گریٹر واٹر سپلائی منصوبہ K-4 کیلیے زمین آئندہ ہفتے واٹر بورڈ کے سپرد کی جائیگی

سید اشرف علی  پير 22 دسمبر 2014
حب ڈیم خشک ہوجانے سے کراچی میں شدید ترین پانی کا بحران جاری ہے جبکہ کے فور منصوبہ ساڑھے 8 سال سے تاخیر کا شکار ہے۔  فوٹو: فائل

حب ڈیم خشک ہوجانے سے کراچی میں شدید ترین پانی کا بحران جاری ہے جبکہ کے فور منصوبہ ساڑھے 8 سال سے تاخیر کا شکار ہے۔ فوٹو: فائل

کراچی: سندھ حکومت گریٹر کراچی واٹر سپلائی اسکیم K-4 کیلیے درکار زمین اگلے ہفتے واٹر بورڈ کے حوالے کردی جائیگی جس پر واٹر بورڈ سروے اور ڈیزائننگ کے کام کا آغاز کردے گا۔

وفاقی وصوبائی حکومتوں کی عدم دلچسپی کے باعث K-4منصوبہ ساڑھے 8 سال سے تاخیر کا شکار ہے، پہلے فیز 260 ملین گیلن یومیہ پر 25.5ارب روپے لاگت آئیگی جس میں مساوی 50فیصد وفاقی وصوبائی حکومتوں کو ادا کرنے ہیں، سندھ حکومت کی جانب سے زمین کا معاملہ بھی بڑے عرصے سے التوا کا شکار تھا تاہم کمشنر کراچی، ڈپٹی کمشنر ملیر اور نئے پروجیکٹ ڈائریکٹر کے فور کی کاوشوں سے زمین کا مسئلہ سیکشن 6کے تحت حل کرلیا گیا ہے، اس سیکشن کے تحت زمین کی قیمت کی فوری ادائیگی نہیں کی جائیگی اور زمین کا کنٹرول واٹر بورڈ کے سپرد کردیا جائے گا، زمین کی قیمت بعدازاں سندھ حکومت ادا کریگی۔

تفصیلات کے مطابق حب ڈیم خشک ہوجانے سے کراچی میں شدید ترین پانی کا بحران جاری ہے جبکہ کے فور منصوبہ ساڑھے 8 سال سے تاخیر کا شکار ہے، محکمہ نکاسی وفراہمی آب نے یہ منصوبہ 2006میں تیار کیا تھا تاہم صوبائی حکومت کی جانب سے فوری طورپرکے فور منصوبے کیلیے دریائے سندھ سے اضافی1200کیوسک یا 650ایم جی ڈی پانی کا کوٹہ مختص نہ کیے جانے کے باعث اسے پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ میں جمع نہیں کرایا جاسکا۔

واضح رہے کہ سابق سٹی ناظم مصطفیٰ کمال کی دور میں واٹر بورڈ نے منصوبے کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے انڈس ریور بیسن اتھارٹی(ارسا) سے درخواست کی کہ دریائے سندھ سے کراچی کیلیے مزید 12 سوکیوسک پانی کا کوٹہ مختص کیا جائے تاہم ارسا نے کوٹے میں اضافے سے صاف انکار کرتے ہوئے صوبائی حکومت کو تجویز دی کہ سندھ حکومت اپنے کوٹے سے کراچی کو اضافی 12سو کیوسک پانی فراہم کردے، وفاق اور صوبائی حکومت کے اس تنازع میں6 سال ضائع ہوگئے اور کراچی کی آبادی میں ہوشربا اضافہ ہوگیا اور بیشتر علاقوں میں پانی کی قلت شدید تر ہوگئی۔

اس دوران بارشیں نہ ہونے سے حب ڈیم بھی خشک ہوگیاجس سے کراچی کے شہریوں کو 100ملین گیلن پانی کی فراہمی معطل ہوگئی ہے اور اب صرف دریائے سندھ سے فراہم ہونے والے 550 ملین گیلن یومیہ پانی کی فراہمی پر گذارا کرنا پڑرہا ہے، واضح رہے کہ آبادی کو مدنظر رکھتے ہوئے کراچی کو اس وقت450ملین گیلن یومیہ کی قلت کا سامنا ہے، ذرائع کے مطابق اگر کے فور منصوبہ بروقت مکمل کرلیا جاتا تو شہریوں کو پانی کے بدترین بحران کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔

ذرائع نے بتایا کہ 2012ء میں سندھ حکومت نے دریائے سندھ کے شیئر سے 12 سو کیوسک (650ایم جی ڈی) منظور کیا، اسی دوران پی ایس ڈی پی نے بھی یہ منصوبہ منظور کرلیا، رواں مالی سال میں وفاقی حکومت کی جانب سے منصوبے کیلیے200ملین روپے جبکہ سندھ حکومت نے 842ملین روپے مختص کیے ہیں، پروجیکٹ ڈائریکٹر K-4 سیلم صدیقی نے ایکسپریس کو بتایا کہ کمشنر کراچی شعیب صدیقی، ڈپٹی کمشنر ملیر قاضی جان محمد سے زمین کے حصول کیلیے اجلاس ہوچکا ہے، دونوں اعلیٰ حکام نے یقین دہانی کرادی ہے کہ زمین آئندہ ہفتے تک واٹر بورڈ کے حوالے کردی جائیگی۔

انھوں نے کہاکہ سندھ حکومت لینڈ ریکورزیشن ایکٹ 1894 سیکشن 6 کے تحت زمین کی ڈیکلریشن دی گی جبکہ سیکشن 17(4) کے تحت فوری طور پر زمین واٹر بورڈ کے حوالے کی جائیگی، اس سیکشن کے تحت زمین کی قیمت کی فوری ادائیگی نہیں کی جائیگی اور زمین کا کنٹرول واٹر بورڈ کے سپرد کردیا جائے گا، زمین کی قیمت بعدازاں سندھ حکومت ادا کریگی،پروجیکٹ ڈائریکٹر نے منصوبے کا پہلا فیز 260ملین گیلن یومیہ کا ہے، منصوبہ کیلیے درکار زمین 8ہزار 327ایکڑ پر محیط ہے جس میں ضلع ملیر کے دیہہ اللہ فئی، دیہہ شاہ مرید، دیہہ کونکر، دیہہ گھگھر ، دیہہ چھوریجی اور دیہہ دھابے جی کے علاقے شامل ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔