(دنیا بھر سے) - ’’امریکہ: سُپر پاور یا عالمی تماشہ گاہ؟‘‘

محمد حسان  منگل 23 دسمبر 2014
یہ کونسا طریقہ ہے کہ جب دِل کیا کسی کو بھی دہشت گرد اور امریکی سلامتی کیلئے خطرہ قرار دے کر مارڈالیں اور جب جی چاہا براہِ راست خطرہ نہ ہونے کا بہانا کر کے جانے دیا؟ا اِن حرکتوں کے بعد سوچتا ہوں کہ ’’امریکہ سُپر پاور ہے یا عالمی تماشہ گاہ‘‘۔ فوٹو: فائل

یہ کونسا طریقہ ہے کہ جب دِل کیا کسی کو بھی دہشت گرد اور امریکی سلامتی کیلئے خطرہ قرار دے کر مارڈالیں اور جب جی چاہا براہِ راست خطرہ نہ ہونے کا بہانا کر کے جانے دیا؟ا اِن حرکتوں کے بعد سوچتا ہوں کہ ’’امریکہ سُپر پاور ہے یا عالمی تماشہ گاہ‘‘۔ فوٹو: فائل

افغان مجاہدین،دہشتگرد،دوست، دشمن یا اتحادی؟امریکہ صاحب بہادر آج تک سمجھ ہی نہیں پائے کہ طالبان کو کِس نام سے پکاریں؟

جب مطلب تھا تو مجاہدین اور جب مطلب ختم ہوا تو دہشتگرد،جس مُلّا عمر اور اُسامہ بِن لادن کو امریکی پہلے پیر ومرشد مانتے تھے بعد میں وہی دہشتگرد ہو گئے اُن کے سَروں کی قیمتیں مقرر ہو گئیں،اِن کے لیئے بلکہ اِن کی آڑ میں امریکہ نے دو ملک  تباہ وبرباد کر دیئے،لاکھوں بے گناہ اور معصوم انسانوں کا ناحق خون بہایا، لیکن طالبان قابو نہ آ سکے تو مذاکرات کا راستہ اپنانے کی کوشش کی۔ اِس میں بھی ناکامی کے بعد افغانستان سے اپنی افواج کے اِنخلاء کا اعلان کیا اور آج نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ امریکی محکمۂ دفاع کا کہنا ہے کہ اُن کا ملک افغانستان میں طالبان کے ا میر مُلّا عمرکے خلاف اُس وقت تک کارروائی نہیں کرے گا جب تک وہ براہِ راست امریکہ کیلئے خطرہ ثابت نہیں ہو جاتے۔

پہلے تو آپ کا بس نہیں چلتا تھا کہ کِس طرح طالبان کی نسلوں تک کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیں اور اب فرماتے ہیں کہ طالبان راہنماء ہونے کا یہ مطلب تھوڑی ہے کہ امریکہ اس کے خلاف آپریشن شروع کر دے۔ اللہ اللہ! اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا! تھُوک کے چاٹنے والا محاورہ آپ سب نے سُنا ہوگا،یہاں امریکہ صاحب بہادر کے ساتھ کچھ ایسا ہی معاملہ پیش آ رہا ہے۔

یہاں پر سوال یہ اُٹھتا ہے کہ افغانستان اور عراق میں جان سے جانے والے لاکھوں بے گناہ شہریوں سے امریکہ کو ایسا کیا براہِ راست خطرہ تھا جو اُنہیں ہمیشہ کیلئے موت کی نیند سُلا دیا گیا؟یہ کونسا طریقہ ہے کہ جب آپ کا دِل کیا کسی کو بھی دہشت گرد اور امریکہ کی سلامتی کیلئے خطرہ قرار دے کر مارڈالیں اور جب جی چاہا براہِ راست خطرہ نہ ہو نے کا بہانا کر کے جانے دیا؟اور دوسری بات یہ کہ کیا آپ کو تامِل، نِکسَل اور اسی طرح کے دوسرے عناصر نظر نہیں آتے؟ ساری دنیا کو کیا بس صرف مسلمانوں اور طالبان سے ہی خطرہ ہے؟ کیا یہ عناصر جو آج ایک ریاست کے خلاف خطرہ بنے ہو ئے ہیں کیا کَل پورے خِطّے کے لیئے نقصِ امن کا باعث نہیں بن سکتے؟ اورآپ جو اِس پورے خِطّے میں امن کی بحالی کے ٹھیکیدار بنے ہوئے ہیں آپ کو اِن سے کوئی خطرہ محسوس نہیں ہوتا؟آپ کی دوغلی اور خود کو بھی نہ سمجھ آنے والی پالیسیز آپ کے ساتھ ساتھ آپ کے حمایتیوں اور اتحادیوں کوبھی لے ڈوبے گی۔

پشاور میں ہونے والے حالیہ اندوہناک سانحہ کے بعد آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا واقعے میں افغانی اور بھارتی ایجنسیوں کے ملوّث ہونے کے دستاویزی ثبوتوں کے ہمراہ دورۂ افغانستان اور ان کی طرف سے آنے والے اس بیان کہ’’اب ہم پاکستان کی حفاظت کی جنگ ملکی سرحدوں کے اندر ہی نہیں بلکہ باہربھی لڑیں گے، اب یہ جنگ ٹی ٹی پی کے ساتھ ہی نہیں بلکہ ان کی پشت پناہی کرنے والوں کے ساتھ بھی ہوگی‘‘ کو مغربی میڈیانے نہایت منفی انداز میں پیش کیا۔

ہمارے میڈیا کو بھی چاہیئے کہ وہ امریکہ اورامریکی و مغربی میڈیاکو آئینہ دکھائیں کہ کِس طرح امریکہ نائن الیون کے بعدعراق اور افغانستان پر اندھا دھند چڑھ دوڑا تھا بالکل اِسی طرح ہم بھی اپنی حفاظت کا حق محفوظ رکھتے ہیں، امریکہ کو یاد رکھنا چاہیئے کہ ہم کبھی براہِ راست خطرہ نہ ہونے کا بہانا کر کے اپنے دشمنوں کو کُھلا نہیں چھوڑتے اورآئے دن ’ہوتا ہے شب وروز تماشا مرے آگے‘ کے مصداق نئے تماشے نہیں کرتے بلکہ جلد یا بدیراپنے دشمنوں کو مطلوبہ انجام سے دو چار ضرور کرتے ہیں۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

محمد حسان

محمد حسان

بلاگر گزشتہ 12 سال سے میڈیا اور پبلک ریلیشنز کنسلٹنٹ کے طور پر ملکی اور بین الاقوامی اداروں سے منسلک ہیں۔ انسانی حقوق، سیاسی، معاشی اور معاشرتی موضوعات پر لکھنے کا شغف رکھتے ہیں۔ آپ انہیں ٹوئٹر اور فیس بُک پر BlackZeroPK سے سرچ کر سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔