یہ تو نسلی انتقام ہے

اوریا مقبول جان  جمعرات 25 دسمبر 2014
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

بدترین نسلی، قبائلی اور علاقائی تعصب وہ ہوتا ہے جس کا جواز لوگ مذہب میں تلاش کریں اور اپنے انتقام کو ایک اعلیٰ اور ارفع مقصد تصور کریں۔ افغانستان میں مقیم ،،ہزارہ،، قبائل کی جب وہاں کی پشتون برسراقتدار اشرافیہ سے نسلی اور قبائلی جنگ شروع ہوئی تو ایک دوسرے نے قتل و غارت گری کا جواز مسلک میں ڈھونڈنا شروع کیا۔ ہزارے چونکہ اقلیت میں تھے اس لیے ان پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا۔ کچھ بھاگ کر کوئٹہ آ گئے اور کچھ ایران چلے گئے۔

لیکن اس نسلی اور قبائلی تعصب کی آگ کئی دہائیوں کی پرامن خاموشی میں بھی اندر ہی اندر سلگتی رہی۔ جیسے ہی اس مسلکی اختلاف نے دوبارہ سر اٹھایا تو لوگوں کو اپنے باپ دادا سے سنی ہوئی کہانیاں یاد آ گئیں اور وہ پھر اس تعصب کے انتقام میں دیوانے ہو گئے، آرمینیاء کے عیسائی اور آذر بائیجان کے مسلمانوں کی بھی یہی کہانی ہے، نسلا ایک دوسرے سے مختلف تھے، ایک دوسرے کی جان کے پیاسے تھے، جب دونوں کے مذہب بھی جدا ہو گئے تو اندر چھپے انتقام کو ایک ارفع مقصد میسر آ گیا۔ بوسنیا کے سرب اور مسلمان دونوں نسلی اور قبائلی اعتبار سے علیحدہ تھے۔ صدیوں ایک دوسرے سے جنگ میں مصروف رہے۔

خلافت عثمانیہ اور سوویت روس کی طاقت کی وجہ سے امن قائم رہا، لیکن جیسے ہی طاقت کا یہ شکنجہ ڈھیلا ہوا، تاریخ کا بدترین قتل عام ہوا۔ نسلاً سرب وزیراعظم، میلا سووچ، جو عیسائی تھا، اس نے یورپی یونین کے سربراہوں کے سامنے کھڑے ہو کر کہا کہ کیا تم چاہتے ہو کہ یورپ کے عین بیچوں بیچ بوسنیا کی ایک مسلمان ریاست قائم ہو جائے۔ وجہ صرف بوسنیا سے نسلی اختلاف تھی جسے مذہب کا سہارا لے کر لوگوں کو ساتھ ملایا جا رہا تھا۔ تازہ ترین نسل کشی روہنگیا نسل کے مسلمانوں کی برما میں کی گئی، اس کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ روہنگیا مسلمان انگریز کے زمانے سے ہجرت کر کے وہاں آباد ہوئے تھے، اور کچھ چین میں بدترین غربت کی وجہ سے وہاں آ گئے تھے۔ یہ برما میں آباد لوگوں سے زبان اور نسل کے اعتبار سے مختلف تھے۔ ان کی نسل کشی کی داستانیں تو انتہائی لرزہ خیز ہیں۔ بوڑھے مردوں اور عورتوں کو چھوڑ دیا جاتا تھا اور نوجوانوں لڑکوں اور بچوں کو قتل کیا جاتا، یا پھر زندہ جلا دیا جاتا تھا۔

یہ سب اس لیے کیا جاتا کہ ان کی نسل اور زبان اور تھی لیکن ان کے مسلمان ہونے نے مٹی پر تیل کا کام کیا۔ وہ بدھ بھکشو جو سرمنڈا کر گیروے کپڑے پہنے امن کے پجاری بنے بیٹھے تھے، سفاک قاتل بن گئے۔ دنیا کے کسی بھی خطے کی تاریخ اٹھا لیں آپ کونسل، رنگ، زبان اور علاقے کے تعصبات سے پیدا شدہ نفرتوں اور قتل و غارت میں اس وقت شدید اضافہ نظر آئے گا جب دونوں جانب کے لوگ مذہب یا مسلک کی آڑ لے لیں۔ سانحہ پشاور پر طالبان کے نمایندے محمد خراسانی کی رسول اکرمﷺ کے دور کے بنو قریظہ کے واقعہ سے اپنے انتقام کو جواز دینے کی کوشش بھی اسی نسلی انتقام کو مذہبی جواز دینا ہے۔ یہ ایک ایسا فعل ہے جسے کم سے کم تو ہین  رسالتؐ کہا جاسکتا ہے۔ اسلام کی چودہ سو سال تاریخ میں کسی گروہ، فرقے، مسلک یا فقہہ نے اس واقعہ کو جواز بنا کر قتل و غارت کو جائز قرار نہیں دیا۔ بنوقریظہ کے جس واقعہ کے بارے میں آج دلیل دی جا رہی ہے وہ رسول اکرم ﷺ کی زندگی کا واقعہ ہے۔

آپؐ جب مدینہ تشریف لائے تو میثاق مدینہ کے تحت یہودی قبائل کے ساتھ معاہدے کیے جس میں یہ تحریر تھا کہ فریقین ایک دوسرے کے خلاف معاندانہ کارروائی نہیں کریں گے اور ایک دوسرے کے خلاف دشمنوں کی امداد نہیں کریں گے۔ معاہدے کی خلاف ورزی کرنے والا پہلا قبیلہ بنو نضیر تھا جس نے آپﷺ کے قتل کی سازشیں کیں، قریش مکہ کو مسلمانوں کے بارے میں خفیہ اطلاعات پہنچائیں اور جنگ پر اکسایا۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے انھیں کہا کہ اب آپ لوگ ریاست مدینہ کے اندر نہیں رہ سکتے، اس لیے شہر چھوڑ دو ورنہ جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ، وہ لوگ اپنا سب سامان اٹھا کرشام کی جانب روانہ ہو گئے۔ اس واقعے کے بعد رسول اللہﷺ نے دوبارہ یہودی قبائل کو معاہدے کی دعوت دی اور انھوں نے معاہدے کی تجدید کی۔

اس میں یہ قبیلہ بنو قریظہ بھی شامل تھا۔ جس نے دوبار یہ معاہدہ کیا۔ اس کے بعد جنگ احزاب ہوئی تو بنو نضیر جو شام کی جانب چلا گیا تھا اس نے عرب کے تمام قبائل کو مسلمانوں کے خلاف اکٹھا کر لیا اور وہ مدینہ پر حملہ آور ہو گئے۔ اس دوران حیَّی بن احطب جو بنو نضیر قبیلے کا تھا اس نے بنو قریظہ کو قائل کر لیا کہ وہ بھی مسلمانوں سے معاہدہ توڑ لیں، یوں انھوں نے معاہدہ توڑا اور جنگ میں شامل ہو گئے۔ ان عہد توڑنے کے بارے میں اللہ نے قرآن میں یوں فرمایا ہے ،،جب کہ وہ تم پر بالائے شہر اور پائیں شہر کی جانب سے چڑھ آئے اور جب تمہاری آنکھوں میں اندھیرا چھا گیا اور جب کہ دل منہ کو آنے لگے اور تم اللہ کے متعلق طرح طرح کی بدگمانیاں کرنے لگے،، (احزاب: 10)۔ یہ وہ رات تھی جب ایک طرف سے قریش مکہ اور ان کے ساتھی اور دوسری جانب سے مدینے کے اندر سے بنو قریظہ مسلمانوں کی جانب بڑھ رہے تھے۔

جیسے ہی جنگ احزاب ختم ہوئی، مسلمانوں نے بنو قریظہ کا محاصرہ کر لیا اور 25 دن تک یہ محاصرہ رہا۔ جس پر انھوں نے اپنے حلف کے شریک سعد بن معاذ کے بارے میں کہلا بھیجا کہ وہ جو فیصلہ کریں گے، ہمیں منظور ہے۔ عرب میں حلف کے تعلق کو خونی رشتوں کی طرح سمجھا جاتا تھا۔ عرب میں جنگ کے دوران بدعہدی کی صرف ایک سزا رائج تھی اور وہ یہ کہ تمام جنگ کے قابل مردوں کو قتل کر دیا جائے۔ سعد بن معاذ نے وہی سزا تجویز کی۔ یہ سزا ایک ثالث نے تجویز کی تھی اور عرب کی روایات کے مطابق تھی۔ اسے چودہ سو سال سے آج تک کسی نے رسول اکرمﷺ کی طرف سے دی جانے والی سزا قرار نہیں دیا۔ دوسری بات یہ کہ یہ جنگ میں بدعہدی کی بنیاد پر دی جانے والی سزا تھی۔ اگر یہ جنگ کی بالعموم سزا ہوتی تو بدر کے قیدیوں سے لے کر فتح مکہ کے بعد بھی نافذ ہوتی۔ انتقام کی آگ انسان کو کس قدر دیوانہ بنا دیتی ہے۔

کیا آرمی پبلک اسکول کے طلبہ یا ان کے والدین نے محمد خراسانی کے طالبان کے ساتھ کوئی معاہدہ کیا تھا جسے توڑا تھا۔ کیا ان بچوں نے یا ان کے والدین نے طالبان کو ثالث مقرر کیا تھا۔ یہ خالصتاً قتل ہے اور سفاکانہ قتل اور اس قتل کو مذہبی جواز نہیں مل سکتا۔ ہاں قبائل، نسلی اور علاقائی تعصب میں انتقام کی آگ نے آپ کو ایسا کرنے پر مجبور کیا۔ اس میں سفاکی یہ ہے کہ اس میں چن چن کر بچوں کو منتخب کیا گیا۔ اس کا جواز میرے آقا سید الانبیاء کی سنت میں تلاش کرنا ایک ایسا فعل ہے جو کم سے کم توہین رسالتؐ ہے۔

جس امت نے گیارھویں صدی عیسویں میں صلاح الدین ایوبی جیسا شخص پیدا کیا ہو جس کو پورا مغرب یہ کہہ کر سلام پیش کرے کہ اس نے دنیا کو جنگ کی اخلاقیات سکھائیں تھیں۔ جو عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور گھر میں بیٹھے پرامن شہریوں پر ہاتھ نہیں اٹھاتا تھا۔ اس نے یہ تمام اخلاقیات کہاں سے سیکھیں۔ یقیناً میرے آقا سید الانبیاءﷺ سے۔ صدیوں سے مسلمانوں نے جنگ کی یہ اخلاقیات قائم رکھیں۔ یہ اخلاقیات نہیں تو پھر یہ سب عصبیت ہے، انتقام ہے ویسی ہی عصبیت، ویسا ہی انتقام جیسا بلوچستان میں بی ایل اے یا دیگر علیحدگی پسند لے رہے ہیں، ویسا ہی انتقام جو بنگالیوں نے بہاریوں کو قتل کر کے مکتی باہنی بنا کر لیا۔ نسلی، قبائلی، علاقائی تعصب بدترین ہو جاتا ہے جب اس کا جواز مذہب میں ڈھونڈا جانے لگے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔