چین اک پل نہیں، اب کوئی حل نہیں

سعد اللہ جان برق  ہفتہ 27 دسمبر 2014
barq@email.com

[email protected]

پیار محبت وعدے وفا سب باتیں ہیں، باتوں کا کیا، باتیں اگر کہئے تو ہم اسی وقت اچھی اچھی باتوں کے ڈھیر لگا دیں کیوں کہ ہم جس ملک میں رہتے ہیں وہاں چاہے اور کچھ بھی نہ ہو، بجلی، گیس، روٹی، کپڑا، مکان، دین، ایمان، آدمی، انسان، روزگار، عزت، وقار نہ ہو لیکن باتیں بہت ہیں، اچھی اچھی، خوبصورت، بڑی بڑی باتیں، لمبی باتیں، چوڑی باتیں، گہری باتیں اونچی باتیں، فلسفے دانش منطق حتیٰ کہ حماقت تک کی باتیں مطلب یہ کہ کوئی پونے انچ کا کنکر اٹھایئے تو اس کے نیچے سے بھی باتوں کا کوہ ہمالیہ نکل آئے گا یا کوئی سمندر بہہ نکلے۔

اس لیے ہم بھی صرف باتیں ہی کریں گے کیوں کہ یہی ہم نے سیکھا ہے، حاصل کیا اور کمایا ہے، سو آج ہماری بھی سنیے جہاں اخباروں، کالموں، اینکروں، بینکروں، ٹینکروں، دانشوروں، تجزیہ نگاروں، بزرگ مہروں، بقراطوں، افلاطونوں، ارسطوؤں، لقمانوں اور لقمہ خوروں کی اتنی باتیں آپ روزانہ سنتے ہیں تو کچھ نہ کچھ تو ہمارا بھی تو حق بنتا ہے آپ کے کانوں، آنکھوں اور دل و دماغ پر… اور مرے پہ سو دروں سے فرق ہی کیا پڑتا ہے، پاکستان کے لوگ صرف اور صرف بولنے سننے اور سنتے رہنے کے لیے ہی تو پیدا ہوتے ہیں، جیتے ہیں اور پھر مر جاتے ہیں۔ خدا نے ہم کو بھی ایک عدد زبان ایک عدد قلم اور ڈھیر سا تکلم یعنی الم غلم عطاء کیا ہوا ہے جنھیں کوئی روک نہیں سکتا۔ سب سے پہلے تو ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ آپ بالکل بھی فکر نہ کریں ہاں کبھی کبھی تھوڑا تھوڑا مرتے رہیے باقی ہم جانیں اور ہمارا کام… اور ہمارا کام سب سے پہلے تو یہ ہے کہ ہم ان بدبخت ظالم وحشی لوگوں کو کیفر کردار تک پہنچا کر چھوڑیں گے۔

ان لوگوں نے سمجھ کیا رکھا ہے کہ انھوں نے کس قوم کو للکارا ہے کیا ان کو معلوم نہیں ہے کہ ہم ان سورماؤں کی اولاد ہیں جنھوں نے دشت تو دشت ہے دریا بھی نہ چھوڑے بلکہ بحر ظلمات میں گھوڑے بھی دوڑائے تھے جب قیصر و کسریٰ ہمارے سامنے ٹھہر نہیں سکے تھے تو یہ کس کھیت کی مولی ہیں، کیا نام ہے طالبان یا جو کچھ بھی ان کا نام ہو ان کی کمر تو ہم نے بہت پہلے توڑ کر رکھ دی جب امیر حیدر ہوتی، افراسیاب خٹک، میاں افتخار جیسے مانے ہوئے سپہ سالار ہیلی کاپٹروں میں بیٹھے اور اسفندیار نامی جرنیل نے ان کو اسلام آباد سے ریموٹ کیا تو طالبان کی کمر چق چق تڑق تڑق اور کچر کچر کر کے ٹوٹ گئی۔

یہی وہ موقع تھا جب اپنی ٹوٹی ہوئی کمر اور دو سو چھ ہڈیوں کا چورہ لے کر ہم سے صلح کے طالب ہوئے، آپ سے کیا پردہ ہم نے بھی محض دنیا کو اور پھر خاص طور پر اپنے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے ہاں کر دی تا کہ دنیا پر اپنی صلح پسندی اور دیالو پن کا سکہ بیٹھ جائے اور وہ بیٹھ گیا، لیکن یہ اجڈ جاہل احمق نالائق نہیں جانتے تھے کہ انھوں نے کس قوم سے پنگا لیا ہے کن لیڈروں کے منہ آئے ہیں اور کن دانش مندوں سے لوہا لیا ہے، چنانچہ ہم نے جان بوجھ کر ایسے اوزار تھما دیے جو انتہائی زنگ آلود خستہ و شکستہ تھے کبھی بیورو کریسی کے کباڑ سے کچھ اوزار اٹھا کر دیے کبھی سیاست کے کوڑے دان سے کچھ اٹھا کر تھما دیا اور کبھی اپنے ازکار رفتہ چمچے سامنے کر دیے۔

کیوں کہ ہمیں معلوم تھا کہ جو نٹ بولٹ کھولنا مقصود ہے جو پرزے صاف کرنا ہیں جو گراریاں درست سمت میں چلانا ہیں وہ ان ازکار رفتہ اوزاروں سے کھلنے والی نہیں ہیں بلکہ ساتھ ہی ایک اور پینترا بھی کر ڈالا ایسا کوئی پانا گھوٹکہ یا رینچ نہیں دیا جو ان نٹ بولٹ پر فٹ بیٹھتا ہو، کھولنا تھے اٹھارہ نمبر کے نٹ اور ہم نے پانہ دیا 9/16 کا، سکرو کے لیے اسٹار بیج کس درکار تھا اور ہم تھما دیا سادہ بیج کس… ضرورت تھی پائپ رینج کی اور ہم نے اٹھا کر دیدیا سادہ رینج، اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ ہمارے پاس اوزار تھے نہیں ہمارے ٹول باکس میں ہر طرح کے اوزار تھے جو اگر ہم دے دیتے تو فَٹ سے سارے نٹ بولٹ کھل جاتے اور امن و آشتی کی مشینیں درست ہو جاتیں لیکن اس سے بہت انرت ہو جاتا نہ جانے کتنے لوگ بے روزگار ہو جاتے بلکہ کچھ تو اتنے بیکار ہو جاتے کہ کوڑے پر پھینکنے کے قابل ہو جاتے۔

چنانچہ ہم نے غلط اوزاروں سے غلط طریقے پر غلط تالا کھولنے کی کامیاب کوشش کی اور جب تالا ہی نہیں کھلا تو کچھ بھی نہیں کھلا، اگر کھلا تو موت کا ناچ اور ابلیس کا رقص کھلا، جس سے بے پناہ لوگوں کی روزی روٹی وابستہ ہے، کچھ لوگ جو منفی تنقیدیے کہلاتے ہیں ہم پر اعتراض کرتے ہیں کہ اگر ہم چاہتے تو اس رقص ابلیس کو ابتداء ہی روک سکتے تھے ہمارا سیاسی اور ڈپلومیٹک بیان تو یہ ہے کہ یہ لوگ غلط کہتے ہیں محض منفی تنقید کرتے ہیں بلکہ اگر کچھ زیادہ تنگ کرنے لگیں تو ہم پر وطن دشمنی عوام دشمنی اور ملک دشمنی کا ٹھپہ بھی لگوا سکتے ہیں۔

سیدھی سادی سی بات یہ ہے کہ اگر یہ جو رقص ابلیس جاری ہے جس کا تازہ ترین اور سب سے بڑا مظاہرہ پشاور کے ایک اسکول میں ہوا… اگر ابتداء ہی میں رک جاتا بلکہ حضرت ضیاء الحق اور مشرف صاحب اگر چاہتے تو یہ رقص ابلیس شروع ہی نہ ہوتا اور پھر بعد میں ایسے کئی مواقع ہاتھ آئے کہ اسے روکا جا سکتا تھا لیکن ذرا یہ تصور تو کریں یہ جو اتنے لوگ جو آج ’’برسر روزگار‘‘ ہیں یہ بے چارے کیا کھاتے اور کیا پیتے، جی تو ہمارا اب بھی نہیں چاہتا لیکن مجبوری ہے کیونکہ ایک دہشت گردی کا سلسلہ نہ رکا تو ایک دن کچھ بھی نہیں بچے گا۔ اس لیے بہتر ہے کہ کچھ کیا جائے۔

چنانچہ ہم نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اب بہت ہو گیا یہ کم بخت طالبان یا کچھ بھی ہیں نہ تو کمر توڑنے پر باز آئے نہ دو سو چھ ہڈیوں کا چورا ہی ان کو آدمی بنا سکا اس لیے اب راست اقدام کا وقت آ گیا ہے فوری طور پر زرکثیر صرف کر کے ہم نے بیرون سے بہت سارے کیفر کردار منگوا کر محفوظ مقامات پر اسٹور کر لیے ہیں اب کسی کا خون رائیگان نہیں جائے گا خون کے ایک ایک قطرے کا حساب لیا جائے گا اور ظالموں کو صرف اس وقت چھوڑا جائے گا جب تک ان کو مکمل سزائیں نہیں دی جائیں گی، سزاؤں کیفر کرداروں اور خون کا حساب لینے کے بعد ہی انھیں چھوڑا جائے گا اس سے پہلے ہر گز ہر گز بالکل بالکل اور قطعی قطعی ان کو نہیں ’’چھوڑا‘‘ جائے گا یہ ہمارا عزم بالجزم ہے بشرط یہ کہ یہ کم بخت ایک مرتبہ ہماری پکڑ میں آ جائیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔