جو بن کھلے مرجھا گئے

رئیس فاطمہ  ہفتہ 20 دسمبر 2014
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

سانحے، المیے اور دہشت گردی اب پاکستان کا مقدر بن چکے ہیں۔ وہی گھسے پٹے بیانات، وہی رٹے رٹائے جملے اور زبانی کلامی ہمدردی! بیانات دینے اور رسمی اظہار ہمدردی کے بعد وہ تزک و احتشام اور پوری سیکیورٹی کے ساتھ اپنے اپنے محلات اور قلعوں میں محفوظ، جہاں کی دیواریں بلٹ پروف اور تحفظ کے تمام انتظامات جدید ترین ٹیکنالوجی کے ساتھ انھیں اپنے حصار میں لیے ہوئے کہ جان تو صرف ان ہی کی قیمتی ہے۔ جن کے لوہے کو پارس پتھر نے سونا بنا دیا۔

کیا پشاور کا سانحہ کچھ نیا ہے؟ وہی پرانی کہانی کہ دہشت گرد خودکش جیکٹ سے لیس آرام سے عقبی دیوار پھلانگ کر آرمی پبلک اسکول میں داخل ہوئے اور اطمینان سے بچوں پہ فائرنگ کر دی۔ حملہ آوروں کے پاس کئی دن کا راشن بھی موجود تھا۔ موت کا رقص جاری اور بیانات کے مطابق ’’اپنے بچوں کے خون کا حساب لیں گے۔ وطن کی سرزمین درندگی پہ تنگ کر دی جائے گی۔ تمام شہید میرے اپنے بچے ہیں۔‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ کیا خوب، کیا آپ کے بچے پاکستان کے کسی اسکول میں پڑھتے ہیں، نواسے، پوتے یا کوئی اور بچہ؟ کیا تھر میں قحط، غربت اور بیماریوں سے مر جانے والے بچے آپ کے بچے نہیں ہیں؟ یا صرف جنازے اٹھنے پر ہی ایسی تقاریر لکھ کر دی جاتی ہیں؟ شرم آنی چاہیے ان بے وقعت اور بے قیمت الفاظ کو ادا کرتے وقت۔

سزا کسی دہشت گرد کو نہ دی جائے بلکہ ان کے لیے اسٹیج بنائے جائیں۔ انھیں سرخیل بنا کر بٹھایا جائے۔ ان سے تشدد سے بھرپور بیانات پڑوسیوں کے لیے دلوائے جائیں تا کہ وہ ان کی کرسیاں اور باریاں اپنی منحوس سوچ اور کارگزاریوں سے محفوظ رکھیں۔ کیا نیا ہے اس دفعہ؟ مہران بیس پر حملہ، لاہور میں حساس اداروں کی عمارات پہ حملہ؟ کراچی ایئرپورٹ پہ حملہ؟ سب ان ہی کے کارندے اور تنخواہ دار ہیں ۔

جو مذہبی اجتماعات کے نام پر حکمرانوں کے ایما پر اور ان کی منشا و مرضی سے وہی سب کرتے ہیں جس سے کرسیاں مضبوط رہیں۔ عوام روزی روٹی اور مہنگائی کے جنگل سے کبھی نہ نکل سکیں۔ اور اگر کوئی سر پھرا اپنی جان ہتھیلی پہ رکھ کر ان کے مکروہ چہروں کو بے نقاب کرنا چاہے تو ایسی ہوا چلا دو کہ شعور اور آگہی کے جلتے چراغ دہشت گردی کی آگ میں بھسم ہو جائیں۔ ہمیشہ کی طرح وارداتیے ماتم بپا کر کے چلے گئے۔ بعد میں حسب روایت پولیس الرٹ، فوجی جوان چوکس، ہر آنے جانے والے کی چیکنگ۔ بھائی! آپ پہلے کہاں سو رہے تھے۔ جو ہر حملے کے وقت حملہ آوروں کو کھلا اور کشادہ راستہ مل جاتا ہے۔

وہ باآسانی اپنا مشن مکمل کر کے اپنے اپنے ٹھکانوں پہ واپس جا کر کامیابی کی خوشیاں مناتے ہیں۔ اپنے گاڈ فادر سے مطلوبہ معاوضہ وصول کر کے کچھ عرصے کے لیے انڈرگراؤنڈ ہو جاتے ہیں۔ حلیے تبدیل کر لیتے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا کئی ’’بریکنگ نیوز‘‘ اور ’’ریٹنگ‘‘ کی Rat Race کی بدولت انھیں لمحہ بہ لمحہ ہر خبر ملتی رہتی ہے اور وہ اسی سے اپنی حکمت عملی تبدیل کرتے رہتے ہیں۔ صرف چند دن کے لیے۔ اس وقت تک جب تک کوئی نیا سانحہ نہیں ہو جاتا یا بے حس حکومت اور بے حس میڈیا اسے بھول نہیں جاتا۔ اور پھر اس ملک یعنی اسلامی مملکت میں سانحوں کی کیا کمی؟

منگل کو ہونے والے سانحے نے ذہن ماؤف کر دیا اور جمعرات کا کالم لکھنے کی ہمت نہ جٹا پائی۔ معالج کہتے ہیں ٹی وی پہ خبریں نہ سنیں، دہشت گردی کی خبریں نہ پڑھیں کہ اعصاب خصوصاً ریڑھ کی ہڈی کو بہت نقصان پہنچتا ہے، خصوصاً حساس اور رقیق القلب لوگوں کو۔ لیکن یہ کیونکر ممکن ہے کہ اخبار کے بغیر صبح ہو، اور لکھنے والا اپنے گرد و پیش سے خود کو لاتعلق رکھے؟ یہ تو صرف سیاستدان اور حکمران ہی کر سکتے ہیں کہ ان کی تو تقاریر بھی کمپوز کر کے سامنے رکھ دی جاتی ہیں۔ وقت ہوا تو پہلے سے پڑھ کر دیکھ لی ورنہ عین وقت پر کھڑا باوردی ملازم ایک ایک صفحہ آگے رکھتا ہے۔ آج ارادہ تو کسی اور موضوع پہ قلم اٹھانے کا تھا، لیکن اس سانحے نے سب کچھ بھلا دیا۔

مجھے تو یاد بھی نہیں کہ میں نے کن موضوعات کو آج کے کالم کے لیے چنا تھا۔ ہم بے حس نہیں ہیں۔ اب بھی صحافی اور قلم کار اس بے حسی کا شکار نہیں ہوئے۔ جس کے سمندر میں گزشتہ دس بارہ سال سے کرپٹ اور لٹیرے ارکان اسمبلی اور حکمران ڈوب چکے ہیں۔ انھیں نہ خوف خدا ہے نہ عذاب قبر کا خیال۔ یہ وہ ہیں جو عمر خضر لکھوا کر لائے ہیں، لیکن ان کے حافظے بڑے کمزور ہیں یا شاید مقوی غذاؤں کے ساتھ ساتھ ملک کی لوٹی ہوئی دولت نے ان کے حافظوں میں ایسی جگہ بنا لی ہے جیسے مکڑی کا جالا۔ جس طرح مکڑی اپنے لعاب دہن سے تیار کردہ جالے میں کسی بھی کیڑے مکوڑے کو پھانس لیتی ہے اور اپنی بھوک مٹاتی ہے۔

بالکل اسی طرح انھوں نے بھی اپنے دل و دماغ ہیرے، جواہرات، سونے چاندی اور پلاٹینم کے عذابوں سے بھر لیے ہیں۔ اسی لیے یہ حنوط شدہ فرعون ہر وقت گردن اکڑائے نظر آتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ آج نہ نمرود کا نشان ہے نہ شداد اور اس کی بنائی ہوئی جنت کا۔ ہلاکو، چنگیز صرف ظلم کی علامت ہیں۔ زندہ ہیں تو وہ اولیا اور صوفیائے کرام جن کے مرقد آج بھی ہر دکھی انسان کے دل پر مرہم رکھ رہے ہیں۔ انھی کے لنگر کے فیض بھوکوں کا پیٹ بھرتا ہے۔ کہ ان کا مذہب صرف انسان سے محبت تھا جو ایک عالمگیر حقیقت ہے۔

عبداللہ بن طاہر کی اولاد میں سے کسی شخص سے ایک بزرگ نے دریافت کیا کہ ’’تمہارا خاندان طویل عرصے تک حکمرانی کے مزے لوٹتا رہا، لگتا تھا تا قیامت حکمرانی تمہارے خاندان کا مقدر ہے۔ پھر کیا ہوا؟ تمہارے خاندان سے حکومت چھن جانے کا سبب کیا تھا؟ بظاہر تو بہت مضبوط نظر آتے تھے۔‘‘ اس شخص نے نہایت افسردگی سے جواب دیا کہ حکومت اور کروفر جانے کے تین اسباب تھے۔ اول راتوں کو دیر تک جاگنا۔ عیش و عشرت، شراب اور دیگر غیر اخلاقی باتوں میں رات بسر کرنا۔ دوم دن چڑھے تک سونا، کاہلی کو اپنانا۔ سوم حکومت کے اہم شعبوں کی نگرانی نااہلوں کو سپرد کرنا۔ باصلاحیت ذہین اور محنتی افراد کے بجائے قریبی رشتے داروں، عزیزوں، دوستوں اور ان کے دوست احباب کو سفارش کی بنیاد پر تمام سرکاری اداروں میں تعینات کر دینا۔

کیا یہ منظر نامہ آج کا نہیں ہے؟ لیکن آج کے پاکستانی لٹیرے اتنے احمق اور پاگل نہیں ہیں۔ یہ اپنی جان بچانے کے لیے تو پاگل پن کا سرٹیفکیٹ منہ مانگی قیمت پہ حاصل کر سکتے ہیں، انھیں بدنامی کی کیوں پرواہ ہو؟ اگر کبھی نیک نام رہے ہوتے تو اس کے چھن جانے کا خوف اور ندامت ہوتی۔ گرگٹ کی فطرت رنگ بدلنا موقع محل کے لحاظ سے۔ بچھو کی فطرت ڈنک مارنا اور سانپ کی فطرت ڈسنا ہے۔ یہ تینوں صفتیں ہمارے حکمرانوں میں یکجا ہیں۔ ان کی بادشاہت کو زوال نہیں ہوگا ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔