2014ء کا معاشی جائزہ

ایم آئی خلیل  ہفتہ 27 دسمبر 2014

سال 2014ء کا آغاز ہوا تھا کہ ان دنوں ڈالر کی بڑی آؤ بھگت ہو رہی تھی۔ دن دگنی رات چوگنی ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہو رہا تھا اور پاکستانی کرنسی کی قیمت گرتی چلی جا رہی تھی۔ آئی ایم ایف کی جانب سے حکومت پر دباؤ بڑھتا چلا جا رہا تھا کہ بجلی گیس کے نرخوں میں اضافہ کیا جائے۔ حکومت اس بات پر مصر تھی کہ اسے قرض دیا جائے کیونکہ زرمبادلہ کی بگڑتی ہوئی صورت حال کے باعث ایک طرف روپے کی قدر میں کمی ہو رہی تھی۔

اس کے ساتھ ہی مہنگائی بھی بڑھ رہی تھی۔ تیل کی عالمی قیمتوں میں ان دنوں اضافہ ہوتا چلا جا رہا تھا جس کے باعث پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی اضافہ معمول بن گیا تھا۔ ملک بھر میں گیس کی لوڈشیڈنگ ہو رہی تھی حتیٰ کہ فیصل آباد جہاں سیکڑوں ٹیکسٹائل ملیں دن رات کام کرتی ہیں وہاں بار بار گیس کی بندش کے باعث برآمدات پر منفی اثرات مرتب ہو رہے تھے۔ گیس کی عدم فراہمی کے باعث لوگوں نے گھروں میں لکڑیاں جلا کر کھانا پکانا شروع کردیا تھا۔ کئی جگہ لکڑیاں جلانے کے باعث مالک مکان اور کرایے دار کے درمیان لڑائی جھگڑے دیکھنے میں آرہے تھے اور مکان خالی کرنے کے نوٹس دیے جا رہے تھے۔ حکومت توانائی کے مسائل حل نہیں کر پا رہی تھی۔ اس کے ساتھ ہی مہنگائی اور بیروزگاری کے عفریت نے معیشت کو نڈھال کردیا تھا۔ غربت بڑھتی چلی جا رہی تھی۔

اقوام متحدہ نے نئے ہزاریے کے آغاز پر جو اہداف غربت کم کرنے کے مقرر کیے تھے 14 سال بعد بھی پاکستان ان اہداف کے قریب پہنچنے کے بجائے دور ہو رہا تھا ملک میں غربت کی شرح بڑھتی چلی جا رہی تھی۔ موجودہ حکومت نے اپنے قیام سے قبل توانائی کے مسائل حل کرنے کے بارے میں جو وعدے کیے تھے ان میں ناکامی ہو رہی تھی۔ توانائی کے جو منصوبے شروع کیے جا رہے تھے ان کی تکمیل میں کئی سال درکار تھے۔ چند ماہ بعد جب بجٹ پیش ہونے کے دن قریب آئے تو عوام کو امید تھی کہ بجٹ میں عوام کو ریلیف فراہم کیا جائے گا۔ لیکن حکومت عوام کے لیے کوئی فلاح و بہبود کا پروگرام نہ پیش کرسکی۔ پورا مہینہ عوام نے بجٹ پر تنقید کرتے ہوئے گزارا کہ ماہ رمضان المبارک کا آغاز ہوا۔

عید الفطر کے بعد ابھی یوم آزادی منا رہے تھے کہ دھرنوں کا پروگرام شروع ہوگیا۔ جس نے غالباً 172 یوم تک معیشت پر بھی اپنے گہرے نقوش چھوڑے۔ دھرنوں کے حق اور مخالفت میں دونوں آراؤں کا بازار گرم ہوگیا۔ پورے سال ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں رہنے، دھرنوں، توانائی کی کمی، بجلی گیس، پٹرول کی قیمت میں اضافے اور دیگر وجوہات کی بنا پر تاجروں نے زبردست مندی کی شکایت کی۔ اسی دوران گندم کی قیمت میں 100 روپے فی من کا اضافہ بھی کردیا گیا۔ پاکستان میں گندم 2 کروڑ 40 لاکھ ٹن پیداوار کی خوش خبری سنائی گئی۔

لیکن آلو اور پیاز کی پیداوار میں کمی کے باعث دونوں اشیا کی قیمتیں لگ بھگ 100 روپے کلو تک بھی رہیں کہ اس دوران آلو پیاز کی برآمد پر پابندی عائد کردی گئی اور بھارت سے آلو پیاز درآمد کیا جانے لگا۔ ابھی دھرنوں کا آغاز ہوا تھا کہ کچھ دنوں کے بعد پنجاب کے نہری علاقوں کو سیلاب نے آلیا۔ خاص طور پر دریائے چناب بپھر کر سامنے آگیا کہ اپنے راستے میں آنے والے سیکڑوں دیہاتوں اور قصبوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

سیلاب کے دنوں میں گزشتہ برسوں میں آنے والے سیلابوں پر رپورٹوں کا خوب تذکرہ رہا، ان میں دی گئی تجاویز کو یاد کیا جاتا رہا اور ایک مرتبہ پھر حکومت اور حکام بڑے ہی شدومد کے ساتھ اس بات کا اعادہ کرتے رہے کہ اب ایسے اقدامات کر دیے جائیں گے کہ جس سے سیلاب کو کنٹرول کرلیا جائے گا۔ سیلاب گزرنے کے بعد اب پھر حکام بالا سب کچھ بھول گئے۔ ایک مرتبہ پھر اس بات کی ضرورت ہے کہ ان رپورٹوں کو دیکھا جائے اور اس پر جس حد تک ممکن ہو سکے عملدرآمد کیا جائے۔

ابھی سال ختم ہونے میں کئی ماہ باقی تھے کہ زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری آنا شروع ہوگئی۔ بینکنگ سیکٹر کی جانب سے یہ اطلاعات موصول ہونے لگیں کہ بینکوں کی جانب سے صنعتکاروں کو دیے گئے قرضوں کے حجم میں اضافہ ہوا۔ اس دوران آئی ایم ایف نے پاکستان کی معیشت کے بارے میں اطمینان کا اظہار کیا۔ چین کی طرف سے 32 ارب ڈالر کے توانائی کے معاہدے کیے گئے۔ ملک میں گندم، کپاس اور گنے کی پیداوار میں اضافہ ہوا۔ لیکن کپاس کی عالمی منڈی میں قیمت میں کمی کے اثرات پاکستان پر مرتب ہوئے اور کاشتکاروں کو کپاس کی کم قیمت وصول ہوئی۔

نومبر میں چینی کی پیداوار شروع کرنے کے موقع پر مل اونرز نے گنے کی قیمت گھٹا دی جب کہ کچھ دن بعد صوبائی حکومت سندھ نے سابقہ قیمت 181 روپے ادائیگی کا حکم جاری کیا۔ کہا جا رہا ہے کہ مل اونرز یہ قیمت ادا کرنے سے پس و پیش سے کام لے رہے ہیں۔ ماہ نومبر میں ہی تیل کی قیمت میں کمی کی گئی ایک بار پھر دسمبر میں کمی کی گئی اس کے ساتھ ہی بجلی کی قیمت میں بھی کمی کی گئی لیکن اس کے باوجود ٹرانسپورٹرز اور مصنوعات بنانے والوں کی جانب سے کرایے اور اشیا کی قیمت میں کوئی کمی عمل میں لائی نہیں گئی۔ جس کی وجہ سے مہنگائی کم ہونے کی امید بھی دم توڑ گئی ہے۔ اب ایک مرتبہ پھر حکومت پٹرول اور بجلی کی قیمت میں کمی کا ارادہ ظاہر کر رہی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی اطلاعات کے مطابق حکومت نے گیس کی قیمت میں اضافے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ کیونکہ اس سے قبل غالباً ملک میں سیاسی شورش کے باعث گیس کی قیمت میں اضافہ نہیں کیا گیا تھا۔

جب کہ آئی ایم ایف کی جانب سے یہ مطالبہ بڑے پرزور طریقے سے کیا جاتا ہے کہ بجلی گیس وغیرہ کی قیمت میں اضافہ کیا جائے لیکن اس سے قبل ہی ایل پی جی کی قیمت میں نمایاں اضافہ ہوچکا ہے جس کی ابھی تک کوئی وجہ نہیں بتائی جاسکی۔ اس حالیہ اضافے کو واپس لینے کی ضرورت ہے۔ حکومت نے جی ایس پی پلس کا درجہ ملنے کے باوجود برآمدات میں اضافے کے لیے کوئی خاص اقدامات نہ کیے جہاں ایک طرف برآمدات میں اضافہ ہونا تھا جس کی توقع کی جا رہی تھی وہ امیدیں پوری نہ ہوسکیں۔ تجارتی خسارہ بہت زیادہ بڑھ رہا ہے، جولائی تا نومبر میں ہونے والا تجارتی خسارہ ہی 10 کھرب 58 ارب 4 کروڑ 70 لاکھ روپے کا تھا۔

16 دسمبر کو پشاور سانحے کے بعد قوم متحد ہوچکی ہے۔ اس واقعے کے بعد دھرنا ختم کردیا گیا۔ ملک بھر میں پشاور کے شہدا کے لیے عوام لواحقین کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے قرآن خوانی کا اہتمام کر رہے ہیں۔ امید ہے کہ نیا سال عوام اور معیشت کے لیے اچھی خبریں لے کر آئے گا۔ معیشت صحیح رخ پر پڑ جائے گی۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ حکومت گیس کی قیمت میں اضافے کے بجائے پٹرول اور بجلی کی قیمت میں جو کمی لے کر آرہی ہے اس کا دائرہ کار ٹرانسپورٹروں سے لے کر صنعتکاروں تک پھیلائے تاکہ ہر کوئی توانائی کی قیمت میں کی جانے والی کمی کے تناسب سے اشیا و خدمات کی قیمت میں کمی کرے تاکہ ملک سے مہنگائی کم ہو، غربت میں کمی واقع ہو اور روزگار کے مواقعے بڑھیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔