تیونس کے انتخابات… (آخری حصہ)

انیس ہارون  جمعـء 26 دسمبر 2014

مجھے کئی طرح سے پاکستان اور تیونس میں مماثلت نظر آئی۔ تیونس کئی لحاظ سے ہم سے بہت آگے ہے جس میں نظم و ضبط، صاف ستھرے شہر اور خواتین کا پبلک رول شامل ہے لیکن شدت پسند اسلامی تحریکیں اور جہادی وہاں بھی موجود ہیں۔ گو کہ ان کی سرگرمیاں بہت محدود ہیں اور عوام بھی خاصے باشعور ہیں جو مذہب کو اپنی سیاست کا حصہ نہیں بنانا چاہتے اور بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ ہمارے ملک میں بڑا امن ہے۔

دہشت گردی ان سرحدی علاقوں تک محدود ہے جو لیبیا سے قریب ہیں اور یہ دہشت گرد وہاں کی پیداوار ہیں۔مجھے دس پندرہ سال پہلے کا پاکستان لگتا ہے کہ جہاں ایسی ہی صورت حال تھی اور ہم بڑے شہروں خصوصاً کراچی میں بیٹھے ہوئے لوگ یہی کہتے تھے کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی ہمارا مسئلہ نہیں ہے۔ افغانستان کے دہشت گرد آتے ہیں اور سرحد کے پاس شمالی علاقہ جات میں سب کچھ ہو رہا ہے۔ پھر یہ آگ پشاور سے نکل کر پورے فاٹا اور بلوچستان تک پھیل گئی اور کراچی تک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ہم بھی دس سال پہلے اتنے ہی مطمئن تھے جتنا تیونس کے شہری آج ہیں۔ میں نے اپنا یہ خوف اپنے ساتھیوں کو بھی بتایا تو وہ بھی کچھ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ انھیں زیادہ چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔

میں جس مانیٹرنگ ٹیم میں شامل تھی اس نے 40 کلومیٹر کے ایریا میں 10 پولنگ اسٹیشن پورے کرنے تھے۔ جن میں سے ہم آٹھ کر پائے اور وقت ختم ہو گیا۔ تمام پولنگ اسٹیشنوں پر اطمینان سے پولنگ ہوئی۔ شہری اور نواحی علاقوں میں وہی فرق تھا جو ہمیں ڈیفنس اور ملیر لانڈھی کے علاقوں میں نظر آئے گا۔ خواتین حجاب والی نواحی علاقوں میں زیادہ نظر آئیں لیکن وہ بھی بہت پراعتماد تھیں اور مردوں کے ساتھ شانہ بشانہ تھیں۔ ایک علاقے میں انھوں نے اپنی الگ قطار بنا لی تھی جس میں معمر خواتین زیادہ تھیں مگر وہ بھی الیکشن انچارج سے بحث کر رہی تھیں کہ پہلے ہم خواتین کے ووٹ ڈلواؤ پھر مردوں کے ڈلوانا۔ بڑا دلچسپ سین تھا۔ایک جگہ ہم نے ووٹوں کے سیل ہونے اور مہر لگنے کی کارروائی بھی دیکھی اور دوسرے دن نتائج کا اعلان ہونا تھا۔

اس کے لیے ہم الیکشن کمیشن کے میڈیا سینٹر میں جمع ہوئے۔ یہ ایک جدید طرز کا میڈیا سینٹر تھا اور یہاں ہیڈ فون سے لے کر ہر ٹیکنیکل سہولت موجود تھی۔ ای۔ یو نے تیونس میں الیکشن کمیشن، اصلاحات اور انتخابات پر ایک خطیر رقم خرچ کی ہے۔ میڈیا سینٹر میں میری ملاقات عرب دنیا سے آئے ہوئے کئی صحافیوں سے ہوئی اور شام، لیبیا اور عراق کی صورتحال پر بات چیت بھی ہوئی۔ یوں لگتا تھا کہ ہونے والی تباہی کا اندازہ تو سب کو ہے لیکن اس سے نکلنے کی کوئی صورت فی الحال نظر نہیں آ رہی ہے۔ عالمی سیاست اور ان کے مفادات نے عرب دنیا میں جو اپنا جال پھیلایا ہوا ہے سب ہی اسیر ہو کر رہ گئے ہیں اور جو یہ سمجھتے ہیں کہ ان ہی کی مدد سے نکل آئیں گے تو شاید ایسے ہی موقعوں کے لیے میر نے کہا تھا:

میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں

بہرحال یہ ایک الگ بحث ہے۔ فی الحال تو جمہوریت اور انتخابات کی بات ہو رہی ہے۔ میڈیا سینٹر میں جو پہلے نامکمل نتائج آئے ان میں ’’ندا تیونس‘‘ کے اسیبسی 40 فیصد ووٹوں سے جیت رہے ہیں اور مرزوکی دوسرے نمبر پر 32 فیصد ووٹوں کے ساتھ ان کے حریف تھے۔ معلوم یہ ہوا کہ یہ تو پہلا راؤنڈ تھا اور مکمل نتائج آنے کے بعد جو امیدوار 54 فیصد ووٹ حاصل کرے گا وہ کامیاب قرار دیا جائے گا۔ ورنہ دوسرا راؤنڈ ہو گا۔ ہمیں اس کی منطق سمجھ نہیں آئی۔ 54 فیصد ووٹ تو ترقی یافتہ ملکوں کے انتخابات میں بھی صدر یا وزیر اعظم نہیں لیتا۔ نہ جانے یہ لوگ ترقی پذیر ملکوں سے کیا چاہتے ہیں؟ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ انتخابات بھی بہت بڑا سیاسی گیم بن چکا ہے جس کے معاشی فوائد بہت ہیں۔

اب بے حساب ڈالر اور یورو دوسرے راؤنڈ پر بھی خرچ ہوں گے جس سے تمام ماہرین مستفید ہوں گے۔دوسرے دن ساری خواتین پارٹنرز کی میٹنگ ہوئی جس میں سب نے اپنے تجربات شیئر کیے اور مجھے بھی اپنے تجربات کے بارے میں بات کرنے کے لیے کہا گیا۔ ایک میٹنگ الیکشن کمیشن کے ساتھ بھی تجویز کی گئی اور فوراً اپنی ساری مصروفیات کے باوجود چیف الیکشن کمشنر شفیق سرسار نے خواتین کو ملاقات کا وقت دے دیا۔ جب ہمارا وفد وہاں پہنچا تو الیکشن کمیشن کی ممبر خواتین نے استقبال کیا میرے پوچھنے پر بتایا گیا کہ الیکشن کمیشن کے نو ممبران ہیں جن میں سے تین خواتین ہیں۔ بڑی خوش آیند بات تھی۔ ہمارے پاس الیکشن کمیشن میں ایک بھی خاتون نہیں ہے۔ الیکشن کمشنر نے بڑی توجہ سے خواتین کی بات سنی اور یقین دلایا کہ ان کی تمام تجاویز پر عمل ہو گا۔

اپنی تمام تر مصروفیات کے باوجود شفیق سرسار کے لیے خواتین کی تجاویز کے لیے وقت نکالنا بہت اہم تھا۔ اس سے اندازہ ہوتا تھا کہ جینڈر گیپ کو ختم کر کے عورت کو مساوی حیثیت پر لانا ان کے لیے کتنی وقعت رکھتا ہے۔ایک بات جو سب کے لیے حیرت کا باعث تھی اور موضوع گفتگو رہی وہ انتخاب والے دن نئی نسل کا پولنگ اسٹیشنزسے غائب رہنا تھا۔ گوکہ 2011ء کے ’’چنبیلی انقلاب‘‘ میں نئی نسل آگے آگے تھی۔ ہر گھر کے نوجوان اس انقلاب میں شامل تھے۔ پھر کیا ہوا۔

یہ جاننے کے لیے میں نے سوچا خود نوجوانوں سے ہی بات کی جائے۔ ہماری نسل کے لوگوں کے تو وہی خیالات تھے جو ہم میں سے اکثر اپنی نئی نسل کے بارے میں رکھتے ہیں کہ اپنے آپ میں مگن ہیں، سہل پسند ہیں وغیرہ وغیرہ۔یہ جاننے کے لیے بہترین جگہ ’’حبیب بو رقیبہ اسکوائر‘‘ ہے۔ بہت ہی دلچسپ اور خوبصورت مقام ہے۔ یہاں نوجوانوں کے ٹولے گھومتے پھرتے اور خوش گپیوں میں مصروف نظر آتے ہیں۔ میرا انھوں نے بڑی خوشدلی سے خیر مقدم کیا۔ میرے اس سوال پر کہ کیا آپ لوگ انقلاب میں شامل تھے تقریباً سب ہی نے جواب ہاں میں دیا۔ کسی نے بتایا کہ اس کا بھائی شہید ہوا ہے۔

کئی لوگوں نے بتایا کہ انھیں چوٹیں آئی تھیں۔ ہاتھ پاؤں ٹوٹے مگر وہ اپنے مطالبے سے نہ ہٹے۔ بن علی کے 33 سال بہت اذیت ناک تھے۔ انھوں نے لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا تھا۔ پوری اسٹیٹ پر ان کی خفیہ ایجنسیوں کا راج تھا۔ کوئی منہ کھولتا تو عتاب کا شکار ہو جاتا۔ تنگ آ کر تیونس کے چھوٹے سے علاقے ’’صدی بو سعید‘‘ میں ایک شخص نے سرعام اپنے آپ کو جلا ڈالا۔ بس جیسے لاوا پھٹ پڑا، اور لوگ ڈٹ گئے۔

’’بن علی‘‘ کو اپنے رفقا اور اہل خاندان سمیت جلاوطن ہونا پڑا۔ اقتدار فوج نے سنبھال لیا اور انتخابات کروا دیے۔ انتخابات کے نتائج ’’الخادا‘‘ کے حق میں آئے تو نوجوان بہت مایوس ہوئے۔ جس کا ایجنڈا مسلم اخوت کا تھا۔ وہ پھر سرگرم ہو گئے کہ ایک ترقی پسند پارٹی کو برسر اقتدار لائیں جو مذہب کی بنیادوں پر ریاست نہ چلائے۔ اور دو سال کے اندر ہی دوبارہ نئی اصلاحات کے تحت انتخابات ہوئے اور ’’ندا تیونس‘‘ کو کامیابی مل گئی جو کہ ایک سیکولر پارٹی ہے۔

اس کے سربراہ اسیبسی گوکہ بن علی کے پرانے ساتھیوں میں سے تھے مگر شروع ہی سے ان کی شہرت اچھی تھی اور انھوں نے بن علی کے جانے کے فوراً بعد ہی ’’ندا تیونس‘‘ پارٹی بنا کر اس کا ایک متبادل پیش کر دیا تھا۔تین سال کے عرصے میں سیاسی جماعتوں میں بھی ایک کشمکش رہی اور دوبارہ انتخابات ہوئے تو ان کی پارٹی کامیاب ضرور ہوئی مگر مکمل اکثریت نہ حاصل کر سکی اور اب وہ دوسری چھوٹی جماعتوں کے تعاون سے حکومت تشکیل دے گی۔ عالمی طاقتوں کا دخل ہر جگہ ہے۔ وہ چاہتی ہیں کہ ’’ندا تیونس‘‘ مرزوکی کے ساتھ اتحاد کرے جس کو ’’الخادا‘‘ کی حمایت حاصل ہے تا کہ افہام و تفہیم کے ذریعے Stability آئے، لیکن وہ تمام لوگ جنھوں نے اسیبسی کو ووٹ دیے ہیں اسلامی جماعت کے ساتھ اتحاد نہیں چاہتے۔

اس صورتحال سے نوجوان خوش نہیں ہیں۔ کہتے ہیں ’’یوں لگتا ہے کہ ان سیاسی چالوں نے انقلاب کے مقصد کو ختم کر دیا ہے۔ تین سال میں وہ تبدیلی نہیں آئی جو ہم چاہتے تھے۔ اب ہم تھک گئے ہیں۔ واپس اپنے کام پر چلے گئے ہیں۔‘‘ جب کہ ان کے بڑے کہتے ہیں ہم تو 30 سال سے مزاحمت کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ یہ صرف تین سال میں تھک گئے ہیں۔ یہ تو ایک پیچیدہ اور دقت طلب عمل ہے۔ جدوجہد لمبی ہے اور ہم اپنی جگہ پر کھڑے ہیں اور نوجوانوں سے کہہ رہے ہیں کہ وہ بھی ہماری صفوں میں واپس آئیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ نوجوان جو شارٹ کٹ ڈھونڈ رہے تھے ان کی آواز پر لبیک کہتے ہیں یا نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔