تماشہ ختم، ردعمل شروع

انتظار حسین  اتوار 28 دسمبر 2014
rmvsyndlcate@gmail.com

[email protected]

جانے وہ کیا حالات تھے جب میرؔ نے یہ شعر کہا تھا کہ؎

مصائب اور تھے پر دل کا جانا
عجب اک سانحہ سا ہو گیا ہے

مگر ہمیں یہ شعر اس عجب سانحہ کے گزرنے پر یاد آیا جب دہشت گردوں نے بچوں کے ایک اسکول پر ہلہ بولا اور کتنے معصوم طلباء کو بھون ڈالا۔ دہشت گردی کی زد میں ہم کب سے چلے آ رہے ہیں   ؎

مجرئی دہر میں ان آنکھوں نے کیا کیا دیکھا

بھرے بازاروں، مسجدوں، درگاہوں، امام بارگاہوں میں بم پھٹتے دیکھا، خودکش حملوں کی قیامتیں دیکھیں، نمازیوں، عقیدتمندوں، بازار میں خریداری کرتی عورتوں، بچوں کو مرتے سسکتے دیکھا اور یہ سب کچھ اسلام کے نام پر۔ مگر اب جو سانحہ گزرا وہ اس ساری دہشت گردی کا نقطۂ عروج تھا۔ کم سنوں پر گولیاں چلانے والے کتنے سفاک تھے اور یہ منصوبہ بنانے والے کتنے شقی القلب اور کتنے بے بصیرت تھے۔ انھوں نے تو شاید یہ سوچ کر یہ منصوبہ بنایا تھا کہ سارے پاکستان کو ایک بڑا خوف آ لے گا، وہ خود یہ دیکھ کر کتنے حیرت زدہ اور دہشت زدہ ہوئے ہوں گے کہ اثر الٹا ہوا۔ اس سانحہ نے لوگوں کو اس طرح جھنجھوڑا کہ جس خوف میں وہ اب تک بسر کر رہے تھے وہ غائب ہوگیا اور ملعونوں کے خلاف غم و غصے کی ایک بڑی لہر ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک دوڑ گئی۔

اس پر تعجب تو ہونا چاہیے کہ تشدد کی جب ہوا چلتی ہے تو کیسے کیسے ظالمانہ واقعات گزرتے ہیں۔ لوگ کسمساتے ہیں، کڑھتے ہیں، مگر خوف سے بولنے اور اٹھ کھڑے ہونے کی ہمت نہیں کرتے۔ مگر اس عمل میں جب کوئی ایسا عجیب سا سانحہ گزرتا ہے کہ خوف زدہ مخلوق کے اندر سوئی ہوئی انسانیت ہربڑا کر جاگ اٹھتی ہے تو یہ کیسے ہوتا ہے، کب ہوتا ہے، بس ایسا واقعہ اچانک ہو جاتا ہے۔ پھر آپ سوچتے رہیے اور افسوس کرتے رہیے کہ ارے کتنی مرتبہ ایسے موقعے آئے تھے۔ اگر اس وقت لوگ جاگ جاتے تو آج یہ انسانیت سوز واقعہ نہ گزرتا۔ غازی صلاح الدین نے اپنے کالم میں ایسے کتنے ’اگر‘ گنا ڈالے ہیں۔

انسانی تاریخ میں ایسے اگر ان گنت آئے ہیں۔ انھیں گناتے جائیے اور کف افسوس ملتے جائیے۔ اگر میر صادق ٹیپو سلطان سے دغا نہ کرتا تو کیا ہوتا۔ اگر جنگ پلاسی میں عین اس ہنگام  جب سراج الدولہ کی فوج کا پلہ بھاری تھا بارش نہ ہوتی اور اس وقفہ میں اس فوج کا گولہ بارود بھیگ نہ جاتا تو اونٹ پھر کس کروٹ بیٹھتا اور ہندوستان کی تاریخ آج کیا ہوتی۔ اگر ہٹلر سوویت روس پر حملہ نہ کرتا تو دوسری عالمی جنگ کیا رنگ لاتی۔ اگر پاکستان اسمبلی کا ڈھاکہ میں متوقع اجلاس ملتوی نہ کیا جاتا اور بھٹو صاحب کی زبان سے بدشگنی کا وہ جملہ کہ ادھر تم ادھر ہم نہ ادا ہوتا تو پھر کیا صورت ہوتی۔ اگر، اگر، اور پھر اگر۔ انھیں گنتے جائیے اور اپنا ماتھا پیٹتے جائیے۔

ہمیں صرف اتنا پوچھنا ہے کہ غازی صلاح الدین نے جو اگر گنائے ہیں کیا وہ یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ اگر اس موقع پر دہشت گردوں کے خلاف کسی بڑے اقدام کا اعلان کیا جاتا تو کیا قوم اس وقت اپنے اندر کے اختلافات سے باز آ جاتی۔ ارے یہ تو کم سنی کا جادو ہے جس نے بھانت بھانت کی بولی بولنے والوں کی زبان بندی کر دی ہے۔ کم از کم وقتی طور پر کیسے بولیں، خلقت کا ضمیر جاگ اٹھا ہے۔ اب کوئی کہہ کر تو دیکھے کہ یہ ہماری جنگ نہیں ہے۔ ہم امریکا کی طرفداری کی سزا بھگت رہے ہیں۔ کمسن طلباء اس بیدردی سے دن دہاڑے مارے گئے ہیں کہ کوئی بیرونی ہاتھ کا چکر چلا کر تو دیکھے۔

تو جو کچھ ہوا ہے اپنے وقت پر ہوا ہے۔ دہشت گرد جس طرح اندھا دھند اپنی شقی القلبی کے نشہ میں بڑھتے چلے جا رہے تھے انھیں کسی نہ کسی وقت اپنے پائوں میں کلہاڑی مارنی ہی تھی۔ اب کوئی بھلا آدمی یہ کہہ کر کہ؎

دیدیم کہ باقیست شب فتنہ غنودیم
چادر تان کر بے خبری کی نیند نہیں سو سکتا

دیکھئے فضا کس طرح اچانک بدلی ہے۔ ابھی کل تک اقتدار کے لیے جو لڑائی جھگڑا ہو رہا تھا لوگ سمجھ رہے تھے کہ بس یہی اصلی جنگ ہے۔ انھیں لڑائی جھگڑوں سے اخبار اپنی لیڈ کی خبر کشید کرتے تھے۔ اسے ہی ٹی وی چینل اچھالتے تھے اور جو میدان جنگ سے خبریں آ رہی تھیں وہ ٹی وی چینلوں اور اخباروں میں ذیلی حیثیت کے ساتھ نمودار ہوتی تھیں۔ وہی قصے قضئے اداریوں اور کالموں کا موضوع تھے۔ لیجیے دم کے دم میں وہ دفتر بے معنی غرق شد۔ اب سچ مچ کے قومی مسائل زیر بحث ہیں اور جو مذاکرات کے سوا کوئی بات سننے کے لیے تیار نہیں تھے وہ بھی۔۔۔ آگے ہم کیا کہیں بس اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ؎

کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے

ایک دوست ہم سے کہنے لگا کہ کل تک تو کچھ پتہ ہی نہیں چل رہا تھا کہ پاکستان کس ’’بھمبل بھوسے‘‘ میں آ کر پھنس گیا۔ یار و اغیار کی جوتیوں میں دال بٹ رہی تھی اور اپنا یہ حال کہ؎

ہر اک سے پوچھتا ہوں کہ جائوں کدھر کو میں

اب کچھ سمت تو نظر آئی۔ کچھ پتہ تو چلا کہ پاکستان کا اس وقت اصل مسئلہ کیا ہے اور اگر کوئی مسئلہ ہے بھی اصلی یا ضمنی تو کیسے حل ہو گا۔ سو سوالوں کا ایک جواب۔ مذاکرات، مذاکرات، مذاکرات اور مذاکرات کس رنگ سے، مذاکرات بھی، خودکش حملے بھی۔ کیا مضائقہ ہے دونوں پہلو بہ پہلو چلتے رہیں، مذاکرات اپنی جگہ خودکش حملے اپنی جگہ  ؎

جناب شیخ کا نقش قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی مگر یہ دو رنگا کھیل کتنی دیر تک چل سکتا تھا  ؎

مرے معبود، آخر کب تماشا ختم ہوگا

آخر کے تئیں ختم ہوگیا۔ اب صورت حال واضح ہے۔ معاملہ دو ٹوک ہے  ؎

یہ سب کٹھ پتلیاں رقصاں رہیں گی رات کی رات
سحر سے پہلے پہلے سب تماشا ختم ہوگا
ان آنکھوں کا یہی بسیکھ ۔ وہ بھی دیکھا یہ بھی دیکھ

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔