیے بھی نہیں تھے کہ وہ ماں جس کا لخت جگر اس سے چھین لیا گیا ہو اور اس کی گود میں لہو میں لت پت اس کی لاش دی گئی ہو اور اس کے والد پر یہ صادر ہو کہ وہ اپنے اعصاب پر قابو رکھ کر اس ماتم کدے کے لمحے میں اپنی زوجہ کو اپنے باقی بچوں کو سہارا دے، میں کتنا بھی چاہوں کہ اس رنج کو محسوس کروں وہ مجھ سے نہیں ہو سکتا۔ اتنا درد ان ماؤں سے بہتا ہوا جب میرے پاس پہنچا تو بھی بہت تھا۔

اتنا درد طویل تھا کہ پوری دنیا رو پڑی، ہم جنھیں اپنا دشمن سمجھتے تھے وہ بھی اشکبار ہو گئے۔ وہ پیارے بچے، روشن آنکھیں، سرخ گال اور لبوں پر مسکان لیے جب ان کی تصویریں میرے سامنے آتی ہیں تو جیسے کہتی ہوں کہ ’’ڈھونڈو گے ہمیں ملکوں ملکوں، ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم‘‘ وہ ماں جس کو عادت تھی صبح سب سے پہلے اٹھ کے گرم بستر چھوڑ کر کپکپاتے ہاتھوں کو پھر سے گرم کر کے اپنے لال کے ماتھے پر رکھ کر نیند سے جگانا کہ اے میرے لال! صبح کی پو پھٹ چکی ہے اور تمہیں اسکول جانا ہے، اس کے کپڑے استری کر کے اس کے جوتوں کو صاف کر کے اس کا ناشتہ بنا کے، اس کا لنچ باکس تیار کر کے ابا کے ہاتھوں میں دینا کہ اسے پشاور آرمی اسکول کا گیٹ پار کرا دے۔ روز کا معمول تھا، روز ابا چھوڑتے اور روز ابا لے آتے۔ روز اماں اٹھتی اسے اسکول بھیجتی اور روز دوپہر کو دروازے پر آنکھ لگا کر بیٹھی رہتی کہ کب اس کا بیٹا اس کی بانہوں میں واپس آ جائے۔ اب کی بار صبح کو جب ماں اٹھتی ہے تو اس کے لال کا بستر خالی پڑا ہے، وہ بے چاری پھر بھی چھپ کے آتی ہے اور جب ہاتھ بڑھاتی تو وہ اس کے لال کی پیشانی نہیں تھی بلکہ تکیہ تھا، سرد تکیہ۔

کتنی کہانیاں ہیں ان ماؤں کی جو میں نے پڑھی ہیں۔ وہ ماں جس کا بیٹا دوسری جنگ عظیم میں مارا گیا تھا، روسی کہانی کار وہ منظر کشی کرتا ہے کہ کس طرح وہ ماں میلوں پیدل چلتی، راہ پر ہر ملنے والے کو اپنے لخت جگر کی تصویر دکھاتی اور کہتی کہ کیا اس نے اس کے بیٹے کو کہیں دیکھا ہے، جہاں رات پڑتی وہیں سو جاتی۔ وہ چیخوف کی کہانی جس ماں کو اولاد نہیں ہوتی اور جب وہ بچے کو اپنی گود لے لیتی ہے۔ اور بہت سال بعد اس کے اصلی ماں باپ اس کے پاس پہنچ جاتے ہیں اسے لینے کے لیے وہ کہتی ہے یہ میرا بیٹا ہے۔ وہ اور اس کا گود لیا بیٹا پوری دنیا تھی اس کے لیے۔ اور جب قانون آڑے آ جاتا ہے وہ بچہ اس سے لے لیا جاتا ہے۔ چیخوف اپنی کہانی کو وہاں ختم کر دیتا ہے۔ وہ اس لیے کہ اس گود میں لینے والی ماں کی دنیا وہاں ختم ہو جاتی ہے۔ میں نے دیکھا تھا ترگینیف کے ناول “Father and Sons” میں دو ماں باپ سالوں سے اپنے لال کی قبر پر آتے جو ان کا اکلوتا بیٹا تھا اور قبر پر اسی روایت سے آتے کہ جب کہ ان کے ہاتھوں میں سہارے کے لیے اب ڈنڈیاں تھیں۔

کوئی بھی اس ماں کے درد کا قطرہ بھی نہیں پا سکتا وہ اگر کتنا اپنانا بھی چاہے۔ قاتلوں کا اصولی مقصد ایک تھا کہ بچوں کو اے ماؤ! ان سیکولر اسکولوں میں مت بھیجو، یہاں سے ملالائیں پیدا ہوتی ہیں، ان کے حساب سے بلائیں نکلتی ہیں، وہ علم سے بہت ڈرتے ہیں، انھیں روشنیوں سے خوف آتا ہے، انھیں ان بچوں کے ہاتھوں میں اٹھائی ہوئی کتابیں اپنے فولادی ہاتھوں میں اٹھائی ہوئی کلاشنکوفوں سے بھی خطرناک لگتی ہیں۔

یہ اس سچ کا سطحی حصہ ہے کہ ’’ماں‘‘ کا کلیجہ انھوں نے تار تار کر دیا مگر بنیادی حقیقت اس سچ کی یہ ہے کہ انھوں نے سیکولر تعلیم پر وار کیا ہے۔ یہ اس حوالے سے سب سے سنگین وار تو ہو گا مگر پہلا نہیں ہے۔ اس سے پہلے سیکڑوں لڑکیوں کے اسکول انھوں نے بم سے اڑائے ہیں اور جب دنیا کے ضمیر نے اپنا رخ اس طرف کیا تو اسے اس پختون بچوں میں تیرہ سالہ لڑکی ملالہ نظر آئی۔ اور پھر عالمی ضمیر نے دنیا کے پورے ضمیر رکھنے والے لوگوں کی اسے رانی بنا دیا۔ یہ وار تھا اس پورے کلچر پر جس میں ہم پلے بڑھے ہیں۔

صبح اٹھنا، اسکول جانا، گھر آنا اور پھر کھیل کود کے پڑھنا لکھنا۔ اس کے برعکس انھوں نے ان ہی معصوم بچوں کو ذہنی طور پر اندھا کر کے انھیں خودکش بمبار بنایا۔ میں دیکھتا ہوں ان لال گالوں والے پھولوں جیسے بچوں کو جو پتھر توڑنے کے کام سے لے کر محنت و مزدوری کرتے ہیں اور ایسے کئی بچے ہیں، جن کو نفرت کی آگ میں پھینک دیا جاتا ہے انھیں مذہب کے نام پر دوسرے مذاہب کے لوگوں سے، دوسرے فرقے کے ماننے والے مسلمان بھائیوں کو واجب القتل کے سبق پڑھائے جاتے ہیں۔

مجھے یقین ہے میرے مذہب میں ایسا کچھ نہیں ہے۔ ہاں مگر بہت ہی حساس معاملہ ہوتا ہے یہ ہم نے کچھ لوگوں کو اس پر اجارہ داری کرنے کی اجازت دے دی۔ جنرل ضیا الحق جیسے لوگ بھی تھے جنھوں نے جمہوریت کے خلاف مذہب کو استعمال کیا۔ یہ کام کچھ غیر ملکی بادشاہوں کو بھی اچھا لگا۔ انھوں نے اپنی بادشاہت کو سہارا دینے کے لیے مذہب کی وہ تشریح کی جس نے پوری دنیا میں آگ پھیلادی اور پھر اس میں کم نظر لالچی دنیا کے سامراجی سوچ کو بھی اپنا فائدہ نظر آیا کے اس نے اشتراکیت کو شکست دینی تھی۔

ہمارے ہاں بہت پہلے سے مذہب اور ریاست گڈ مڈ ہو گئے، بابا جناح جلدی اللہ کو پیارے ہو گئے۔ مسلم لیگ یہاں کے لوگوں کی نمایندہ جماعت نہیں تھی۔ مشرقی پاکستان میں پانچ سالوں کے اندر شکست فاش سے ہمکنار ہوئی۔ انھیں اقتدار چھوڑنا اچھا نہ لگا۔ اور پھر یوں قرارداد مقاصد میں پناہ لی۔ جو بھی تھے ایوب تھے وہ سیکولر و لبرل مگر کشمیر میں انھیں 1948ء کی جنگ کی طرح 1965ء کی جنگ کے لیے جہادی چاہیے تھے اور پھر یہ ریکارڈ کی بات ہے کہ ہم نے ریگولر فوج کو بھی جہاد کے جبے پہنا کے کشمیر میں داخل کر دیا۔

مشرف بھی سیکولر تھے مگر کارگل کے لیے بھی انھیں جہادی چاہیے تھے یہ آپ تھے جنھوں نے ’’اچھے طالبان‘‘ اور ’’برے طالبان‘‘ والی اصطلاح دریافت کی۔ ہمارے دشمن نے بھی اسی بات میں پناہ لی انھوں نے بھی ان جہادیوں میں اپنے بچے پیدا کیے اب جو ’’اچھے طالبان‘‘ تھے وہ ہمارے تھے اور جو ’’برے طالبان‘‘ تھے وہ ان کے تھے۔ اچھے طالبان پاکستان میں شریعت چاہتے ہیں وہ کون سی شریعت چاہتے ہیں اس کا ہمیں پتہ نہیں لیکن پھر یہاں سے ساڑھے تیس کروڑ لوگوں کو یا تو قتل کر دیا جائے گا یا پھر ہزارہ کے لوگوں کی طرح انھیں ہجرت کرنے پر مجبور کیا جائے گا۔ یہ تنقید کسی پر نہیں بلکہ اپنے آپ پر ہے کہ ہمیں اب مذہب کو ایک اسٹریٹیجک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے سے اجتناب کرنا پڑے گا۔ ہمیں اب اس خطے میں امن چاہیے۔ ہمیں افغانستان، ایران اور ہندوستان سے تعاون بڑھانا ہو گا کیوں کہ ان تینوں ملکوں کا اور ہمارا دشمن ایک ہے۔

بہت ہی جرأت مند قدم تھا جنرل راحیل شریف کا جب اس شام کابل کے لیے چل دیے اور ہمارے ہندوستان میں 65 سال کی تاریخ میں پہلی مرتبہ جس طرح انھوں نے پشاور کے سانحے کو محسوس کیا ہے مجھے کلدیپ نیئر کا وہ بہت پرانا کالم یاد آ گیا کہ جناح کی خواہش تھی کہ ہندوستان اور پاکستان بھائی بن کر رہیں۔ اپنی سوانح حیات میں کلدیپ یہ بھی لکھتے ہیں کہ بہت سمجھایا ولبھ بھائی پٹیل نے نہرو کو کہ کشمیر کو پاکستان میں جانے دو مگر نہرو کو ضد تھی کہ اس کے اجداد کی تاریخ وابستہ ہے کشمیر سے۔

یہ ساری باتیں اپنی جگہ مگر پشاور کے بچوں نے اپنی جان کا نذرانہ دے کر پورے پاکستان کو ایک کر دیا ہے۔ اب یہ ایک قوم بنتے ہوئے نظر آ رہی ہے ۔ دراصل دشمن ہمارے طالبان نہیں بلکہ دشمن ہماری اپنی بنائی ہوئیNarrative ہے۔ ہماری تاریخ میں کی ہوئی ملاوٹ ہے اور ان کتابوں میں پڑی نفرت ہے جو بچوں کو ہم مذہب کے نام پر پڑھاتے ہیں۔ ہمارا دشمن کوئی اور نہیں بلکہ ہم خود ہیں۔ حالات اب یہاں تک پہنچ گئے ہیں کہ میں تو چھوڑوں ہوں کمبل کو لیکن کمبل مجھے نہ چھوڑے ہے۔

آج ایک عزم دہرانے کا دن ہے ۔ وہ عزم یہ ہے کہ ہم اب ڈر سے بڑے ہو چکے ہیں۔ ہم اپنے بچوں کو اسکول بھیجتے رہیں گے۔ ہم علم سے اس ملک کو منور کریں گے اور دنیا میں اپنا مقام پیدا کریں گے۔ ہم ناکام ریاست نہیں ہیں۔ ہم ان دہشت گردوں اور وہ سوچ جو دہشت گردوں کو جنم دیتی ہے اس سے ہر محاذ پر لڑیں گے۔ یہ جنگ کسی اور کی نہیں بلکہ یہ جنگ ہماری جنگ ہے۔

کتنے ہلکے وزن کے تھے ان شہید بچوں کے جنازے لیکن کاندھے پر رکھے نہیں جاتے تھے کہ جیسے پھولوں سے لدے تھے یہ سارے جنازے، نرم مخمل کے جنازے، روئی کے بلبلوں جیسے جنازے۔ کسی گمنام
شاعر کے اس شعر کی مانند:
پھول دیکھے تھے جنازوں پر ہمیشہ میں نے
کل میری آنکھ نے پھولوں کے جنازے دیکھے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔