درون خانہ ہنگامے ہیں کیا کیا؟

رئیس فاطمہ  جمعرات 25 دسمبر 2014
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

آج حضرت عیسیٰ ؑ اور محمد علی جناح دونوں کا جنم دن ہے۔ میں سب سے پہلے پوری مسیحی قوم کو کرسمس کی مبارکباد دیتی ہوں کہ میرے قائد کا یہی فرمان تھا کہ پاکستان میں ہر مذہب کے پیروکاروں کو ان کے مذہبی عقائد کے مطابق پوری آزادی کے ساتھ زندگی گزارنے اور اپنے اپنے مذہبی و ثقافتی تہوار منانے کی مکمل آزادی ہوگی۔ لیکن افسوس کہ قائد اعظم کی 11 اگست کی تقریر کو ایک سازش کے تحت ریکارڈ سے غائب کردیاگیا لیکن اب اس کے مندرجات سامنے آگئے ہیں۔

سوشل میڈیا پہ بھی دستیاب ہیں۔ تاریخ کو مسخ کرنا اور اسے توڑ مروڑ کر پیش کرنا ایک مکروہ بے ایمانی ہے۔ جو پاکستان میں مسلسل ہو رہی ہے۔ لیکن 1950 کے بعد جو زہریلے ناگ اپنی اپنی غاروں سے تعصب اور نفرتوں کی لمبی زبانیں نکالے ہر طرف پھنکارتے پھر رہے ہیں انھیں کیوں نہ روکا گیا؟ … اس کی وضاحت کی ضرورت اس لیے نہیں ہے کہ اس کی وجوہات سب جانتے ہیں۔ ماضی قریب میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات اور حال ہی میں سانحہ پشاور، انھی زہریلے ناگوں کی کارستانیاں ہیں۔ اپنے اپنے اقتدار کو طول دینے اور وراثتی بادشاہت کو بہ عنوان ’’جمہوریت‘‘ قائم رکھنے کے لیے کس نے کس کو پیدا کیا ؟ آج رونے اور جھوٹ موٹ کے آنسو بہانے کا ناٹک کرنے سے کیا فائدہ۔ ؟ لاشوں پہ جشن اور مقبروں پہ کروڑوں کا خرچ؟

میں جب بھی مزار قائد کے پاس سے گزرتی ہوں تو کئی آوازیں مجھے سنائی دیتی ہیں۔ کبھی کوئی آواز کہتی ہے’’میری قبر کے پاس اور میرے مقبرے کے احاطے میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ کس کی اور کن لوگوں کی نگرانی اور آشیر واد سے ہوتا ہے‘‘ ؟ دو دن پہلے جب میں یہاں سے گزری اور ہر طرف بی بی شہید کی برسی کے حوالے سے بڑے بڑے بل بورڈ اوربینرز دیکھے تو ایک آواز نے سرگوشی کی … ’’اے میرے وطن کے لوگو!! حکمرانوں کی موت کے بعد بھی کروڑوں روپیہ فاتحہ خوانی اور برسی کے نام پر لٹا دینا، تھر پارکر اور مٹھی کے پسماندہ علاقوں میں بھوک، غربت اور پیاس سے بچوں کا مرجانا، دوائیں دستیاب نہ ہونا، کیا یہی طرز حکمرانی ہے۔ ‘‘ جب میرے کانوں سے یہ آواز ٹکرائی اور میں نے اطراف میں پی پی کے لیڈروں کی جانب سے 27 دسمبر کے جشن شہادت کے حوالے سے اشتہارات دیکھے تو اس آواز کو جواب دیاکہ ’’ … اے قائد یہ سرمایہ کاری بھی ہے اور گرنے والی دیوار کو سہارا دینے کی ایک ناکام کوشش بھی ہے … کاش ان روپوں سے بی بی محترمہ کے ’’ہم زبانوں‘‘ کے لیے اندرون سندھ کے بھوک سے مرتے بچوں کے لیے دوائیں اور غذا فراہم کردی جاتی تو یہ عاقبت کی سرمایہ کاری ہوتی … ساتھ ہی سیاسی قد بھی بڑھ جاتا‘‘۔

آج قائد اعظم کے یوم پیدائش کے حوالے سے جی چاہتا ہے کہ کچھ باتیں اس ’’پاکستان‘‘ کی کریں جس کی تمنا نہ صرف محمد علی جناح بلکہ ہر امن پسند انسان نے کی تھی، کیوں نہ آج کے دن اس پیغام محبت کو یاد کیا جائے اور اسے عام کرنے کی کوشش ضرور کی جائے جو ہمارے محبوب لیڈر کا مشن تھا۔

افسوس کہ مہلک بیماری نے انھیں فرصت نہ دی اور آج ہم ہندو اور عیسائی برادری کے سامنے شرمندہ نہ ہوتے۔ بالخصوص اندرون سندھ اور پنجاب میں انتہا پسندی کے جنون میں ہی نہیں بلکہ مالی منفعت اور کسی کی محنت کی کمائی کو لوٹنے کے لیے جو درندے چاروں طرف منہ مارتے پھررہے ہیں ان کی کار گزاریاں دیکھ کر سعادت حسن منٹو، کرشن چندر،کنور مہیندر سنگھ بیدی، اے حمید اور فیض، کیا مرنے کے بعد بھی افسردہ اور بے چین نہ ہوں گے … نام اسلام کا … لیکن ایسے عالمگیر اور تعصب سے پاک دین کا یہ حشر کہ جس کی بیٹی چاہی اٹھا لی، اسے زبردستی مذہب تبدیل کرنے کا جبری تقاضا۔ بصورت دیگر خاندان کو ناقابل تلافی نقصانات کا عندیہ۔ کاروبار پہ قبضہ، زمین جائیداد کو ہتھیانا سر فہرست ٹھہرا۔ نابالغ بچیوں کے جبری نکاح اور عدالتوں میں جبری بیان !! اف میرے خدا … یہ سب کیا ہے ؟انصاف فراہم کرنے والوں کو معاملات کی تہہ تک پہنچنے سے کون روکتا ہے ؟ کیا قانون واقعی اندھا ہوتا ہے جو ہندو اور عیسائی نوجوان لڑکیوں کی جبری شادیوں اور جبراً مذہب کی تبدیلی جیسے واقعات کو کھلی آنکھوں سے نہیں دیکھ پاتا یا انھیں بھی گورنر پنجاب، پیپلزپارٹی کے اہم رکن اور ایک عالم ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر کے صاحبزادے کے انجام سے ڈر لگتا ہے ؟ سانپوں، بچھوؤں کے ڈنک سے انھیں مارنے کے بجائے زندہ چھوڑدینا۔ کیا حماقت، بزدلی اور بے حسی نہیں ہے۔ کیا اسی حکمت عملی کا نتیجہ بار بار سانحات اور حادثات کی صورت میں سامنے نہیں آتا جا رہا ؟

کیا جناب ستیہ پال آنند اور نندکشور وکرم بھی میری ہی طرح افسردہ نہیں ہوں گے۔ سوچتی ہوں ملاقات پر کیسے ان سے آنکھیں چار کرسکوںگی ؟ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دم سے انسانیت زندہ ہے۔ دونوں راولپنڈی کے پیدائشی، دونوں نے ہجرت کا کرب سہا، انتہا پسندی کے ناگوں نے ڈسنے کی بھی کوشش کی ، لیکن دونوں نے صرف اس محبت بھری دھرتی کو یاد رکھا جہاں رشتوں ناتوں کا تعلق مذہب کے بجائے انسانیت سے تھا اور رہے گا۔ متعصب اور جنونی لوگ تو تقسیم سے پہلے بھی موجود تھے جو اپنی اپنی کرسی اور لیڈری کے لیے مسجدوں میں سور اور مندروں میں گائے ذبح کرکے پھنکوا دیتے تھے۔ ڈالنے والا ایک ہی ہوتا تھا کہ اسے اپنی دیہاڑی اور پیسے سے مطلب تھا۔ لیکن افسوس کہ دونوں طرف اب انھی دیہاڑی لگانے والوں کی ہاہاکار ہے۔ مذہب کا ہتھیار استعمال کرو اور معصوم بچوں کو قتل کردو۔

عبادت گاہوں کو بموں سے اڑا دو، جبراً ہندو دوشیزاؤں کو مذہب کی تبدیلی اور شادی پہ مجبور کرو۔ کرسچین کمیونٹی کا گھر بار اور زمین چھیننے کے لیے ان پر بے بنیاد الزامات لگاؤ، جھوٹے گواہ پیسے کے بل بوتے پر پیدا کرنا کون سا مشکل کام ہے۔’’پیسہ پھینک تماشا دیکھ‘‘ یہی آج کا سچ ہے۔ سوچتی ہوں ہمارے پرانے کرایہ دار جو پی ای سی ایچ سوسائٹی میں برسوں ایک خاندان کی طرح رہے اس بار انھیں میں کرسمس پہ کس طرح تہنیتی کارڈ بھیج سکوںگی۔ ہمارے گھر کا وہ کرسمس ٹری جو دسمبر کے آخری عشرے میں بہت سے دوسرے گھروں میں اپنی بہار دکھلاتا تھا اس بار کیوں کر نہ اداس ہوگا ؟ میرے اسٹوڈنٹ رچرڈ، نکسن، میری دوست ایلوینا، مسز ولیم، مریم اور ان کے خاندانوں سے اب میں ویسے نہیں مل سکتی جیسے پہلے ملاکرتے تھے۔

کہ اب ہماری نظریں نیچی ہوتی ہیں اور ان کی نگاہوں میں شکوہ۔ عیسائی برادری کے وہ قارئین جو ای میل کے ذریعے اس بات کا شکوہ کرتے ہیں کہ انھیں صرف پاکستانی کیوں نہیں سمجھا جاتا وہ ہندو دوست احباب سوال کرتے ہیں کہ انھیں ہمیشہ شک و شبہے کی نظروں سے کیوں دیکھا جاتا ہے، انھیں اچھی ملازمتیں کیوں نہیں ملتیں۔ ان کی حب الوطنی کیوں مشکوک ہے ؟ تو میرے پاس ان کے سوالوں کا کوئی جواب نہیں ہوتا۔ مجھے تو صرف اپنے قائد یاد آتے ہیں جن کا فلسفہ محبت عام نہ ہوسکا۔ ایک روشن خیال تعلیم یافتہ انسان کو شلوار اور شیروانی پہناکر صرف مسلمانوں کا لیڈر ثابت کرنے کی کوشش کی گئی اور وہ یہ سب کھلی آنکھوں سے دیکھتے رہے کہ کس طرح ایک نوزائیدہ وطن کو بھیڑیوں، لومڑیوں اور مہلک درندوں نے ہائی جیک کرلیا ہے۔

اب بھی وقت ہے اپنے اپنے گھروں سے اپنی اپنی سطح سے نفرتوں کی جھاڑیوں کو اکھاڑنے میں مدد کیجیے اور یہ بھی ضرور سوچیے کہ اگر مسلمانوں کے ساتھ یہی رویہ دوسرے ممالک اپناتے ہیں تو آپ کیا کہیںگے۔ نفرت کے بیج نفرت کے درخت ہی کو جنم دیتے ہیں۔ اس معاملے میں حکومت، وزیراعظم اور صوبائی حکومتوں کو سخت ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔ جیسے اپنی اپنی کرسیوں کو بچانے کے بجائے وطن کو بچایا ہے۔ ورنہ جو کچھ ہوگا یا ہوتا نظر آرہاہے وہ بہت بھیانک ہے۔ لیڈر اور دیگر سازشی طالع آزماؤں کو کشمیر کی بہت فکر ہے۔

وہاں ہوتا ظلم و تشدد تو دکھائی دے رہا ہے لیکن اپنے گھر میں کیا ہو رہا ہے اس کی طرف سے ایک منصوبے کے تحت آنکھیں بند کرلی ہیں وہی بات کہ اپنے گھر میں لگی آگ کو چھوڑ کر محلے کی آگ بجھانے چل دیے۔

کشمیر کا ایشو جان بوجھ کر ہمیشہ اس لیے اٹھایاجاتا ہے کہ ہمارے حکمران مذہبی انتہا پسندی کے جال میں پھنسے ہیں وہ چاہیں بھی تو باہر نہیں آسکتے اس لیے اپنے جلتے گھر کو بجھانے کے بجائے کشمیر میں لگی آگ کے شعلوں کو دہکانے اور بجھانے کے ایجنڈے پر اسٹیج سجے ہیں ٹاک شو پہ اداکار بیٹھے اس نفرت کی آگ کو ہوا دے رہے ہیں۔ ایک مذموم کاروبار عروج پر ہے۔ کیا قائد اعظم محمد علی جناح کا منشور یہی تھا ؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔