ڈر کر مریں، یا لڑ کر

غلام محی الدین  ہفتہ 20 دسمبر 2014
gmohyddin@express.com.pk

[email protected]

صحافت اپنی طرح کی ایک بالکل الگ دنیا ہے۔ اس کے پیشہ وارانہ تقاضوں کو نبھانا بعض اوقات اتنا اذیت ناک اور توڑ کر رکھ دینے والا ہوتا ہے کہ جیسے انسان چکی کے دو پاٹوں میں سے گزر رہا ہو۔ ہمیں اطلاعات کو، واقعات کو، سانحات کو پیش کرنا ہوتا ہے، لوگوں کی آگاہی کا سامان کرنا ہوتا ہے۔

ہر چیز کو بنا سنوار کر، تکنیکی لوازمات کے اہتمام کے ساتھ دوسرے اخبارات سے بہتر انداز میں پیش کرنے کی کوشش اس پیشے کا مرکزی نقطہ ہے۔ پھر اپنے ہم پیشہ ساتھیوں کے ساتھ میل ملاقات میں کسی واقعہ پر مختلف اخبارات کی کارکردگی زیر بحث آتی ہے۔ تنقیدی تبصرے بھی سننے کو ملتے ہیں اور توصیفی کلمات بھی۔ یہ سب انسانی نفسیات کی فطری ضرورتوں کا تانا بانا ہے، جس کے اندر رہ کر ہی زندگی تمام ہوتی ہے۔ لیکن اُس وقت انسان کے اندر کیسا خلاء پیدا ہو جاتا ہے جب کسی ایسے احساس سے گزرنا پڑے جہاں ہمارے پیشے سے وابستہ سب کی سب نفسیاتی ضرورتیں بے معنی ہو کر اپنا وجود کھو دیں۔ انسان کے اندر ایسا وسیع خالی پن پھیل جائے جس کا تا حدِ امکان کوئی کنارا نہ ہو۔

پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر گزرنے والی قیامت بھی کہنے کو ہزاروں لاکھوں واقعات کی طرح ایک واقعہ ہی ہے۔ لیکن جب آپ سے کہا جائے کہ اس پر اخبار کا خصوصی صفحہ بنانا ہے تو ساری پروفیشنلزم بھی اسی خلا میں کہیں گم ہو جاتی ہے۔ ایسے میں کیا کوئی کسی کو کہہ سکتا ہے کہ ’’تم نے کیا خوب صفحہ بنایا ہے‘‘ ’’کیسی کمال کی سرخی نکالی ہے۔‘‘ کسی کے مرنے پر صبر آنے کے لیے کسی وجہ کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ وہ وجہ اسی کے ساتھ کہیں نہ کہیں کسی حوالے سے منسلک بھی ہو لیکن یہ کیسی موت ہوئی کہ زندگی کی دھڑکن سے موت کے سکوت کے درمیان اُمید کا ایک لمحہ تک نہ ہو۔

اس اور اس جیسے کسی بھی واقعہ پر دُکھ اور تکلیف کا احساس تو رہے گا اور جب تک اس کی یاد باقی ہے یہ ہمیں سوگوار کرتی رہے گی لیکن اگر رونے دھونے سے کسی مسئلے کا حل نکل سکتا تو یہ قوم اتنا روتی کہ پاکستان کے سب مسئلے حل ہو چکے ہوتے۔

دہشت گردی کے ہاتھوں قومی سطح پر اذیت اٹھانے کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ آگ اور خون کا یہ کھیل مسلسل ہمیں زخم زخم کر رہا ہے، لیکن ہمارے ہاں مقتدرہ کی سطح پر اس صورت حال سے نکلنے کی نہ تو خواہش موجود ہے اور نہ ہی اہلیت۔ ہماری انتظامی مشینری اور اس مشینری سے کام لینے والے عوامی نمایندوں کا یہ عالم ہے کہ انتہائی معمولی نوعیت کے معاملات انفرادی سطح پر سانحات کا باعث بنتے رہتے ہیں لیکن دُکھ کے اس تواتر نے اب ایک معمول کی شکل اختیار کر لی ہے۔

ہمارے ہاں بچے گٹروں میں گر کر مارے جاتے ہیں لیکن ہم انتظامی سطح پر اس بات کی ضمانت فراہم کرنے کے قابل نہیں کہ آیندہ گٹر میں گر کر کوئی بچہ ہلاک نہیں ہو گا۔ ہماری حکومت کی یہ خواہش ہے کہ چائلڈ لیبر کے خاتمے کے اقدامات کا کریڈٹ اسے ملنا چاہیے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ کام اپنے تمام تر استحصالی ہتھکنڈوں سمیت جاری و ساری ہے۔ ہمارے ہاں موٹر سائیکل رکشہ کو تکنیکی اعتبار سے خطرناک سواری قرار دیا جا چکا ہے لیکن حکومت ان کے خلاف شکایت کرنے والوں سے متبادل انتظام کا وعدہ بھی کر لیتی ہے اور بعد میں ووٹروں کو اپنے ساتھ رکھنے کے لیے معاملات کو جوں کا توں رہنے دیا جاتا ہے۔

حکومت کی رٹ کا یہ عالم ہے کہ عوامی سطح پر کسی متنازعہ مجرم کو سزائے موت سُنا کر جج کو ملک چھوڑ دینے میں بھلائی نظر آتی ہے، چھوٹے چھوٹے چوروں بلکہ بے گناہوں کا تھانہ اور کچہری میں وہ حشر ہوتا ہے کہ خدا کی پناہ، لیکن اربوں کی چوری کرنے والے اگر کسی مصلحت کے تحت پکڑے بھی جاتے ہیں تو ان سے دست بستہ درخواست کی جاتی ہے کہ گو کہ جو انھوں نے کیا وہ ان کا پیدائشی حق تھا تاہم وقت کی نزاکت کا تقاضہ ہے کہ اس بدقسمت ملک کے لوٹے ہوئے مال سے کچھ عطا کر دیں تا کہ یہاں کے عوام کا منہ بند کیا جا سکے۔ بہت چھوٹے چھوٹے معاملات میں ہماری حکومت بے بس نظر آتی ہے۔ اس کے دامن میں اخلاقی برتری کا وہ اثاثہ ہی موجود نہیں جس کی بنا پر قوم میں کوئی تحریک پیدا کی جاتی ہے۔ ان کی زندگی کا ہر لمحہ کسی بھی قیمت پر خود کو اقتدار کی مسند پر قائم رکھنے پر صرف ہوتا ہے تو ایسے میں ان سے دہشت گردی جیسے بڑے معاملے سے نمٹنے کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے۔

اب تھوڑی دیر کے لیے فرض کر لیتے ہیں کہ ملک میں گزشتہ دس بارہ برسوں میں ہونے والے واقعات کی بنیاد پر ہمارے حکمران اس بات کا ادراک کر لیتے کہ جس جنگ میں ہم اُلجھے ہوئے ہیں اس میں متعین بارڈر لائن کا کوئی تصور نہیں، کوئی بازار، کوئی اہم عمارت، کوئی اسکول یا کالج، سڑک پر دوڑتی کوئی بس یا پٹڑی پر چلتی کوئی ریل گاڑی، کوئی مسجد یا پھر عوامی اجتماع کسی بھی وقت میدان جنگ بن سکتا ہے تو اس کا واحد حل یہی ہو سکتا ہے کہ مزاحمت کی صلاحیت وہیں پر موجود ہونی چاہیے جو دہشت گردوں کا ممکنا ہدف ہو سکتا ہے۔

اسرائیل ایک غاصب ریاست ہے، اس نے اپنے باطل دعوے کی بنیاد پر جو جنگ شروع کی اس کے لیے اپنے ہر شہری کو خواہ وہ مرد ہے یا عورت لازمی فوجی تربیت سے گزارا، ساری کی ساری قوم سپاہ ہے۔ تصور کیجیے کہ اگر ہم نے بھی دہشت گردی کے خلاف آنکھیں بند کرنے کے بجائے ہر اس جگہ فوری مزاحمت کا بندوبست کیا ہوتا جہاں دہشت گردی کا اندیشہ ہو سکتا ہے تو صورت حال بہت مختلف ہوتی۔ اس مقصد کے لیے دو ماہ کی تربیت بہت کافی ہوتی، ہر چھ ماہ بعد ایک ریفریشر کورس تیاری کو بہترین حالت میں رکھنے کے لیے کافی ہوتا۔

آرمی پبلک اسکول پشاور کے واقعہ کی مثال لے لیں، اسکول کے عملے کی تعداد 110 تھی۔ اگر یہ سب کے سب لوگ تربیت یافتہ اور مسلح ہوتے تو دہشت گردوں کے خلاف مزاحمت کا عمل اُسی وقت شروع ہو جاتا جب وہ اسکول کی دیوار پھاند کر اسکول کے پچھلے حصے میں کپڑے تبدیل کر رہے تھے۔ انھیں سب سے پہلے اسکول کے مالی نے دیکھا جیسے ہی اس نے شور مچایا اسے ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا گیا۔ اگر محض شور مچانے کے بجائے یہیں پر مزاحمت کا آغاز ہو جاتا تو واقعات کی ترتیب بھی بدل جاتی۔

عمارت کے اندر 110 مسلح افراد یقینا وہ کچھ نہ ہونے دیتے جو کچھ حقیقت میں ہوا۔ غالباً 15 منٹ کے اندر فوج وہاں پہنچ گئی تھی لیکن جدید خود کار ہتھیار ایک منٹ میں 200 سے زائد گولیاں اُگل سکتے ہیں (گو کہ گولیاں داغنے کی رفتار 600 سے 950 فی منٹ تک بتائی جاتی ہے لیکن میگزین بدلنے اور ہدف کے تعاقب کا وقت بھی شامل کر لیں)۔ حملہ آور سات تھے، اس حساب سے ایک منٹ میں 1400 گولیاں معصوم بچوں پر برس رہی ہوں گی۔ اب اس کا حساب 15 منٹ میں نکال لیں تو دل دہل جاتا ہے۔ خود کُش دھماکے الگ ہیں جن کی تباہی اسی صورت میں کم ہوتی اگر حملہ آور ہدف سے دور رکھے جا سکتے اور یہ فوری مزاحمت ہی سے ممکن ہے۔

ایسے کسی بھی حملے میں پہلی حکمت عملی انھیں اصل ہدف سے بھٹکانا ہوتی ہے۔ جب آپ انھیں اصل ہدف سے دور کر دیں تو وہیں دہشت گرد خسارے میں چلے جاتے ہیں۔ انھیں وہ کچھ حاصل نہیں ہو پاتا جس کے لیے وہ جان کی بازی لگاتے ہیں۔ جتنا آپ دہشت گردوں کی کارروائیوں کو ان کے لیے مشکل بناتے جاتے ہیں، نفسیاتی سطح پر اتنا ہی وہ شکست کے قریب سرکتے چلے جاتے ہیں۔ لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا تعفن زدہ، بیمار سیاسی کلچر معاشرے میں لاکھوں مُسلح اور تربیت یافتہ عام پاکستانیوں کی موجودگی کا خطرہ کیسے مول لے سکتا ہے۔

میری بیان کردہ خیالی صورتحال میں بھی نقصان یقینا ہوتا لیکن بہت کم اور پھر اس مزاحمت کا اثر دہشت گردوں پر حوصلہ شکن ہوتا۔ جماعت اسلامی خیبرپختونخوا کے امیر پروفیسر ابراہیم نے ایکسپریس فورم میں کہا کہ ’’ہم جینا چاہتے ہیں اور وہ مرنا، اسی لیے ان پر قابو پانا مشکل ہے‘‘ لیکن اگر ہر قدم پر ان کے خلاف مزاحمت کی دیوار کھڑی کر دی جائے تو ان کی مرنے کی خواہش انھیں بے مزہ اور بیکار لگنے لگے گی۔ یہی وہ اہم ترین نکتہ ہے جہاں سے دہشت گردوں کی مکمل شکست کا آغاز ہوتا ہے۔ قوم کو یہ باور کر لینا چاہیے کہ موت سے فرار ممکن نہیں لیکن یہ بہر صورت اہم ہوتا ہے کہ جان کس طرح اور کس مقصد کے لیے قربان ہوئی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔