مقدر ہے بڑی چیز

یونس ہمدم  جمعـء 26 دسمبر 2014
hamdam.younus@gmail.com

[email protected]

برسوں سے ہم سنتے چلے آرہے ہیں کہ مقدر بڑی چیز ہے، انسان شہرت اور دولت کمانے کے لیے دن رات کوششیں کرتا ہے مگر ملتا اسے وہی کچھ ہے جو اس کے مقدر میں ہوتا ہے، کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بنا مانگے بہت کچھ مل جاتا ہے اور کبھی انسان سوچتا کچھ ہے اور ہوتا کچھ ہے اور فلمی دنیا کا تو دستور ہی نرالا ہے لوگ اپنی فلموں کی کامیابیوں کے لیے منتیں مانگتے ہیں، مگر چاند وہی چڑھتا ہے جسے مقدر جگمگاتا ہے۔

بے شمار لوگ فلمی دنیا میں ہیرو بننے کے خواب سجاتے ہیں مگر ایسے خواب کسی تقدیر والے کے ہی پورے ہوتے ہیں، میں ایسے کتنے ہی لوگوں سے واقف ہوں جو فلمی دنیا میں بڑی امیدیں لے کر آئے کچھ تو ان میں شہرت کی بلندیوں تک پہنچے اور کچھ ناکام و نامراد لوٹے اور پھر گمنامی کے دھوئیں میں کھو گئے، اداکار محمد علی نے اپنی پہلی فلم ’’چراغ جلتا رہا‘‘ میں سائیڈ رول ادا کیا تھا جب کہ فلم کا ہیرو عارف تھا۔ وہ بھی ایک خوبرو جوان تھا مگر اس فلم سے شہرت ہیرو کو نہ مل سکی اور سائیڈ رول والا محمد علی ایک ہی فلم کے بعد کامیابی کے راستے کا مسافر بن کر شہرت کی بلندیوں تک پہنچے ہیں اور اتنا نام کمایا کہ محمد علی کو پاکستان فلم انڈسٹری کا دادا ہیرو کہا جاتا تھا، جو ندیم سے لے کر وحید مراد تک سب کو چاند تم کیسے ہو کہہ کر پکارتا تھا۔

ہر ہیرو اور ہر ہیروئن ہر فلمساز محمد علی کو علی بھائی، علی بھائی کہہ کر پکارتا تھا اسی طرح سعید خان عرف رنگیلا نے اپنی فلمی زندگی کا آغاز ایک چھوٹے سے مزاحیہ کردار سے کیا جب وہ فلمی دنیا میں نیا نیا آیا تھا اکثر لوگ اس کا مذاق بھی اڑایا کرتے تھے لیکن ایک وقت وہ بھی آیا کہ رنگیلا اپنے وقت کا سب سے مشہور اور معروف ہیرو بن گیا تھا اور وہ نہ صرف ہیرو بلکہ فلمساز،ہدایت کار اور تقسیم کار بھی بن گیا تھا۔

رنگیلا کی بحیثیت فلمسازوہدایت کار پہلی فلم ’’دیا اورطوفان ‘‘ نے کامیابی کے تمام ریکارڈ توڑ دیے تھے وہ فلم نمائش سے پہلے ہی دوسرے اور تیسرے سیزن کے لیے بک ہوگئی تھی۔ اب میں اپنے طالب علمی کے زمانے کی طرف آتا ہوں۔ اسلامیہ کالج میں نذیر بیگ بھی تھا اور ایک طالب علم فیروز بھی تھا۔ نذیر بیگ نے کبھی اداکار بننے کا خواب میں بھی نہیں سوچا تھا اور فیروز سارے کالج میں ایک ہیرو کی طرح پھرتا تھا اور کالج کی لڑکیوں میں بھی بڑا مقبول تھا جب کہ نذیر بیگ انتہائی شرمیلا تھا اور لڑکیوں کے سامنے تو اس کی بالکل ہی بولتی بند ہوجاتی تھی۔

ریحانہ صدیقی بھی اسلامیہ کالج ہی میں پڑھتی تھی، نذیر بیگ کراچی کی حد تک گلوکار بن چکا تھا مگر جب وہ کراچی سے ڈھاکہ گیا تو وہاں وہ نذیر بیگ سے ندیم بن گیا اور فلم ’’چکوری‘‘ میں ہیرو آنے کے بعد پاکستان فلم انڈسٹری کا ایک ایسا ممتاز اداکار بناکہ شہرت، عزت اور دولت اس کے قدموں میں ڈھیر ہوگئی تھی۔ ریحانہ صدیقی نے کراچی کی ایک فلم ’’ہمدم‘‘ میں بطور ہیروئن ڈھاکہ کے نامور ہیرو خلیل کے ساتھ ہیروئن کا کردار ادا کیا، فلم بری طرح فلاپ ہوئی اور ریحانہ صدیقی ایک بھولی بسری کہانی بن گئی، کراچی ہی کا نوجوان فیروز، خوبرو تھا، با صلاحیت بھی تھا اور اداکاری کا جنون کی حد تک شوق تھا۔

اس نے کراچی فلم انڈسٹری میں ہیرو بننے کے لیے بڑے ہاتھ پیر مارے، کئی جھوٹے فلمسازوں کے جھانسے میں بھی آیا مگر پھر بھی جب وہ کسی قیمت پر اداکار نہ بن سکا تو اس نے خود اپنے سرمائے سے فلم بنانے کا ارادہ کیا۔ خود ہی ایک کہانی لکھی اور خود ہی ہدایت کاری کے فرائض سنبھالے اور کالج سے فارغ ہوتے ہی اس نے اپنی ذاتی فلم ’’السلام علیکم‘‘ کے نام سے بنانے کا اعلان کردیا۔ فیروز ایک کھاتے پیتے گھرانے کا چشم و چراغ تھا۔

اس کے پاس کافی سرمایا تھا جب کہ نذیر بیگ کے مالی حالات اس کے بالکل برعکس تھے۔ اسی لیے وہ اپنا مستقبل سنوارنے کے لیے کراچی کی فلم انڈسٹری سے مایوس ڈھاکہ چلا گیا تھا۔ ادھر کراچی میں فیروز نے اپنا ذاتی فلمساز ادارہ قائم کیا اور اپنی فلم ’’السلام علیکم‘‘ کا باقاعدہ آغاز کردیا پہلے اپنی فلم کے چند گانے ریکارڈ کرائے ایک گانا رونا لیلیٰ کی آواز میں ریکارڈ کرایا جو شبی فاروقی نے لکھا تھا اور جس کی موسیقی دو نوجوان دوستوں نذر اور صابر نے مرتب کی تھی۔ گیت کے بول تھے ۔

ہولے ہولے پون چلے ڈولے جیا رے
نیلے نیلے گگن تلے آجا پیارے
بھولے پیا تو نے یہ کیا جادو کیا رے

یہ گیت رونا لیلیٰ کے چند ابتدائی گیتوں میں سے ایک اور سپر ہٹ گیت تھا۔ اس گیت کے بعد ایک اورگیت احمد رشدی کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا جس کے بول تھے ۔

الف سے اچھا ب سے بہتر پ سے پاکستان
پاکستان کی خاطر اپنی جان بھی ہے قربان

فلمساز فیروز نے اپنی فلم کی ہیروئن ایک نئی آرٹسٹ روزینہ کو لے کر شوٹنگ شروع کردی ان دنوں روزینہ کمرشل اشتہاری فلموں میں کام کرتی تھی اور ہاٹ کیک کی طرح مشہور ہوچکی تھی اسی دوران روزینہ کو اداکار و فلمساز وحید مراد نے اپنی فلم ’’ہیرا اور پتھر‘‘ میں کاسٹ کرلیا۔ اس فلم کے علاوہ دیگر اور کئی فلموں میں روزینہ بک ہوتی چلی گئی اور اداکار فیروز کی فلم ’’السلام علیکم‘‘ جس رفتار سے شروع ہوئی تھی اپنی وہ رفتار برقرار نہ رکھ سکی، فیروز کو ہدایت کاری کا بھی کوئی تجربہ نہیں تھا، یہی وجہ تھی کہ فیروز کی فلم کچھ دنوں بعد تعطل کا شکار ہوگئی اور روزینہ وحید مراد کے فلمساز ادارے فلم آرٹس میں باقاعدہ شامل ہوگئی تھی، فیروز نے جیسے تیسے کرکے اپنی فلم ’’السلام علیکم‘‘ مکمل کی اور جب یہ فلم نمائش کے لیے پیش ہوئی تو فلم بینوں نے اس فلم کو پہلے ہی ہفتے میں وعلیکم السلام کہہ دیا اور فلم کے فلاپ ہونے سے اداکار فیروز کے ہیرو بننے کے سارے خواب چکنا چور ہوکر رہ گئے ۔ فیروز کے ساتھ ایسے کئی اور کراچی کے آرٹسٹ جڑے ہوئے ہیں۔

جنھوں نے کراچی کی فلمی دنیا سے آغاز کیا، تھوڑی بہت کامیابی ملی تو وہ پھر اپنی قسمت کو آزمانے کے لیے لاہور کی فلم انڈسٹری میں داخل ہوئے، ان میں اداکار ناظم، اداکار طلعت اقبال، اداکار دانیال اور اداکار غلام محی الدین شامل ہیں، ناظم کو ابتداء میں لاہور کچھ ریسپانس ملا، رنگیلا نے اپنی فلم ’’دل اور دنیا‘‘ میں برابر کا کردار دیا فلم بھی کامیاب رہی، ناظم کو ایک دو اردو فلموں کے علاوہ ہدایت کار الطاف حسین کی دو تین پنجابی فلمیں بھی ملیں مگر وہ بھی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کرسکیں اور یہاں بھی مقدر ناظم کے آڑے آگیا۔ ناظم لاہور میں رہتے ہوئے بھی ایک ناکام اداکار ہی ثابت ہوا اور پھر وہ ایک دو فلموں میں بطور پروڈیوسر بھی رہا مگر اس شعبے میں بھی ناکام رہا اور پھر تھک ہار کر واپس کراچی آگیا۔

اسی طرح ٹی وی کا اداکار طلعت اقبال لاہور آیا مگر اس کا حشر بھی یہی ہوا کہ کھایا پیا کچھ نہیں صرف گلاس توڑا اور پھر گمنامی کا ساتھی بن گیا، کراچی سے ایک اور اداکار دانیال تھا جسے کراچی ہی میں ایک فلم ’’جذبات‘‘ کے لیے کاسٹ کیا مگر وہ فلم بھی اعلانات سے آگے نہ بڑھ سکی ۔ ہاں البتہ دانیال کو اس کے صحافی دوست مستنصر جاوید نے جو جنگ کے فلم صفحے کا انچارج تھا اسے خوب پبلسٹی دی اس پبلسٹی کے سہارے وہ لاہور چلا گیا، وہاں فلمساز، ہدایت کار دلجیت مرزا نے اپنی فلم ’’گر ہستی‘‘ میں سنگیتا کے ساتھ ہیرو کاسٹ کیا، فلم ریلیز کے بعد بری طرح ناکامی سے دو چار ہوئی، سنگیتا کا مقدر نے ساتھ دیا وہ صف اول کی ہیروئن اور ہدایت کار تک بن گئی مگر دانیال کی کہانی ایک ہی فلم کے بعد ختم ہوگئی اور وہ ناکامی کی دلدل میں دھنستا چلا گیا۔

ہاں ان میں ایک خوش قسمت اداکار غلام محی الدین تھا جسے نامور فلمساز و ہدایت کار شباب کیرانوی نے اپنی فلم ’’میرا نام ہے محبت‘‘ میں بابرہ شریف کے ساتھ ہیرو لیا اور اس فلم نے سارے پاکستان میں اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑدیے اور اس طرح غلام محی الدین عرف گلو اپنی ایک ہی فلم کے بعد سپرہٹ اداکاروں کی صف میں اپنا ایک مقام بناگیا پھر دیکھتے ہی دیکھتے مقدر کی دیوی گلو پر مہربان ہوتی چلی گئی اور پھر فلمساز و ہدایت کار شباب کیرانوی کے کیمپ سے نکل کر غلام محی الدین دیگر فلمسازوں کی گڈ بک میں بھی آگیا اور دیکھتے ہی دیکھتے کامیاب اداکاروں کی صرف میں شامل ہوگیا او مقدر کے مزے لیتا رہا۔

اس نے اپنے وقت کی ہر مشہور ہیروئن کے ساتھ کام کیا اور اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا میری لاہور میں ناظم، طلعت اقبال، دانیال اور غلام محی الدین سے بے شمار ملاقاتیں رہیں یہ چاروں اداکار کراچی ہی سے میرے اچھے دوست تھے۔ آج میں نے ان کے ساتھ بہت سی یادوں کو شیئر کیا ہے اور اب اس حقیقت کا بھی اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ واقعی مقدر بڑی چیز ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔