شہر خموشاں کے بے روح گیت

اقبال خورشید  اتوار 21 دسمبر 2014

میں شہر خموشاں میں متذبذب کھڑا ہوں۔

اس کا سبب سانحہ پشاور نہیں کہ اس نوع کے واقعات میری تقدیر میں لکھے ہیں، ادھر مائوں کی گود اجڑنا رسم ہے، میں تو قبرستان کی موت سی خاموشی میں حرکت کرتے ان گیتوں پر متحیر ہوں، جو زندوں کے لیے مخصوص ہیں۔ یک جہتی اور اتحاد کے نغمے۔۔۔ عزم و حوصلے کے ترانے۔۔۔ سنہری دعووں سے مزین گیت۔۔۔ غیرمتعلقہ گیت، جو ہم مردوں کو زیب نہیں دیتے۔

ننھے معصوم بچوں کی لاشیں اٹھانے کے بعد الفاظ اور جذبات کی لاحاصل جگالی نے فقط اکتاہٹ ہی بڑھائی۔ بڑھکیں مارنے والے، نرگسیت کے شکار اس ہجوم نے ’’زندہ قوم‘‘، ’’حوصلے بلند ہیں‘‘ اور ’’پرزور مذمت‘‘ جیسے پٹاخے چلاکر کچھ لمحوں کو آسمان رنگین ضرورکر دیا، مگر چند ساعتوں بعد فقط تاریکی اور گندھک کی بو رہ گئی۔

ایک گروہ، جس پر اب ترس آتا ہے، وہی پرانا ریکارڈ لے آیا: ’’یہ دہشت گرد انسان نہیں ہوسکتے، یہ مسلمان نہیں ہیں!‘‘ ذمے داریوں سے دامن چھڑانے کا آسان نسخہ۔ گردن ہلائو، کاندھے اچکائو، اور آگے بڑھ جائو۔ سوشل میڈیا پر، دالانوں ایوانوں میں جو راگ الاپے جارہے ہیں، وہ فکری قحط اور بے حسی کا نمونہ۔ ’’سوگ ‘‘اور’’ مذمت‘‘ جیسے گھسے پٹے الفاظ ہمارے کھوکھلے پن کا ثبوت۔ کون سا سوگ، کس کی مذمت؟ ظلم اور جبر تو ہماری رگوں میں بیٹھ چکا ہے۔ ہم اپنی عورتوں کو زندہ درگور کرتے آئے ہیں۔ کم سن بچیوں کی عصمت دری ہم نے کی۔ اپنے کنویں سے پانی بھرنے والے ہاری کے بچے پر کتے ہم چھوڑتے ہیں۔ تھر میں ہلاکتیں 225 کی حد عبور کر چکیں، اور اب تک ذمے داروں کا تعین نہیں ہوسکا۔

کون سی یکجہتی کی بات کرتے ہیں جناب؟ جسے حاصل کرنے کے لیے ہمیں اپنے بچوں کو کھونا پڑا۔ معصوم بچوں کی شہادت پر کس ڈھٹائی سے کہا جا رہا ہے کہ قوم ایک نئے جوش کے ساتھ متحد ہوگئی۔ شرم ناک!

دہشت گردوں کے خاتمے کا عزم بھی صرف کرب بڑھاتا ہے۔ کیا یہ دہشت گردی کا پہلا واقعہ ہے؟ ہم تو برسوں سے بارود کا کھاجا بنے ہیں، ہمارے بچوں کے قتل کا سلسلہ دراز ہے۔ انتہاپسندی ہمارے دماغ چاٹ گئی اور جبر نے ہمارے دلوں میں میخیں ٹھونک دیں۔

عزم کا اعادہ زندہ قومیں کرتی ہیں، قبرستان میں حوصلوں کے جھنڈے نہیں لہراتے۔ ملالہ پر حملے کو ڈراما قرار دینے والے، دہشت گردوں کی مذمت میں متذبذب نظر آنے والے ٹکروں میں بٹے اس گروہ کو، جو قوم ہونے کے زعم میں مبتلا، یہ قطعی زیب نہیں دیتا۔

ہمیں ایک موذی مرض لاحق ہے، احساس کمتری کا مرض، جس کا علاج کرنے کے بجائے ہم نے اپنے چہرے پر رعونت اور تکبر کا نقاب اوڑھ لیا۔ اپنی ثقافت، روایت اور عقائدکی بڑائی بیان کرنے سے سکون نہیں ملا، تو دوسروں کو کمتر ٹھہرانے کی قبیح عادت اپنا لی۔ اپنے صحن کا کچرا صاف نہیں ہورہا، اور پوری دنیا کا ٹھیکا اٹھا لیا ہے۔ کبھی غسل کیا نہیں، اور دوسروں کو ناپاک ٹھہرا رہے ہیں۔ محمد حنیف کا قلم بڑی بہادری سے نظام کی خامیوں کی نشان دہی کر رہا ہے۔ مبارک حیدر نے بہتری کا راستہ بھی سمجھایا، مگر ہم ٹھہرے؛ اندھے، بہرے اور گونگے!

حکومتی سوگ، دھرنے کا خاتمہ، تجارتی مراکز بند رکھنے کا فیصلہ، چراغاں، خاموشی؛ سب لاحاصل ثابت ہوگا، کیوں کہ چند ہفتوں بعد ہم اس واقعے کو بھول چکے ہوں گے۔ اگلی بار ہم اسے تب ہی یاد کریں گے، جب ایک اور اسکول پر حملہ ہوگا، جیسے 16 دسمبر کو اچانک ہمیں چودہ سالہ طالب علم، اعتزاز یاد آگیا۔ اب کسی اگلے سانحے ہی پر ہمیں پشاور کے شہدا یاد آئیں گے، بس!

گو بہتری کا امکان نہیں۔ بدبختی ہمیں حصار میں لے چکی۔ ہم دھیرے دھیرے مر رہے ہیں، مگر چند تجاویز پیش کرنے کی جسارت چاہوں گا۔ چراغ بھی تو بجھنے سے پہلے بھڑکتا ہے۔

٭ نرگسیت سے نکلیں، سچائی قبول کریں: یہ اولین اقدام ہے۔ اپنی خودساختہ عظمت ترک کریں۔ بڑھکیں مارنے، شیخی بگھارنے، اپنے گن گانا بند کریں۔ یہ جہل کی نشانی۔ اور جہل ظلم۔ تسلیم کریں کہ ہم انسان ہیں، اور انسان سے غلطیاں ہوتی ہیں۔ ہم سے تو سیکڑوں ہوئیں۔ اپنی بڑائی بیان کرنے کی لاحاصل عادت ترک کریں گے، تو آنکھوں پر چڑھا رعونت کا پردہ ہٹ جائے گا۔ کچھ پشیمانی ہوگی۔ شاید عاجزی بھی ہاتھ آجائے گی، جو علم کی جانب پہلا قدم ہے۔

٭ تذبذب نہیں فیصلہ: ہم ہنوز متذبذب ہیں۔ گومگو کی یہ کیفیت علم سے دوری کا نتیجہ۔ جب انکساری پیدا ہوگی، تو سنجیدگی سے سوچیں، ہم کون سا پاکستان چاہتے ہیں؟ کس نظریے کے اطلاق کے خواہش مند؟ ہمارے بچوں کا مستقبل کیا ہوگا؟ تعلیم کے حامی یا اسکول دشمن؟ سماج میں رواداری اور برداشت کے خواہش مند یا جبر اور تشددکے متلاشی؟ اگر دینی ریاست چاہتے ہیں، تو خود میں امت وسط کے خواص پیدا کریں۔ اس کے لیے ظلم کا نہیں، علم کا راستہ چننا ہوگا۔ کتاب مبین سے رجوع کرنا ہوگا، جسے ہم بھلا بیٹھے ہیں۔

٭ نظریاتی جنگ: چاہے آپ دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ملیامیٹ کردیں، انھیں سولی پر لٹکا دیں، صفایا کردیں۔۔۔ آپ یہ جنگ ہار جائیں گے۔ کیوں کہ دشمن صرف عسکری محاذ پر نہیں، نظریاتی محاذ پر بھی آپ سے برسرپیکار ہے۔ نظریاتی محاذ ہی وہ میدان، جہاں آپ کواصل مشکل درپیش۔ نظر دوڑائیں، پاکستانیوں کی ایک تعداد تو ہنوز اس واقعے کے جواز تراش رہی ہے۔ چوں کہ، چناں چہ، دراصل کا جال لیے بیٹھی ہے۔ امریکا مخالفت پر اعتراض نہیں، مگر اس سے نبردآزما ہر قوت کو اپنا قبلہ مان لینا کیا درست ہے؟ بہت سے تجزیہ کاروں کا اصرار ہے کہ انتہاپسندوں کی تعداد قلیل ہے۔ یہ سچائی سے نظریں چرانے کا عمل ہے۔ دہشت گردوں سے بڑا مسئلہ ان کے وہ خاموش نظریاتی حامی ہیں، جو زندگی کے ہر شعبے میں، ہر میدان میں موجود، ہر شہر، ہر گلی میں۔ یہ مخالف مسلک کے قتل عام پر خوش ہوتے ہیں۔ اپنے پڑوسی کو کافر ٹھہراتے ہیں۔ اگر ان منافقوں سے نجات کی خواہش ہے، تو آپ کو ایک بڑی جنگ لڑنی ہوگی۔  اسکالرز کو قائل کرنا ہوگا کہ وہ مصلحت پسندی سے نکل کر اپنا حقیقی کردار ادا کریں۔ اب دوا، دوا کے خواص اپنائے، زہرکے نہیں۔

اِن بہ ظاہر سادہ، مگر اطلاق میں انتہائی دشوار تجاویز پر عمل کرکے ہم جہل کے خونیں دلدل سے نکل سکتے ہیں۔ میں ان احباب کے لیے دعا گو ہوں، جنھیں سرنگ کے دہانے پر روشنی نظر آتی ہے، کیوں کہ میرے روبرو فقط تاریکی۔ معلوم ہوتا ہے کہ زوال پسندسوچ نے ریاست کی رگوں تک رسائی حاصل کر لی ہے۔ ممکن ہے، یہ قنوطیت پسندی ہو، لیکن اگر ہم اپنے بچوں کی بھی حفاظت نہیں کرسکتے، تو ہمیں ’’زندہ قوم‘‘ کا خودساختہ خطاب ترک کردینا چاہیے۔

اپنی غلطیاں تسلیم کریں۔ خوش فہمی کا لباس اتاریں۔ زہریلی فصل پر درانتی چلائیں۔ یاد رکھیں، جو قومیں اپنے جہل سے سبق نہیں سیکھتیں، ان کے لیے سقوط معمول بن جاتے ہیں۔ یہ 16 دسمبر نہ تو پہلا ہے، نہ ہی آخری۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔