اسرائیلی عدالت کا ایک یہودی بستی گرانے کا حکم

ایڈیٹوریل  ہفتہ 27 دسمبر 2014
یہ بستی مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں کسی بھی جگہ پر قائم کی گئی سب سے بڑی غیر قانونی یہودی بستی ہے، فوٹو : فائل

یہ بستی مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں کسی بھی جگہ پر قائم کی گئی سب سے بڑی غیر قانونی یہودی بستی ہے، فوٹو : فائل

اسرائیلی سپریم کورٹ نے حکم دیا ہے کہ مغربی کنارے کے مقبوضہ فلسطینی علاقے میں یہودی آبادکاروں کی تعمیر کردہ سب سے بڑی غیر قانونی بستی کو ہر صورت میں گرا دیا جائے۔ آمونہ نامی یہ یہودی بستی 1997ء میں تعمیر کی گئی تھی۔ واضح رہے ایک طرف تل ابیب کی میونسپلٹی بیت المقدس کے مشرقی جانب سیکڑوں گھروں پر مشتمل نئی یہودی بستیاں تعمیر کرنے کے اجازت نامے جاری کر رہی ہے وہاں اعلی ترین اسرائیلی عدالت سالہا سال سے قائم یہودی بستی کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے منہدم کرنے کا حکم دے چکی ہے۔

بعض فلسطینی ذرائع بستی کے انہدام کے اس فیصلے کو محض دکھاوے سے تعبیر کر رہے ہیں جو بقول ان کے یہ دکھاوا دنیا کو اپنی انصاف پسندی سے متاثر کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے حالانکہ اس نام نہاد غیر قانونی بستی کو ختم کرنے کا کوئی امکان نہیں کیونکہ یہودیوں کی جتنی بھی بستیاں ہیں وہ سب کی سب غیر قانونی ہیں۔ اسرائیلی دارالحکومت تل ابیب سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق اسرائیل کی اعلیٰ ترین عدلت کی طرف سے یہ حکم اگلے روز سنایا گیا جس کی تفصیلات اسرائیلی ذرائع ابلاغ نے شائع کیں۔ عدالت نے اسرائیلی حکام کو اس بستی کے انہدام کے لیے زیادہ سے زیادہ مزید 2 سال تک کا وقت دیا ہے۔ یہودی آبادکاروں کی کسی سرکاری اجازت نامے کے بغیر تعمیر کی گئی اس بستی میں قریباً 50 اسرائیلی خاندان رہتے ہیں۔

یہ بستی مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں کسی بھی جگہ پر قائم کی گئی سب سے بڑی غیر قانونی یہودی بستی ہے۔ اس بارے میں فیصلہ اسرائیلی سپریم کورٹ کے صدر کی سربراہی میں تین ججوں پر مشتمل ایک پینل نے اتفاق رائے سے سنایا۔ عدالتی حکم کے مطابق مغربی کنارے کے فلسطینی علاقے میں آمونہ نامی اس بستی کو دو سال کے اندر اندر کسی بھی طرح خالی کرا کے لازمی طور پر گرا دیا جانا چاہیے۔ آمونہ کے مستقبل کے بارے میں یہ قانونی جنگ قریب 8 سال تک جاری رہی ہے۔ سپریم کورٹ کے سربراہ نے اس مقدمے میں اپنے فیصلے میں لکھا، ’’یہ بستی اور وہاں تعمیر کیے گئے رہائشی ڈھانچے ایک ایسی جگہ پر تعمیر کیے گئے تھے جو کسی کی نجی ملکیت تھی۔ اس لیے وہاں تعمیرات کے چاہے وہ ماضی میں ہی عمل میں آئی ہوں، جائز اور قانونی قرار دیے جانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔‘‘ بہرحال دیکھنا یہ ہے کہ کیا اسرائیل کی حکومت یہ غیرقانونی بستی گراتی ہے یا نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔