دوست یاں تھوڑے ہیں اور بھائی بہت

رئیس فاطمہ  ہفتہ 27 دسمبر 2014
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

’مسدس مد و جزر اسلام، ’حیات جاوید‘‘، ’’یادگار غالب، حیات سعدی‘‘ اور ’’مقدمہ شعر و شاعری‘‘ کے خالق مولانا الطاف حسین حالی جن کا شمار اردو کے عناصر خمسہ میں ہوتا ہے۔ ان کی وفات کو ستمبر 2014ء میں پورے سو سال ہو گئے۔ لیکن ان کے اشعار اور بالخصوص ’’مسدس حالی‘‘ کے بیشتر اشعار دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ یہ سو سال پہلے کی شاعری ہے۔ شاید اس لیے کہ ہم من الحیث القوم تحقیقی، علمی اور تہذیبی لحاظ سے پیچھے کی طرف پلٹ رہے ہیں۔ جو صورت حال مولانا نے مسلمانوں کی مسدس میں کھینچی ہے۔ وہی صورت آج بھی برقرار ہے۔

ذرا یہ اشعار دیکھیے:
قبیلے قبیلے کا بت اک جدا تھا
کسی کا ہبل تھا کسی کا صفا تھا
چلن ان کے جتنے تھے سب وحشیانہ
ہر اک لوٹ اور مار میں تھا یگانہ
فسادوں میں کٹتا تھا ان کا زمانہ
نہ تھا کوئی قانون کا تازیانہ

کیا یہ آج کی صورت حال نہیں ہے۔ بتوں کی جگہ مذہب کے ٹھیکیداروں اور لیڈروں نے لے لی ہے۔ قانون کی دھجیاں بکھری پڑی ہیں، ہر طرف لوٹ مار، فساد، جلاؤ گھیراؤ، خودکش بمبار، دہشت گردی، قبیلوں اور مسلکوں کی لڑائی جاری ہے۔ حالی نے جس غیر متمدن، وحشی، جنگجو عرب قوم کا نقشہ کھینچا ہے۔ اس کی حالت تعلیمات نبوی کی بدولت بالکل بدل گئی۔ صحرائے عرب کے بدو آج تیل کی بدولت امریکا کی آنکھ کا تارا ہیں، لیکن یہ ماننا پڑے گا کہ قانون کے نفاذ اور پاسداری کی بدولت عرب دنیا ایک ممتا ز مقام رکھتی ہے۔

انھوں نے ’’صفائی نصف ایمان ہے‘‘ کو اپنا موٹو بنا لیا ہے۔ اسی لیے وہاں ہر طرف صفائی ستھرائی آپ کا خیرمقدم کرے گی۔ شہر کی خوبصورتی متاثر نہ ہو، اس مقصد کے لیے اپارٹمنٹ کی گیلری میں رسیوں پر کپڑے سکھانے تک کی پابندی ہے۔ عرب حکمران اپنے پولیس افسران کو قانون پر عمل درآمد کرنے پر خوش ہوتے ہیں۔ لیکن اگر اس معاملے میں پاکستان کا جائزہ لیا جائے تو وہی صورت نظر آتی ہے جو اسلام سے پہلے کی ہے اور جس کا تفصیلی ذکر حالی نے اپنی مسدس میں جابجا کیا ہے۔

الطاف حسین حالی 1837ء میں پانی پت میں پیدا ہوئے۔ ان کے دگرگوں حالات نے انھیں باقاعدہ اسکول اور کالج جانے سے محروم رکھا۔ لیکن حصول علم کی خاطر انھوں نے سخت محنت کی، مدرسی کی، پروف ریڈر بھی رہے۔ جس سے انھیں یہ فائدہ ہوا کہ اردو، فارسی اور عربی کی اہم کتب تک ان کی رسائی ہو گئی۔ انھوں نے اس مقولے کو سچ ثابت کر دیا کہ ’’جوئندہ یابندہ‘‘۔ وہ ایک کثیر المطالعہ انسان تھے۔ اور سرسید تحریک سے وابستہ تھے۔ ان کا شمار سرسید احمد خان کے دست راست اور بہترین رفیقوں میں ہوتا ہے۔ سرسید نے ایک بار کہا تھا کہ ’’قیامت کے دن اگر خدا نے مجھ سے سوال کیا کہ میں نے دنیا میں کون سا ایسا کام کیا جس پر فخر ہو۔ تو میں کہوں گا کہ میں نے حالی سے مسدس لکھوائی ہے۔‘‘

’’یادگار غالب‘‘ غالب کی پہلی سوانح عمری ہے جسے حالی نے پوری سچائی اور دیانت داری کے ساتھ تحریر کیا ہے اور غالب کو انسان ہی رہنے دیا ہے۔ ان کی بشری کمزوریوں پہ خیانت کا پردہ نہیں ڈالا۔ جب کہ ’’حیات جاوید‘‘ جو کہ سرسید احمد خان کی سوانح ہے اس میں وہ شخصیت پرستی اور ہیرو ورشپ کا شکار ہو گئے ہیں۔ بعض نقادانِ ادب نے ’’حیات جاوید‘‘ کو ’’کتاب المناقب‘‘ اور ’’مدلل مداحی‘‘ بھی کہا ہے۔ لیکن ان خامیوں کے باوجود ’’حیات جاوید‘‘ کا مرتبہ کچھ کم نہیں ہوتا۔

دراصل سرسید کو ایک ہیرو کے طور پر پیش کرنا اس وقت کا تقاضا تھا۔ کیونکہ حالی جانتے تھے کہ سرسید ہی وہ شخص ہیں جو ہندوستان کے مسلمانوں کو جہالت سے نکال سکتے ہیں۔ جب کہ اکبر الٰہ آبادی کٹر قسم کے مسلمان تھے اور وہ انگریزی تعلیم کو مسلمانوں کے لیے گناہ کی حد تک غلط سمجھتے تھے۔ یہ دو طبقہ فکر تھے جو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا تھے۔ برصغیر میں دارالعلوم دیوبند اور علی گڑھ تحریک اس معاملے میں پیش پیش تھے۔ لیکن سرسید کی علی گڑھ تحریک میں اردو لٹریچر کے عناصر خمسہ ڈپٹی نذیر احمد، مولانا محمد حسین آزاد، شبلی نعمانی اور الطاف حسین حالی کی شمولیت نے مسلمانان ہند کے شعور کو بیدار کرنے میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔ لیکن رفقائے سرسید میں حالی اس لحاظ سے منفرد ہیں کہ باوجود ایک اصلاحی تحریک کے جانباز سپاہی ہونے کے انھوں نے اپنی شاعری پر مقصدیت کو حاوی نہیں ہونے دیا۔ جب کہ ڈپٹی نذیر احمد کی تحریروں کو مقصدیت نے بھاری نقصان پہنچایا۔ مولانا حالی کے بعض اشعار پر غالب کا گمان ہوتا ہے۔ خاص کر یہ اشعار جنھیں میں بہت عرصے تک غالب کے سمجھتی رہی:

ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
اب دیکھیے ٹھہرتی ہے جا کر نظر کہاں
اک عمر چاہیے کہ گوارا ہو نیش عشق
رکھتی ہے آج لذتِ زخم جگر کہاں

حالی کی شاعری سادگی و پرکاری کے ساتھ ساتھ لطیف انسانی جذبات کی عکاس بھی ہے۔ بظاہر سنجیدہ اور بردبار حالی کے سینے میں ایک عشق آشنا محبت سے لبریز دل تھا:

دھوم تھی اپنی پارسائی کی
کی بھی اور کس سے آشنائی کی
………
آگے بڑھے نہ قصہ عشق بتاں سے ہم
سب کچھ کہا مگر نہ کھلے رازداں سے ہم
اور ان کا یہ شعر تو ضرب المثل کی حیثیت رکھتا ہے۔ ساتھ ہی یہ موجودہ سوسائٹی کا اصل چہرہ بھی ہے۔
آ رہی ہے چاہِ یوسف سے صدا
دوست یاں تھوڑے ہیں اور بھائی بہت

نظموں میں ’’حب وطن‘‘۔ مناجات بیوہ اور برکھا رُت حالی کی مقبول ترین نظمیں ہیں اور ذرا یہ شعر بھی ملاحظہ ہو یقینا اک مسکراہٹ ضرور لبوں پہ آ گئی ہو گی:

اپنی جیبوں سے رہیں سارے نمازی ہشیار
اک بزرگ آتے ہیں مسجد میں خضر کی صورت

افسوس یہ کہ انٹرمیڈیٹ کی نصابی کتب میں اس شعر میں ’’جیبوں‘‘ کی جگہ ’’جوتوں‘‘ لکھا گیا ہے اور کسی ذمے دار نے اس غلطی کی کبھی نشان دہی نہیں کی۔
حالی شاعری کو نہایت اونچا درجہ دیتے تھے۔ لیکن مکھی پہ مکھی مارنے والے شاعروں کے سخت خلاف تھے جنھوں نے اردو شاعری کو محض ہوس پرستی اور سطحی عشقیہ وارداتوں تک محدود کر دیا تھا۔ فرماتے ہیں:

برا شعر کہنے کی گر کچھ سزا ہے
عبث جھوٹ لکھنا اگر ناروا ہے
گنہگار واں چھوٹ جائیں گے سارے
جہنم کو بھر دیں گے شاعر ہمارے

اسی طرح حالی بے عمل اور ’’پدرم سلطان بود‘‘ جیسے لوگوں کے لیے کیا کہتے ہیں یہ بھی دیکھیے:
جو سقے نہ ہوں جی سے جائیں گزر سب
ہو میلا جہاں‘ گم ہوں دھوبی اگر سب
ملی خاک میں جن سے عزت بڑوں کی
مٹی خاندانوں کی جن سے بزرگی
تو یہ جس قدر خانہ برباد ہوں گے
وہ سب ان شریفوں کی اولاد ہوں گے

حالی ایک ادیب، مورخ، انشا پرداز، شاعر اور سوانح نگار تھے۔ انھوں نے مقدمہ شعر و شاعری میں اس بات پر زور دیا ہے کہ شاعری قوموں کے عروج و زوال کی بھی ذمے دار ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ حالی اور اقبال دونوں نے اپنی شاعری سے قوموں کی اصلاح کا کام لیا ہے۔ فیضؔ بھی اس معاملے میں کسی سے پیچھے نہیں۔ لیکن سب سے پہلے الطاف حسین حالی نے محسوس کیا تھا کہ شاعری لوگوں کو جگا بھی سکتی ہے اور رلا بھی سکتی ہے۔ شاعر بلاشبہ مستقبل کو دیدہ بینا سے دیکھ لیتا ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔