کپتان کی نئی اسٹریٹجی کیا ہوگی؟

تنویر قیصر شاہد  اتوار 28 دسمبر 2014
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

7مئی 2013ء کو، جب کہ عام انتخابات محض ایک ہفتے کی دُوری پر کھڑے تھے، عمران خان پندرہ فٹ کی بلندی سے زمین پر بُری طرح گرے تو ان کے سیاسی مخالفین نے بدگمانی میں سوچا: کپتان کی گیم ختم ہو گئی!!  دو ہفتے کے بعد ہی مگر وہ بستر سے اٹھ بیٹھے۔ ان کے سیاسی حریف پریشان اور ان کے خیر خواہ خوشی سے اچھل رہے تھے۔ وہ اپنی بے پناہ وِل پاور سے اپنے پائوں پر کھڑے ہو گئے اور سیدھی کمر کے ساتھ بخوبی چلنے لگے۔ انھیں قومی اسمبلی میں جتنی سیٹیں ملی تھیں، اس منظر سے وہ خوش اور مطمئن نہیں تھے۔ کوئی پُراسرار طاقت انھیں متوقع بڑی کامیابی سے محروم کرگئی تھی۔

اس کا انھیں ادراک بھی تھا اور گہرا احساس بھی؛ چنانچہ انھوں نے غیر مبہم الفاظ میں اس کا اظہار قومی اسمبلی کے اجلاس میں بھی کیا۔ سوچا گیا تھا کہ ان کا یہ اظہارِ ناراضی اور احتجاج پارلیمنٹ کی دیواروں تک ہی محدود رہے گا اور رفتہ رفتہ معدوم ہو جائے گا۔ ایسا مگر ہو نہ سکا۔ یہ بھی خیال کیا گیا کہ کپتان کی پارٹی کو ایک صوبے کا اقتدار مل گیا ہے اور وہ اسی پر اکتفا کر لیں گے لیکن یہ خیال خام خیالی ہی ثابت ہوا۔ پارلیمنٹ اور عدالتوں میں ان کی شنوائی نہ ہوئی تو انھوں نے اگست 2014ء میں وہ راستہ اختیار کیا جس کا نظارہ پاکستان سمیت ساری دنیا نے دیکھا ہے۔

کپتان نے حصولِ انصاف کیلیے جو راستہ اختیار کیا، وہ آسان نہ تھا۔ انھوں نے 126دنوں کا جو تاریخ ساز دھرنا دیا، اس سے انھیں کیا سیاسی فوائد ملے، یہ تو سیاسی مؤرخ ہی بتائے گا لیکن انھوں نے جس اولوالعزمی کا مظاہرہ کیا، اسے تسلیم کرتے ہی بنتی ہے۔ ان کے سیاسی مخالفین نے انھیں ناکام و نامراد بنانے کیلیے متحدہ جتھے بھی بنائے اور ان پر سنگین الزامات بھی دھرے لیکن مخالفتوں اور مداہنتوں کے طوفان میں کپتان نے اپنا راستہ بنایا اور آگے بڑھے۔ پاکستان کے نوجوان اور تعلیم یافتہ طبقات نے کپتان کو جس محبت سے نوازا، خواتین نے اپنے بچوں سمیت جس مستقل مزاجی سے ان کا ساتھ دیا، یہ مناظر اس سے قبل کبھی نہ دیکھے گئے تھے۔

برطانوی جریدے ’’گارڈین‘‘ نے لکھا کہ یہ عمران خان ہے جس نے نواز شریف کو پارلیمنٹ میں حاضر ہونے پر مجبور کیا۔ قومی اسمبلی میں اگرچہ ایک منتخب شدہ اپوزیشن لیڈر بیٹھے تھے لیکن واقعہ یہ ہے کہ ملک بھر میں اپوزیشن لیڈر کا کردار عمران خان ادا کر رہے تھے۔ ان کا دبائو اس قدر شدید اور کارگر تھا کہ وزیر اعظم کو دوبار تیل کی قیمتوں میں کمی کرنا پڑی۔ اس کا کریڈٹ براہِ راست تحریک انصاف کے لیڈر جناب عمران خان اور ان کے ساتھ نیزے کی طرح کھڑے ان کے باوفا ساتھیوں کو جاتا ہے، وگرنہ حالات تو یہ تھے کہ حکمران طبقہ پارلیمنٹ میں اپنی اکثریت کے زعم میں عوامی مصائب پر کان دھرنے کو سرے سے تیار ہی نہ تھا۔

اور اس سے پہلے کہ عمران خان دھرنوں کے توسط اور دبائو کے طفیل اپنے جائز مقاصد میں کامیابی کا جام تھام لیتے، پشاور میں 16 دسمبر کو ’’آرمی پبلک ‘‘ کے بچوں پر طالبان کے خونی حملے کا سانحہ وقوع پذیر ہوگیا۔ طالبان نے تقریباً ڈیڑھ سو افراد، جن میں 135 بچے شامل تھے، کو شہید کر ڈالا۔ اس سانحہ کی بازگشت ساری دنیا میں سنائی دی گئی۔ سارا پاکستان سناٹے میں آ کر سہم گیا۔ غم و اندوہ کی اس فضا میں عمران خان نے قومی یک جہتی کا ثبوت دیتے ہوئے اپنا دھرنا ختم کر دیا۔

ملک بھر میں ان کے اس اقدام کی تعریف و تحسین کی گئی، اگرچہ اس اقدام سے حکومت اور حکمرانوں کے سر سے ایک ’’بلا‘‘ ٹل گئی تھی اور اگرچہ اس فیصلے سے دھرنے میں شریک عمران کے ساتھیوں کے دل بھی ضرور ٹوٹے لیکن بہتر قومی اور عوامی مفاد میں کپتان نے بروقت اور درست فیصلہ کیا۔ بس ایک افسوس ہے کہ 16 دسمبر کو انھیں پشاور کے گورنر ہائوس میں نواز شریف کے ساتھ بیٹھ کر بلند قہقہہ لگانے سے گریز کرنا چاہیے تھا۔ نواز شریف صاحب بھی بلند آواز سے کھلکھلا کر ہنسے تھے۔ یہ ہنسنے کا وقت نہیں تھا کہ ابھی تو طالبان ظالمان کے ہاتھوں 135 بچوں کو ذبح ہوئے پانچ گھنٹے بھی نہیں گزرے تھے۔

نواز شریف صاحب کی طرح عمران خان نے بھی کبھی طالبان کی نام لے کر مذمت کی نہ ان قومی دشمنوں کے خلاف کبھی فوجی آپریشن کی حمایت کی۔ وہ سولہ دسمبر 2014ء سے چند دن پہلے بھی اسلام آباد میں دھرنے سے خطاب میں یہ کہتے سنائی دئیے کہ اگر میں حکمران ہوتا تو شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کبھی نہ ہونے دیتا۔ وہ ظالمان کے خلاف آپریشن پر خونخواروں سے مکالمہ کرنے کو ترجیح دیتے رہے ہیں۔

یہ ہمارے کپتان ہی تھے جنہوں نے چند ماہ پہلے طالبان کو پشاور میں دفتر کھولنے کا بیان دیا تھا۔ ان کے کئی ساتھی بھی ان کے ہمنوا ہیں۔ مثلاً: ان کے ایک معتمد ساتھی جناب اسد عمر نے 21 دسمبر 2014ء کو بیان دیا کہ ہم دہشت گردوں کو پھانسی دینے کے حق میں نہیں۔ 22 دسمبر 2014ء کو عمران خان نے پشاور میں آرمی پبلک اسکول کا دورہ کیا تو شہید بچوں کی مائوں نے ان سے شکوہ کیا کہ ان کے بچے شہید ہو گئے لیکن وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے دہشت گردوں کے خلاف کچھ نہیں کیا۔ میرے سامنے امریکا سے شائع ہونے والے معروف  ہفت روزہ جریدے ’’نیو یارکر‘‘ کا ایک شمارہ پڑا ہے۔

اس کے رپورٹر STEVE  COOL، جو کئی روز عمران خان کے ساتھ رہا، کا کہنا ہے کہ لبرل نظریات کا حامل عمران خان حیرت انگیر حد تک تشدد پسند طالبان کے خلاف ایک لفظ کہنے کو تیار نہیں۔ 16 دسمبر 2014ء کو پشاور میں ’’آرمی پبلک اسکول‘‘ پر طالبان ظالمان کا حملہ تو اونٹ کی کمر پر آخری تنکا ثابت ہوا ہے۔ یہ ہمارا ’’نائن الیون‘‘ ہے جس نے طالبان کے خلاف پوری پاکستانی قوم کو متحد کر دیا ہے۔ ایسے ماحول اور ایسی فضا میں اگر عمران خان اور ان کے کسی قریبی ساتھی کی زبان سے طالبان کی حمایت میں کوئی ایک لفظ بھی ادا ہوتا ہے تو پاکستانیوں، خصوصاً عمران خان کے چاہنے والوں کے دل دُکھتے ہیں۔

ان کے ایسے بیانات سے ان کے سیاسی حریف بجا طور پر فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ طالبان کے خلاف بننے والے اس Charged ماحول میں وہ کوئی دل آزار بیان سے اجتناب ہی برتیں تو بہتر ہو گا۔ عمران خان نے فوجی عدالتوں کی حمایت کر کے ایک مستحسن قدم اٹھایا ہے۔ کپتان کا یہ بیان بہر حال سارے وطنِ عزیز میں ستائش کی نظروں سے دیکھا گیا ہے کہ پاکستان میں مقیم پانچ لاکھ غیر قانونی افغانیوں کو واپس افغانستان بھیجا جائے۔

وفاقی حکومت نے ابھی تک ان کے اس بیان کی تائید اور حمایت نہیں کی ہے جس پر حیرت کا اظہار کرنا بجا ہے۔ (واضح رہنا چاہیے کہ پاکستان میں غیر قانونی رہنے والے افغانی مہاجرین کی تعداد 5 لاکھ نہیں بلکہ 20 لاکھ کے قریب ہے) ہم پی ٹی آئی کے چیئرمین جناب عمران خان سے یہ بھی کہنا چاہتے ہیں کہ انھوں نے 126 دنوں کے دھرنے میں جو سیاسی نیک نامی حاصل کی ہے اور جس انداز میں عوام کے دلوں میں جگہ بنائی ہے، اس اثاثے کو ضایع نہ ہونے دیں۔

خونی طالبان کے خلاف ملک بھر میں جو نفرت اور بیزاری پائی جاتی ہے، کپتان کو کبھی بھی اس زندہ حقیقت سے صَرفِ نظر نہیں کرنا چاہیے۔ ان کے ووٹر اور سپورٹر ان سے بہتر حکمتِ عملی کی توقع رکھتے ہیں۔ اب جنوری کے دوسرے ہفتے، اسلام آباد میں پی ٹی آئی جو جلسہ کرنے جا رہی ہے، اس بارے میں بھی کپتان کو بہتر پرفارمنس کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔