جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا…

شیریں حیدر  ہفتہ 20 دسمبر 2014
 Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

جو ہوتا میرے اختیار میں یہ تو میں
اڑ کے پہنچ جاتی آسمان کی وسعتوں میں
چھوتی تمہاری خون آلود روحوں کو
جنھیں فرشتوں کے قافلے لینے آئے ہیں اور…
پوتر حوریں استقبال کو پلکیں بچھائے ہوئے ہیں
جن فضاؤں میں گم ہو گئے ہو تم… میں صدقے ان فضاؤں کے
جو میں خوش قسمت ہوتی تو
پہنچتی وہاں اور چومتی ان خاک آلود روشوں کو
جن پر سے ہر صبح کی طرح اس روز بھی تم گزرے ہو گے
اپنے نازک کاندھوں پر اٹھائے ہوئے
بھاری بوجھ کتابوں کے …وہ بوجھ جن سے تم آزاد ہوئے اب
جو ہوائیں اٹھکیلیاں کرتی تھیں تم سے… میں واری ان ہواؤں کے
میں ان نشستوں پر بیٹھ کر محسوس کرتی
لمس تمہارے ننھے اور خوشبو دار جسموں کا
وہ جو چند گھنٹے قبل یہاں تھے، اب نہیں ہیں
جنھیں غسل دے کر مقدس لہو کا…
کہکشاؤں کا مسافر بنا دیا گیا ، میں قربان ان کہکشاؤں کے
میں بوسے دیتی ان معصوموں کے ماتھوں پر
جن کے زرد عارض مرجھائے ہوئے پھولوں کی طرح ہیں
آنکھوں میں مگر عزم کی جوت ہے
لب سسک سسک کر کہہ رہے ہیں
ہم بھی ضرب عضب کے سپاہی ہیں !!!!
میں صدقے عزم کی ان صداؤں کے
کیا اب بھی جی رہے ہیں وہ، جنہوں نے جنم دیا تمہیں
کس تکلیف میں ہیں وہ اب، کس کرب سے گزر رہے ہیں؟
کس طرح خود پر ضبط کیے ہوئے ہیں
جو تمہاری ہر تکلیف پر کہہ اٹھتی تھیں، ’’ماں واری… ماں صدقے!!‘‘
میں جھانک کر دیکھتی دل ، ان غم ناک باپوں اور ماؤں کے
میں سلام کرتی… ان کی عظمت کو
وہ جو علم کے مینارہیں، جو روحانی ماں باپ تمہارے
جنہوں نے موت کو بھی گلے لگا لیا … مگرسنگ تمہارا نہ چھوڑا!!!
ان کی محبت، ان کی شفقت، ان کی حرمت کو سلام
رہتی نسلوں تک جو بن گئے ہیں عظمت کے نشاں …
میرے سب جذبے ہوئے ، علم کے ان پیشواؤں کے

کاش میں روک سکتی ان زبانوں کو
جو اب بھی زہر اگل رہی ہیں، جو اب بھی جواز ڈھونڈتی ہیں
زخمی کرتے ہیں ان کے منفی الفاظ
آنکھ سے لہو ٹپکتا ہے ان کے بیان سن کر
وہ جو اسی تھالی کو چھیدتے ہیں، جس میں کھاتے ہیں
یہ کس کی زبان ہے جو ان کے منہ میں ہے؟؟
میں ہاتھ جوڑ کر کہتی ان بے رحموں سے
مت دکھاؤ ان معصوم شہیدوں کے بے ترتیب اجسام
اپنے کیمروں سے، ٹیلی فون پر، ٹیلی وژن پر
فیس بک اور ٹویٹر پر مت ان کا مقدس لہو نمائش کرو
نہ کرو بے حرمتی اس کی عظیم شہادت کی…
ان کی مسکراہٹیں ہی فقط یاد رہنے دو!!!
ان کے تر و تازہ اور شاداب چہرے ہی تکنے دو
ان کی ماؤں کو پریشان نہ کرو…
ان کے باپوں کو اذیت نہ دو!!
ان کے پیاروں کو، ان کے چاہنے والوں کو
لہو مت رلاؤ…

دوسروں کو کیوں قصور وار کہیں ؟
خود ہم میں ہی اس قدر تفرقہ ہے
کوئی اور ہمیں کیوں آ کر مارے گا؟
ہم تو خود ہی اپنے مفادات کو بیچ دیتے ہیں چند ٹکوں کی خاطر
اتنا سستا ہے لہو اس ملک میں ، کس قدر ارزاں جان!!
جان بچانے کی گولی مہنگی ہے ، جان لینے والی سستی
مرنا آسان ہے، جینا مشکل
جان لینے کو کئی تیار ہیں، جان بچانے والا کوئی نہیں
ہم نے آستینوں میں پال رکھے ہیں سانپ کئی…
اپنے پیٹ کاٹ کر انھیںکھلا رہے ہیں
ان کے نفع کی خاطر ، ہم نے ان گنت نقصان اٹھائے ہیں
کیسے پیارے پیارے پھول… کیسے چاند چہرے گنوائے ہیں!!!
اب وقت ہے جاگ جانے کا، متحد ہونے، سیسہ پلائی دیوار بن جانے کا
اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر ، دشمن کے چھکے چھڑانے کا!!!
تا کہ کوئی دشمن اب وار نہ کرے… نہ ہی اس کے ناپاک ارادوں سے
نہ کوئی گود اجڑے، کوئی بہن تنہا نہ ہو، کو ئی بچہ یتیم نہ ہو، کسی کا سہاگ نہ اجڑے
اب بھی سنبھل جاؤ ورنہ… اور سانحوں کی چاپیں گردوں سناتا ہے…

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔