المیہ یا سبق

فرح ناز  ہفتہ 27 دسمبر 2014

کتنی وحشت ہوگی اس وقت ان ہواؤں میں جب پشاورکے ایک اسکول میں گولیاں چل رہی ہوںگی، کتنی دردناک، دلخراش چیخیں ہوں گی ان دیواروں کے درمیان جب اسکول کے ہونہار معصوم بچوں کو ذبح کیا گیا، سوچ بھی ایک حد تک جاکر ختم ہوجاتی ہے اور ہم اور آپ ایک دم سے اپنی بند آنکھوں کو کھول دیتے ہیں۔ ریاست ایک ماں کی طرح شفیق کیوں نہیں ہے؟ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں انسانیت کیوں دم توڑ رہی ہے؟ جگہ جگہ خون کے دھبے کیوں نظر آرہے ہیں، جیتے جاگتے انسانوں نے درندوں کی صفات کیوں اپنالی؟ ہمارا ملک ایک فلاحی ریاست کے نام پر وجود میں آیا پھر جنگل کی طرح پروان کیوں چڑھ رہا ہے؟

دسمبر کے خنک اور سرد موسم میں درندگی کی ایسی مثال قائم کی گئی کہ جس کو سوچ کر بھی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، جسم پر کپکپی طاری ہوجاتی ہے، معصوم چہروں کی دلخراش چیخیں کئی ماہ و سال تک ہمیں چین سے جینے نہیں دیں گی۔ سسکتی ہوئی زندگی لمحہ بہ لمحہ دم توڑ رہی ہے، کہیں تھر میں کہیں اسکول میں، کبھی خرید وفروخت میں، کہیں چھوٹی معصوم بچیوں کی شکل میں جو مدرسوں کے سپرد کردی جاتی ہیں۔ حیرت ہوتی ہے جب آپ اپنے آس پاس پھیلی ہوئی بے حسی کو دیکھتے ہیں انسان کو جانوروں سے بھی بدتر کردیاگیا اس فلاحی مملکت دہشت گردی کے کتنے ہی واقعات بھرے ہوئے ہیں ہمیں سبق دینے والے، وہ واقعات پوچھتے ہیں ہم سے کہ کیا سیکھا ہم نے؟

اگر کوئی میرا مرا، تو غم ہے اورکسی اورکی خبر بس خبر ہے خوشیوں سے بھرے ہوئے دل، مسکرانے والی آنکھوں والے سچے، ایک درسگاہ میں قتل کردیے گئے، ایک یا دو نہیں سیکڑوں کی تعداد میں، ہم آپ اندازہ ہی نہیں کرسکتے ہیں کہ ان ماؤں کا کیا حال ہوگا وہ باپ کس حال میں ہوگا جو جلد اپنے بیٹے کو اپنے شانہ بشانہ دیکھنا چاہتا تھا۔ہماری سیاسی جماعتیں اپنے اپنے اختلافات بھول کر صرف اور صرف پاکستان کا سوچیں، سیاستدانوں کو امارت اور امیری کے چکروں کو خیرباد کہنا ہوگا، اپنے آپ کو ایک لیڈر کے طورپر منوانا ہوگا اور اس کے لیے بہت ساری قربانیاں دینی ہوگی، دنیا میں لیڈر ہی یاد رکھے جاتے ہیں۔ عبدالستار ایدھی دن و رات اپنی خدمات قوم کو دیتے ہیں مگر مرسڈیز میں پروٹوکول کے ساتھ نہیں گھومتے۔ لوگ ان پر اندھا اعتماد کرتے ہیں، کروڑوں روپے آنکھ بند کرکے ان کو دیتے ہیں، حساب بھی کوئی نہیں لیتا یہ محل در محل اپنے بنواسکتے ہیں کہ قتل کی دھمکیاں تو ان کو بھی ملتی ہے۔

نیلسن منڈیلا نے اپنی جوانی کے دن جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزاردیے مگر اپنی قربانی سے اپنا نام رہتی دنیا تک امر کرلیا، آج اور آنیوالے ہر دن ان کی مثال دی جاتی رہے گی۔پشاور کے اسکول کی پرنسپل طاہرہ قاضی کی مثال بھی ہمیشہ یاد رکھی جائے گی وہ اپنی جان بھی بچاسکتی تھی، عورت ہوتے ہوئے اپنے آنکھوں کے سامنے بربریت دیکھتے ہوئے اسکول کی Head ہونے کے ناتے سے آخری لمحہ تک اپنا فرض ادا کرتی رہی، اسکول کی جواں سال Teachers بھی قابل فخر ہیں کہ ہم میں اب بھی کچھ زندہ لوگ موجود ہیں جو جینا جانتے ہیں جو مرنا جانتے ہیں۔بلک بلک کر رونے کی صدائیں نہ صرف ان بچوں کے گھروں سے آئی بلکہ پورے ملک میں اور ملک سے باہر بھی لوگ روتے رہے اور اس ہولناک دہشت گردی کو ایسا ہی محسوس کیا گیا جیسے ہمارے گھر میں ہو۔

ہر شخص بے یقینی کی زندگی سے دوچار ہے، صبح جب گھر سے لوگ اپنے اپنے کاموں پر جاتے ہیں تو شام تک گھر کی خواتین ان کے صحیح و سلامت لوٹنے کی دعا کرتی ہیں اور حد تو یہ ہے کہ بڑے شہرکے ایک بڑے اسکول میں گھس کر معصوم زندگیوں کو نشانہ بنایاگیا اور جس بے دردی سے ان معصوم بچوں سے زندگی چھینی گئی یہ واقعہ ہماری تاریخ کا سیاہ ترین واقعہ ہے اور نہ جانے کب تک ہم اس دکھ و غم میں مبتلا رہیں گے۔دہشت گردی کی جڑیں 1979 سے جمنی شروع ہوئیں جب روس کو افغانستان سے نکالا گیا اور 9/11 کے بعد اس میں اور بھی شدت آئی۔مگر اب 2014 میں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اب اس سے کس طرح چھٹکارا پایا جائے، گہرائی میں اگر ہم جائیں گے تو بات پھر بہت دور تک نکل جائے گی۔عوام کی جان و مال کی کس طرح حفاظت کی جائے کس طرح امن و سکون کو پاکستان میں پھر سے واپس لایا جائے ہم سب کا متحد ہونا اور اپنے Commitment پر پورا اترنا اس وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔ بہت ضروری ہے کہ سب متحد ہوکر اپنے Objective کو حاصل کریں۔ سیاست دانوں سے دو قدم آگے بڑھیے اور اپنے آپ کو لیڈر بنانے والی صفات پیدا کیجیے۔

ملک کے ہر کونے میں دہشت گردی دستک دیتی نظر آرہی ہے خوف وہراس ہمارے چہروں سے عیاں ہے۔ اگر یہی حال رہا تو لوگ اپنی اصل زندگی سے بھی دور ہوتے چلے جائیں گے۔مذہبی رہنما بھی بہت ایمانداری کے ساتھ بڑا پاور فل رول ادا کرسکتے ہیں، مکمل ایمان اور ایمانداری سے بغیر کسی لالچ کے کسی پریشر کے حکمرانوں کو مرد آہن بننا ہوگا۔عوامی نمائندے لولے لنگڑے نظر آتے ہیں کمیٹی بنادی گئی، تجاویز آنی شروع ہوگئی، اختلافات شروع ہوگئے اور معاملات سرد خانوں کی نذر ہوگئے۔ یہی دیکھتے آتے ہیں ہم، اﷲ کرے کہ حالات اور واقعات ہمیں بہتری کی طرف دھکیل دیں اور نہ چاہتے ہوئے بھی ہم اپنے آپ کو سنوار سکیں۔

کئی اجڑے گھروں کو سکون تو تبھی آئے گا جب یہ سلسلے مزید آگے جانے سے رک جائیں گے، کیا حرج ہے کہ ہنسی کی آوازیں در و دیوار سے آتی رہیں، کیا حرج ہے جب ہم اپنے پیچھے چلنے والوں کا ہاتھ پکڑ کر ان کو اپنے ساتھ لے کر چلے، انا پرستی خود غرضی ایک ایسا کنواں ہے جو کبھی نہیں بھرتا۔ یقین جانیے آزادی سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں، ایک آزاد ملک میں آزادی کی سانسیں لینا جہاں آپ کسی کے غلام نہیں کوئی خوف نہیں، کوئی ترقی کے راستے میں رکاوٹ نہیں، آدھی روٹی بھی آپ کا پیٹ بھرسکتی ہے اور اگر انسانیت آجائے گی تو شاید اس آدھی روٹی کو بھی آپ دوسروں کے ساتھ شیئر کرنے سے نہیں گھبرائیں گے۔

در و دیوار میں بسی ہوئی کھنکتی ہنسی
ذرا سا اور جی لیتے تو کیا طوفان آجاتا

سیکڑوں معصوم مسکراتے چہرے بے دردی کے ساتھ ختم کردیے گئے، ان کے ساتھ ان کے گھر والوں کے، ان کے ماں باپ کے، سیکڑوں ارمان بھی ہمیشہ کے لیے مٹی تلے دفن ہوگئے جو اس دنیا سے چلے گئے وہ تو چلے گئے باقی ان کے اپنے زندہ ہوتے ہوئے بھی بے جان ہوگئے، دکھ و درد، غم و تکلیف اور اپنے جگر کے ٹکڑوں کی شائد وقت کے ساتھ کم ہوجائے مگر جائے گی کبھی نہیں، دل و جان سے دکھ کا احساس آنسوؤں کی شکل میں ہمیشہ بہتا رہے گا اور یہی کہے گا کہ ’’اﷲ غارت کرے ان لوگوں کو جو اﷲ کی دی ہوئی زندگی چھینتے ہیں۔

اﷲ غارت و نابود کرے ان قوتوں کو جو بے حس، بے احساس، بے درد اور ظالم ہیں۔پشاور کے اسکول کے ایک طالب علم کی ماں نے کہاکہ ظالموں نے نہ صرف ہمارا بیٹا مارا بلکہ انھوں نے ہم سب کو ماردیا۔ظلم جب حد سے بڑھتا ہے تو سامنے والے کو بے تحاشا طاقت بھی دیتا ہے اور اس طاقت میں اﷲ کی مدد شامل ہوجائے تو پھر ظلم ہمیشہ کے لیے مٹ جاتا ہے۔ اﷲ کرے کہ ہم سب متحد ہوجائیں، خود غرضی، انا پرستی، عیش و آرام کی لعنت سے اپنے آپ کو باہر نکال کر ان Rules کو Follow کریں جو بھلائی کی طرف اور خیر کی طرف جاتے ہیں۔ حادثات اور المیہ، اگر ان سے سبق حاصل کیاجائے تو کوئی مشکل نہیں کہ ایک اور متحد ہوکر Committed ہوکر اپنی منزل پالیں جوکہ آخر کار ایک عظیم پاکستان ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔