ایک دہکتی ہوئی کتاب

تنویر قیصر شاہد  اتوار 21 دسمبر 2014
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

رواں برس آخری ہچکیاں لینے کے لیے الوداعی دہلیز پر کھڑا ہے۔ تیزی سے رخصت ہونے والے 2014ء میں نان فکشن کے حوالے سے شایع ہونے والی جُملہ اردو اور انگریزی پاکستانی کتابوں میں یہ تصنیف ممتاز اور قابلِ ذکر رہے گی۔ یہ اس لیے بھی خصوصی توجہ کی مستحق ہے کہ (غالباً) پہلی بار پاکستانی سرمایہ دار اور سرمایہ کار طبقات میں سے ایک کامیاب بزنس مین نے قلم اٹھایا ہے اور اپنی پہلی ہی زقند میں کامیاب ٹھہرے ہیں۔

بہت سے افراد، جن میں زیادہ تر حکمران اشرافیہ شامل ہے، نے انکشاف خیز یادوں پر مشتمل اس کتاب کو ناپسند کیا ہے لیکن مصنف خوش ہے اور چیلنجوں سے نبردآزما ہونے کا دعویٰ بھی رکھتے ہیں۔ یہ تصنیف محض ایک کتاب نہیں بلکہ کتاب خواں طبقے اور نوجوانوں پر احسان بھی ہے کہ مصنف نے جرأت مندی سے مقتدر حلقوں کے تالاب میں پہلا پتھر پھینکا ہے۔ اس کتاب کے آئینے میں ہم پاکستان کے گزشتہ چار عشروں کی سیاسی و تجارتی تاریخ کو متحرک الفاظ میں دیکھ سکتے ہیں۔

اس کتاب کا نام ’’سچ کا سفر‘‘ ہے جو پہلے انگریزی زبان میں Truth  Always  Prevails کے زیرِ عنوان شایع ہوئی تھی۔ کئی سیاسی و غیر سیاسی چہروں کو بے نقاب اور سچ کو بے نیام کرتی یہ کتاب، وطنِ عزیز کے ایک معروف اور کامیاب بزنس مین جناب صدر الدین ہاشوانی نے لکھی ہے۔ ایک روز لاہور کے معروف پبلشر، دانشور اور کالم نگار جناب فرخ سہیل گویندی کا مجھے فون آیا۔ آپ نے یہ جانفزا خوش خبری سنائی کہ مجھے ’’سچ کا سفر‘‘ بھجوا دی گئی ہے، اسے پڑھ کر مطلع کیجیے۔

تیرہ ابواب اور 223 صفحات پر مشتمل اس کتاب کو تین دنوں کی تین نشستوں میں ختم کیا ہے تو ذہن مندرجات سے سرشار بھی ہے کہ مصنف نے واقعتاً جرأت مندی اور کسی کی ناراضی کی پروا کیے بغیر اپنا سچ صفحۂ قرطاس پر بکھیر کر اپنا اخلاقی فریضہ کامیابی سے انجام دے ڈالا ہے۔ مصنف مبارکباد کے مستحق ہیں کہ کاروباری طبقے میں شاندار کتاب لکھ کر وہ سب پر بازی لے گئے ہیں اور اس میدان میں پائینئر بھی کہلائے جانے کے حقدار ٹھہرے ہیں۔

مصنف بغیر جذباتی ہوئے ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ پاکستان میں سیاست اور بزنس اس طرح ایک دوسرے میں پیوست ہو چکے ہیں کہ کسی بھی کاروبار کو چلانا اور آگے بڑھانا ہے تو اہل اقتدار کا قرب ضروری ہے اور ان کی خدمت کرنا ناگزیر۔ کاروبار کے لیے اگر کسی نے سچ اور دیانت کا ترازو تھام کر، کسی سیاسی طاقت کا سہارا لیے بغیر بروئے کار آنا ہے تو اسے واقعی معنوں میں سر ہتھیلی پر رکھنا پڑے گا۔

مصنف نے صرف سچ کے سہارے آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا تو انھیں نہ صرف اپنے عزیزوں کی طرف سے حوصلہ شکنی کا منظر دیکھنا پڑا بلکہ کئی حکمرانوں نے ان کی جان بھی لینا چاہی اور ان کا جملہ مال و اسباب بھی ہڑپ کر لینا چاہا۔ چنانچہ وہ مسلسل زیڈ اے بھٹو، جنرل ضیاء الحق، بے نظیر بھٹو، نواز شریف، جنرل پرویز مشرف اور آصف زرداری کی حکومتوں میں زیرِ عتاب بھی رہے، کئی بار پاکستان سے بے سروسامانی کی حالت میں فرار بھی ہونا پڑا، دو باوردی حکمرانوں کا زبانی تشدد بھی سہنا پڑا اور جیل کی ہوا بھی کھانا پڑی۔ وہ کہتے ہیں کہ 2008ء اور 2009ء کے دوران ان کی جان لینے کی پانچ بار کوششیں کی گئیں۔

سچ کی راہ میں انھیں اپنے قریبی عزیزوںکی جفا جوئی بھی برداشت کرنا پڑی اور سویلین خفیہ اداروں کی طرف سے رات کے اندھیروں میں اپنے گھر پر اچانک چھاپوں کا دُکھ بھی سہنا پڑا۔ وہ سب کچھ سہہ گئے اور بے بسی کے عالم میں انھوں نے اپنے پروردگار سے یہ دعا مانگی: ’’اے اللہ، جس حکمران نے زیادتی کی ہے ‘ اس حکمران کو اس دنیا سے ذلت و رسوائی کے ساتھ اٹھا لینا۔‘‘ یہ قبولیت کے لمحات تھے؛ چنانچہ وہ حکمران اسی طرح اقتدار اور زندگی سے محروم ہوا جس طرح دکھے دل نے دعا مانگی تھی۔

مصنف نے اپنی انکشاف خیز کتاب ’’سچ کا سفر‘‘ میں بظاہر معصوم اور بے ضرر لگنے والے کئی پاکستانی حکمرانوں کا اصل چہرہ قوم کو دکھایا ہے۔ اس کے لیے ان کا قلم کانپا ہے نہ ان کے الفاظ میں لرزش پیدا ہوئی ہے۔ انھوں نے پاکستان کے ایک سابق وزیراعظم کے بارے میں یہ بتا کر ہمیں شرمندہ اور ششدر کر دیا ہے کہ کس طرح وہ صاحب جعلی کاغذات کی بنیاد پرکاریں پاکستان منگواتے اور لوگوں کو فروخت کر کے بھاری نفع کماتے۔ ایسی ہی ایک کار وہ انھیں بھی بیچنا چاہتے تھے جو جعلی کاغذات پر درآمد کی گئی تھی۔ اور جب مصنف نے یہ گاڑی خریدنے سے انکار کر دیا تو یہ مقتدر شخصیت ان کے خلاف ہو گئی۔

سچ ہمیشہ کڑوا اور تلخ ہوتا ہے۔ کہنے سے بھانبھڑ مچتے ہیں اور کذب گوئی سے جان بچتی ہے، خصوصاً ہمارے ایسے معاشروں میں جہاں بدقسمتی سے راست گوئی کا چلن نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے۔ ’’سچ کا سفر‘‘ اسی لیے ایک بے پناہ کتاب ہے۔ اس کے مطالعہ سے سیاسی اعتقادات بھسم بھی ہو سکتے ہیں اور کئی مقتدر شخصیات کے بارے میں لکھے گئے سچ پڑھ کر سیاسی ایمان کی کشتی بھی ڈول ڈول جاتی ہے۔

مصنف نے پاکستان کے ایک سابق حکمران کے ابتدائی حالات اور ان کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد جو واقعات لکھے ہیں، یہ آسانی کے ساتھ ہضم ہونے والے نہیں۔ زیادہ حیرت کی بات مگر یہ ہے کہ بہت سے عذاب اور الزامات سہنے کے باوجود مصنف، جو پاکستان کے معروف بزنس مین بھی ہیں، نے پاکستان چھوڑنے کا کبھی سوچا بھی نہیں۔ وطن کی مٹی ہی سے وابستہ رہنے کی قسم کھائے رکھی۔

وہ جوہری ہتھیاروں کے اگرچہ سخت مخالف ہیں لیکن جب بھارت نے 1998ء میں ایٹم بم پھاڑ کر پاکستان کو دھمکیاں دینے کا آغاز کیا تو وہ اپنے مقتدر عالمی دوستوں کی پروا کیے بغیر مردانہ وار سامنے آئے اور کہا کہ نواز شریف کو ہر قسم کے سود و زیاں سے بالاتر ہو کر ایٹم بم پھاڑ دینا چاہیے۔ مصنف نے پاکستان کے کئی حکمرانوں کے بارے میں، جن کے ہاتھوں انھیں ذاتی اور کاروباری پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا، خاصے سخت الفاظ استعمال کیے ہیں۔

شاید وہ پاکستانی حکمرانوں کے بارے میں نرم الفاظ لکھنے کے قائل ہی نہیں۔ نواز شریف بھی ان کی باڑ پر آئے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ نواز شریف اور شہباز شریف کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے ہوئے توقع کرتے ہیں کہ دونوں بھائی ملک و قوم کی خدمت انجام دے سکتے ہیں۔ یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ ہر صبح شریف برادران کے لیے دعا کرتے ہیں۔ یہ شاندار کتاب نہایت خوبصورت انداز میں چھپی ہے۔ اس کا ظاہر بھی دلکش ہے اور باطن اس سے زیادہ دلکشا۔ اسے جمہوری پبلی کیشنز، 2 ایوانِ تجارت روڈ لاہور نے شایع کیا ہے ۔ قیمت 590 روپے اور پبلشنگ ادارے کا فون نمبر ہے: 092-42-36314140

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔