دورنگی چھوڑ کر یک رنگ ہو جا

اوریا مقبول جان  اتوار 28 دسمبر 2014
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

یہ قوم بھی کس قدر بدقسمت ہے کہ یہاں قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے گزشتہ چند سالوں سے وہ لوگ مل کر بیٹھ رہے ہیں جن کے لیے زندہ رہنے کا جواز ہی قومی اختلاف رائے ہے۔ جن کی سیاست کی آبیاری ہی اختلاف سے ہوتی ہے۔

یوں لگتا ہے آل پارٹیز کانفرنس نہیں بلکہ کوئی بہت بڑا سیمینار، ورکشاپ یا کانفرنس ختم ہوئی ہے۔ جس طرح ایسے تمام سیمیناروں، ورکشاپوں یا کانفرنسوں کے آخر میں ایک ورکنگ گروپ بنا دیا جاتا ہے جو چند گھنٹے بیٹھ کر سفارشات مرتب کرتا ہے اور پھر ایسی ناقابل عمل اور دور ازکار قسم کی سفارشات کا اعلان کر دیا جاتا ہے۔ جیسے آبادی کے مسئلے پر کانفرنس ہو تو پہلی سفارش یہ ہوتی ہے کہ ،،پاکستان کی آبادی کم کرنے کے لیے عملی اقدام کیے جائیں،،۔

یہ عملی اقدام بھی کیا خوبصورت لفظ ہے جو ہمارے حکمرانوں، دانشوروں اور ارباب حل و عقد نے ایجاد کیا ہے۔ ایسے بہت سے الفاظ ہیں جو مسائل کے حل کے لیے منعقد آل پارٹیز کانفرنس یا پھر اس جیسے اجلاسوں، سیمیناروں وغیرہ نے ایجاد کر لیے ہیں، جیسے ،،ٹھوس سفارشات،، ،،فوری سدباب،، ،،تمام توانائیاں بروئے کار لا کر،، وغیرہ وغیرہ۔ کانفرنس سیمینار یا ورکشاپ کے لوگوں سے تو گلہ نہیں کہ ان کی دال روٹی اور دھندا ہی یہی ہے۔

کسی نے ڈونرز کے پیسے کو حلال کرنا ہوتا ہے تو کوئی اپنے ادارے کی ٹوپی میں کامیاب کانفرنس جیسا سرخاب کا پر لگانا چاہتا ہے۔ لیکن یہ تمام سیاسی پارٹیوں کے رہنما، جن میں ہر کوئی برسراقتدار آ کر اس قوم کے مسائل حل کرنے کے نعرے پر سیاست کر رہا ہوتا ہے، ووٹ مانگ رہا ہوتا ہے، اکٹھے ہو کر جو ،،ٹھوس سفارشات،، مرتب کرتے ہیں، جو ،،عملی اقدامات،، تجویز کرتے ہیں یا جس ،،حکمت عملی،، کا اعلان کرتے ہیں۔ ان رہنماؤں کی گزشتہ کارکردگی دیکھی جائے تو یوں لگتا ہے یہ سب سفارشات کسی خلائی مخلوق کے لیے ہیں جو اچانک کسی سیارے سے اترے گی، اس ملک کا انتظام سنبھالے گی اور ان سفارشات پر عمل درآمد شروع کر دے گی۔

پشاور کا سانحہ جسے ہر کوئی پاکستان کا ،،نائن الیون،، کہہ رہا ہے، اسی سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ ان تمام رہنماؤں کو مسئلے کا کتنا ادراک ہے۔ نائن الیون کے بعد امریکا نے اپنا ایک دشمن وضع کیا تھا جو اس سے ہزاروں میل دور ایک مفلوک الحال ملک تھا۔ وہ یہ جنگ اپنے شہروں، قصبوں یا پہاڑوں میں لڑنے نہیں جا رہا تھا۔ اس کے ساتھ 48 ملک آ ملے تھے تو اس نے فضائی بمباری سے اس ملک کو تہس نہس کر دیا تھا۔ اسے اس ملک یعنی افغانستان پر بم برسانے کے لیے اس کے پڑوسی یعنی ہماری سرزمین میسر آئی تھی جہاں سے ستاون ہزار دفعہ جہاز اڑے تھے اور انھوں نے وہاں بم برسائے تھے۔

نائن الیون کے بعد امریکی صدر جارج بش کو ایک لمحے کے لیے پالیسی کا اعلان کرنے یا عوام کو ساتھ ملانے کے لیے اپوزیشن یا فوج سے مشاورت کی ضرورت نہیں پڑی تھی۔ ان تیرہ سالوں میں ایک گھنٹے کے لیے بھی امریکی فوج امریکا میں کسی آپریشن کے لیے کسی شہر یا علاقے میں نہیں بھیجی گئی۔ وہاں کی سول انتظامیہ کو اپنی طاقت اور قوت کا اندازہ تھا اور اس حماقت پر بھروسہ بھی۔ پاکستان اپنی یہ جنگ کونسے ملک پر مسلط کرے گا جو اس سے ہزاروں میل دور بھی ہو اور کمزور بھی ہو اور دنیا اس ملک پر حملہ کرنے کے لیے بھی اس کا ساتھ دے لیکن ہم نے بھی لفظ ایجاد کرنے اور تشبیہات تراشنے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے۔

کیا سیاست دان اور کیا دانشور، جس کو کیمرہ اور مائیک میسر آتا ہے ایسی ہی اصلاحات ایجاد کرتا رہتا ہے۔ پاکستان کے اس ،،نائن الیون،، کے بعد جو قومی اتفاق رائے پیدا ہوا اس کی ہنڈیا بیچ چوراہے میں پھوٹنے لگی ہے۔ ہر سیاست دان نے اپنے اپنے چوراہے میں اس ہنڈیا کو پھوڑنا شروع کر دیا ہے۔ رحمان ملک نے کہا، اگر فوجی عدالتوں سے کسی بے گناہ کو سزا ہوئی تو پارلیمانی ایکشن کمیٹی ختم ہو جائے گی۔

گویا گناہ گار اور بے گناہ کا فیصلہ پارلیمانی ایکشن کمیٹی کرے گی نہ کہ فوجی عدالت۔ فاروق ستار نے کہا اگر کسی سیاسی مجرم کو فوجی عدالت نے سزا سنائی تو سپریم کورٹ جائیں گے۔ گویا قتل کرنے، اغوا برائے تاوان یا کسی بھی قسم کی دہشت گردی کے مقدمے کو فوجی عدالت سے بچانا ہے تو فوری طور پر کسی سیاسی جماعت کی ممبر شپ حاصل کر لینی چاہیے۔ یہی ،،اتفاق رائے،، آصف زرداری نے بے نظیر کی برسی والے دن تقریر کرتے دکھایا۔

سفارشات کا سب سے مضحکہ خیز حصہ وہ ہے جس پر حکومت نے عملدرآمد کرنا ہے۔ کام کرنے کی صلاحیت اور گزشتہ کارکردگی کو دیکھ کر آئندہ کے لیے سفارشات مرتب کی جاتی ہیں۔ لیکن حیرت میں ڈوب جائیے کہ یہاں ہم کیا کچھ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور ہمارے معیارات کتنے بلند ہیں۔ یہ حکومت مدارس کی رجسٹریشن کرنے اور ان کے نصاب تعلیم کو درست کرنے کا عزم رکھتی ہے۔ وہ حکومت جو گزشتہ چالیس سالوں سے پرائیویٹ اسکولوں کو رجسٹرڈ کر رہی ہے۔

ہر صوبے میں ہزاروں پرائیویٹ اسکول ہیں جو کم از کم تین حکومتی اداروں کے تحت رجسٹرڈ ہوتے ہیں۔ آج کسی بھی صوبے کے محکمہ تعلیم کے اعلیٰ ترین عہدیدار سے پوچھ لیں، ان اسکولوں میں کیسا نصاب تعلیم پڑھایا جا رہا ہے، بچوں سے کتنی فیسیں لی جا رہی ہیں، اساتذہ کی تنخواہوں کا کیا حال ہے، عمارتیں کیسی ہیں، ان کی لائبریریاں اور لیبارٹریز کس طرح کی ہیں۔ آپ کو کوئی تسلی بخش جواب نہیں ملے گا۔ آپ حیرت میں گم ہو جائیں گے کہ یہ تمام محکمے گزشتہ تیس سال سے مسلسل ان اسکولوں کو رجسٹرڈ کر رہے ہیں اور انھیں خبر تک نہیں کہ وہاں کیا ہو رہا ہے۔

ایسی حکومت جب مدرسوں کی رجسٹریشن کا دعویٰ کرتی ہے۔ اور ٹیلی ویژن اسکرینوں پر بیٹھے دانشور جب زور دے کر کہتے ہیں کہ یہ فوراً کرو تو ہنسی آ جاتی ہے۔ بے بسی کے عالم میں آخر کار تجویز یہ دی جاتی ہے کہ فوج کے ذریعے یہ کام کروا لیا جائے۔ کیا انھیں پرویز مشرف کے زمانے میں سیلز ٹیکس کی رجسٹریشن کا حشر یاد نہیں جو فوج کے ذریعے کروایا گیا تھا۔ وہ تو بیچارے کاروباری اور دکاندار قسم کے لوگ تھے جو جھگڑوں سے دور بھاگتے ہیں، وہ اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔

یہاں تو بریلوی، دیوبندی، شیعہ، اہل حدیث، سب اپنی ،،قوت ایمانی،، کا مظاہرہ کرنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ اس ملک میں چار ایسے ادارے ہیں جو این جی اوز کو رجسٹرڈ کرتے ہیں۔ ان کے پاس ہزاروں این جی اوز رجسٹرڈ ہیں۔ آپ ان اداروں کے سربراہوں سے سوال پوچھ کر دیکھ لیں کہ ان این جی اوز کے فنڈز کہاں سے آتے ہیں، کہاں خرچ ہوتے ہیں، ان کا دائرہ کار کیا ہے۔ آپ کو یقیناً مایوسی ہو گی۔ اس کے باوجود ہمارا حوصلہ دیکھیں ہم مدرسوں پر ہاتھ ڈالنے جا رہے ہیں۔

ایک اور ٹھوس سفارش یہ بھی ہے کہ دہشت گردوں کی مالی معاونت روکی جا ئے گی۔ حیرت ہے جس ملک میں 45 کے قریب سفارت خانوں میں امداد حاصل کرنے کے لیے  کھڑکیاں کھلی ہوں۔ جہاں ڈونرز فنڈز قائم ہوں، وہاں مالی معاونت روکی جا سکے گی۔ جہاں روز کروڑوں ڈالر ہنڈی کے ذریعے اس ملک میں آتے جاتے ہوں اور ہر بڑے صاحب اقتدار کے کاروباری وسائل بھی اسی ہنڈی کے ذریعے سے پورے ہوتے ہوں، وہاں مالی معاونت پر کنٹرول کی سفارش عجیب لگتی ہے۔

آپ ایک ایک ٹھوس سفارش اٹھائیں اور پھر دیکھیں اس کے ساتھ ہم آئندہ دنوں میں کیا سلوک کریں گے تو ہمیں مایوسی گھیر لیتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں ہمارے مسئلے کا کوئی حل نہیں۔ حل ہے، اگر ہم منافقت ترک کر دیں۔ اگر ہم جو سوچ رہیں اور ہمارے جو دلوں میں چھپا ہے اسے زبان پر لے آئیں۔ ہم فیصلہ کر لیں کہ ہمیں اس ملک کو کیسا بنانا ہے۔ ایک سیکولر قومی ریاست یا ایک خالص اسلامی فلاحی مملکت۔ ہماری خرابیوں کی جڑ یہ ہے کہ ہم اسلامی فلاحی مملکت میں سیکولرزم ڈھونڈتے ہیں اور سیکولر قومی ریاست میں اسلامی اقدار تلاش کرتے ہیں۔ ایسے نہیں چل سکتا۔ سیکولر قومی جمہوری ریاست بنانا ہے تو پھر اللہ کو خوش رکھنے کے خواب دیکھنا چھوڑ دو جیسے دنیا کی ایسی تمام ریاستیں کر رہی ہیں۔

ویسا ہی کرو، شہادت کی آرزو اور جنت کی تمنا چھوڑو اور قومی سوچ اپناؤ۔ اگر یہ نہیں تو پھر اسلام کی بنیاد پر آگے بڑھنا چاہتے ہو تو کم از کم جو کچھ اس آئین میں درج ہے وہ فوراً نافذ کر دو۔ نیک نیتی کے ساتھ اور شاید ایک دن سب کچھ گنوانے کے بعد آپ کو یہی حل ہی نظر آئے گا۔ اس لیے کہ سیکولر قومی ریاست کے علمبرداروں کو جو بندوق آج میسر ہے اس کا رخ وقت کی عالمی سیاست کے ساتھ بدلتا ہے۔ جب کہ پاکستان میں بسنے والے اٹھارہ کروڑ عوام کی خواہشوں اور امنگوں کا مرکز کچھ اور ہے۔ ان کے خواب اسلام سے وابستہ ہیں۔ چلو کچھ دن لڑائی لڑ کر دیکھ لو۔ ابھی تو آغاز ہے اور ،،قومی اتفاق رائے،، کی ہنڈیا بیچ چوراہے میں پھوٹنے لگی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔