(پاکستان ایک نظر میں) - کاروبار

ندیم جاوید عثمانی  اتوار 21 دسمبر 2014
موجود حالات میں کاروبار ماسوائے درد سراور پریشانی کے کچھ نہیں ۔۔۔۔ دہشتگردی اور ہنگاموں کی ضد میں اب ایک ہی کاروبار دکھائی دے رہا ہے جو سال کے 12 مہنے اپنی پوری رفتار سے چلتا ہے ۔۔۔۔ اور بدقسمتی سے وہ کاروبار ہے کفن، دفن کا! فوٹو: فائل

موجود حالات میں کاروبار ماسوائے درد سراور پریشانی کے کچھ نہیں ۔۔۔۔ دہشتگردی اور ہنگاموں کی ضد میں اب ایک ہی کاروبار دکھائی دے رہا ہے جو سال کے 12 مہنے اپنی پوری رفتار سے چلتا ہے ۔۔۔۔ اور بدقسمتی سے وہ کاروبار ہے کفن، دفن کا! فوٹو: فائل

میں فضل خان کو دکان کاایڈوانس تو دے آیا تھا مگر اب واپس گھر جاتے ہوئے اس ذہنی الجھن میں تھا کہ آخر کس چیز کی دکان کھولوں جو اس مشکل وقت میں میرے کام آئے مجھے بے روزگار ہوئے تقریباَ چھ ماہ کا عرصہ ہوچلا تھا اورجس وقت کمانے والے رورہے ہوں ایسے میں کسی ایک غریب آدمی کا یوں بے روزگارہوکر بیٹھنا تو گھر میں ماتم ہی ڈال دیتا ہے۔

میں کراچی کی ایک کچی بستی کا مکین ہوں یعنی آپ کہہ سکتے ہیں اُس طبقے کا فرد ہوں جن کے ہاتھ عموماَ وراثت میں ماں باپ کے نام کے علاوہ اور کچھ حصے میں نہیں آتا مگر میرا باپ اپنے نام کے ساتھ تحفے میں یہ ساٹھ گزکے گھر کی صورت سر چھپانے کا ایک آسرہ مجھے دے گیا تھا۔ شادی کو پانچ سال کا عرصہ ہو چکا ہے اور چار بچے ہیں۔ وہ کہتے ہیں نہ غریبوں پر بُرا وقت اور بچوں کی خوشحالی ہمیشہ مہربان رہتی ہے، تویہی حالات میرے ساتھ بھی تھے۔

میں ایک ٹیکسٹائل مل میں گذشتہ نوسال سے بطورِ شفٹ سپروائزر کام کررہا تھا۔ کراچی کے بُرے حالات جس قدر منظر پر رہتے ہیں ایک عام آدمی کے حالات و واقعات اتنا ہی پس منظر میں چلے جاتے ہیں۔ ہم غریبوں پر بُرا وقت ہنگاموں اور ہڑتالوں کی صورت میں آتا ہے تو ہمارے سرمایہ داروں پر بُرا وقت پرچی کی صورت آتا ہے۔ ایک چھوٹی سی پرچی جس میں مطالبہ کتنا بھی بڑا ہو لیکن یہ اُس سرمایہ دار کے کاروبار او ر زندگی کو رواں رکھنے کی ضمانت ہوتی ہے۔ اور جس ٹیکسٹائل مل سے میں منسلک تھا اُس کے سیٹھ کو اپنا کاروبار اور زندگی تو عزیز تھی مگر آئے دن کی یہ پرچیاں اُس کی صحت پر کسی خطرناک بیماری کی طرح اثرانداز ہورہی تھی۔ لہذا اپنی صحت کو بچانے کی خاطر کاروبار سمیٹ کر وہ تو اپنے اہلِ خانہ کے ہمراہ باہر نکل گیا اور ہمارے واجبات کی صورت جو رقم ہاتھ آئی اب میں چھ ماہ کی بے روزگاری کے عرصے سے تنگ آکراپنا کوئی کام شروع کرنا چاہتا تھا۔

ابھی ناجانے میں اپنے ان خیالات کے ساتھ اور کتنی دیر سڑکوں پر یونہی بھٹکتا کہ ایک سوزوکی کے ہارن نے یہ سلسلہ توڑ دیا۔ اب میرا رُخ اپنے گھر کے بجائے اپنے دوست رحمان کی دکان کی طرف تھا جو پیشے سے تو ایک نائی ہے مگر دن بھر مختلف پڑھے لکھے جاہل لوگوں سے اُس کا واسطہ رہتا ہے۔ اس لئے میرے خیال میں ایک وہی شخص تھا جو مجھے اس وقت کسی بہتر کاروبار کا مشورہ دے سکتا تھا اور جب میں نے سارے حالا ت رحمان کے گوش گذار کردیئے تو اُس نے مجھے اُس دکان میں بریانی حلیم کا کاروبار کھولنے کا کہا جسے میں نے یہ کہہ مسترد کردیا کہ جس علاقے میں ہم ہیں وہاں گھروں میں کھانے کے دال روٹی نہیں ہوتی وہ وہاں حلیم بریانی کیا کھائیں گے۔ پھر اُس نے چپل جوتوں کے کام کا مشورہ دیا ۔ نہیں یار لوگ ایک بار لے کر سالوں چلاتے ہیں اور ہم جس علاقے میں ہیں وہاں کچھ تو چپل جوتے خرید لیتے ہیں باقی اپنی یہ ضرورت مسجد سے پوری کرلیتے ہیں۔

میری یہ باتیں سُن کر وہ غصے میں بولا ابے اس علاقے میں ایسے لوگ اس علاقے میں ویسے لوگ کی کیا رٹ لگا رکھی ہے؟ پھر کیا کرے گا؟ میرے بھائی تو اُس دکان میں کفن دفن کا سامان رکھ لے۔ دیکھ امیر ہو یا غریب کوئی بھی طبقہ ہو۔ موت تو ہرطبقے میں آتی ہے اور آج کے حالات کے تحت یہ کاروبار سال کے بارہ مہینے چلنے والا ہے۔ اُس کو ٹالنے کی خاطر میں نے کہا چل سوچتا ہوں۔ اتنے میں ہی ایک آدمی بال کٹوانے کو آگیا تو رحمان اُس کی طرف متوجہ ہوگیا۔ بال کاٹنے کی کرسی پر اُس آدمی کو بٹھا کر حسبِ عادت ایف ایم کھول دیا اور میری طرف دیکھتا ہوا بولا چل ٹھیک ہے سوچ کر بتائیو۔ ایف ایم پر چلتے ہوئے تیز گانے کی آواز سے بیزار ہوکر میں نے بھی اُٹھنے کا ارادہ کیا اور ابھی میں رحمان کو خُدا حافظ کرنے کا سوچ ہی رہا تھا کہ ایف ایم پر بجتا ہوا گانا اچانک رُکا اور ایک لڑکی کی آواز آنے لگی جو کراچی کے کسی علاقے مین ہونے والے دھماکے کی خبر دے رہی تھی جس میں بڑی تعداد میں لوگ انتقال ہوگئے۔ خبر سُنتے ہی رحمان نے فوراَ میری طرف پلٹ کرمعنی خیز نظروں سے دیکھا اور اُس کی آنکھیں کہہ رہی تھیں میں نہیں بول رہا تھا آج کے حالات کے تحت یہی کاروبار ہے جو بارہ مہینے چلتا ہے! اتنے میں، میں دکان سے باہر نکل آیا۔ آخر اُس کے مشورے کے حساب سے اب مجھے بازار سے جاکر اپنے کاروبار کے لئے سامان بھی تو خریدنا تھا!

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔