افسانوی خاندان

عمر قاضی  اتوار 28 دسمبر 2014
umerkazi555@yahoo.com

[email protected]

اگلے روز درد کے قافلے لاڑکانہ پہنچے۔ انھوں نے بینظیر بھٹو کی ساتویں برسی پر ماتم کیا۔ اس موقعے پر کتنے لوگ تھے؟ پیپلز پارٹی کے موجودہ لیڈروں نے اپنی تقاریر میں کیا کہا؟ یہ سوالات اہم ہوتے ہوئے بھی میرے لیے اہم نہیں تھے۔ مجھے افسوس صرف اس بات کا ہو رہا تھا کہ اس خاندان کا کوئی فرد موجود نہیں تھا جس خاندان کے نام پر آج بھی پاکستان کے لوگ بغیر سوچے ووٹ دیتے ہیں۔ کچھ تو ہوگا اس خاندان میں جس خاندان کے ایک ایک فرد نے مغربی ناولوں کے مرکزی کرداروں جیسی زندگی گذاری ہے۔

بھٹو قبیلہ سندھ کے قدیم قبائل میں سے ایک ہے۔ آج بھی بہت سارے بھٹو سردار موجود ہیں اور ان کی پرانی حویلیوں میں ان کے شجرے آویزاں ہیں۔ شکار کرنے کے بعد ان کی کھنچی ہوئی تصاویر بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔ وہ بڑے جاگیردار بھی ہیں۔ حد نظر تک پھیلی ہوئی ان کی زمینیں ان کی طاقت کا پتہ دیتی ہیں۔ مگر وہ سارے بھٹو ابھی تک گمنام ہیں۔ پاکستان میں بھٹو خاندان کا نام صرف اور صرف اس شخص کے حوالے سے مشہور ہوا جس کے نام سے ستر اور اسی کی دہائی میں یہ ملک جانا جاتا تھا۔

وہ شخص جس نے عالمی سیاست میں اہم کردار ادا کیا اور وہ صرف عالمی سیاست کا بہت بڑا ماہر نہیں تھا۔ اس کی طاقت اس عوامی محبت پر بنیاد رکھتی تھی جو چترال کی وادیوں سے لے کر عرب سمندر کے جزائر تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس محبت کو ختم کرنے کی کوشش میں کوڑے برسائے گئے۔ گولیاں چلائی گئیں۔ مگر وہ محبت کم ہونے کے بجائے مسلسل بڑھتی رہی۔اس محبت کا بیج بونے والا شخص تھا ذوالفقار علی بھٹو۔ اس جیسا شخص اس کے بعد نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں پیدا نہیں ہوا۔

وہ شخص جو عوامی لہجے میں بات کرسکتا تھا۔ وہ شخص جس کو عوام سے محبت تھی۔ وہ شخص جس کو تاریخ کا شعور تھا۔ وہ شخص جس کی مغربی سیاست اور ادب پر نہ صرف گہری نگاہ تھی بلکہ وہ مغرب میں آنے والی نظریاتی تبدیلیوں کے محرکات سے بھی باخبر تھا۔ وہ شخص جس کو سن کر مغربی صحافی حیران ہو جاتے۔ وہ شخص جب بولتا تھا تب تاریخ کی روانی نظر آتی تھی۔ اس شخص کے دل میں ایک جذبہ تھا جو عوام کو صاف نظر آتا تھا۔ اگر اس شخص کو پھانسی نہ دی جاتی تو آج نہ صرف پاکستان کی تاریخ مختلف ہوتی بلکہ اس ملک کا جغرافیہ بھی اور ہوتا۔ مگر اس شخص کو عالمی سازشوں اور مقامی مفادات کی بلی پر چڑھایا گیا۔

اسے کہا گیا کہ اگر وہ جنرل ضیاء سے معافی مانگے اور پاکستان سے چلا جائے تو وہ بچ سکتا ہے۔ اس نے جواب دیا تھا کہ ’’میں ایک شخص کے ہاتھوں قتل ہونے کے لیے تیار ہوں مگر میں تاریخ کے ہاتھوں قتل ہونا نہیں چاہتا‘‘ وہ اپنے قول کا پکا تھا۔ اس نے جان تو دی مگر اپنے الفاظ کی لاج رکھی۔ وہ آج بھی نہ صرف ہماری عمرکے لوگوں بلکہ ہمارے بچوں کے لیے بھی ملک کا عظیم ہیرو ہے۔ کاش! اس کی زندگی پر کوئی خوبصورت کتاب یا کوئی محنت اور ذہانت سے بنائی جانے والی فلم منظرعام پر آئے۔

اس شخص نے اپنے عدالتی بیان ’’اگر مجھے قتل کیا گیا‘‘ میں جن خدشات کا اظہار کیا تھا آج ہم انھی باتوں کو بھگت رہے ہیں۔ آج ہمارے کندھوں پر ہمارے بچوں کی لاشیں ہیں۔ آج پاکستان کا شمار دنیا کے غیر محفوظ ممالک میں کیا جاتا ہے۔ اگر بھٹو زندہ ہوتا اور آج ہم ایک ایسے پاکستان میں سانس لیتے جس کا ہم شاید ٹھیک سے تصور بھی نہیں کرسکتے۔ وہ شخص جس کو ذہنی اذتیوں کا شکار بنا کر پھانسی پر چڑھایا گیا مگر اس نے اپنی جدوجہد ترک نہیں کی۔

اس شخص نے جمہوریت اور انسانی آزادی کی جدوجہد اپنی شریک حیات بیگم نصرت بھٹو کے ہاتھوں میں دی اور اسے کہا کہ میری بیٹی کے ساتھ عوام کی قیادت کرو۔ اس کے بعد ہم جانتے ہیں کہ ایم آر ڈی کی جدوجہد سے لے کر دہشت گردی کے خلاف کردار ادا کرنے تک ان ماں بیٹی نے کیا کچھ نہیں کیا۔ وہ ماں جس کی آنکھوں نے اپنے دو خوبصورت اور جوان بیٹوں کی لاشیں دیکھیں۔ اس ماں نے جس طرح سارے دکھوں کو برداشت کیا وہ سب ناقابل بیان ہے۔

اس لیے صرف ذوالفقار علی بھٹو سیاسی ادب کا پرکشش کردار نہیں تھا بلکہ اس کی پرورش اور اس کے خون کے باعث اس کا سارا خاندان غیرمعمولی بن گیا۔ کیا ایرانی نژاد بیگم نصرت بھٹو ایسا کردار نہیں جس پر سوچا جائے تو انسان حیران ہوجائے اور وہ چھوٹا شہزادہ جسے فرانس میں زہر دیکر قتل کیا گیا۔ جس کی پراسرار موت پر شیخ ایاز نے کتنی پیاری نظم لکھی تھی۔ اس نظم میں انھوں نے شاہنواز کی موت والی خبر کو زخمی فاختہ قرار دیا تھا۔

شاہنواز کو تو اس ملک کے لوگوں نے نہیں دیکھا۔ مگر میر مرتضی بھٹو کو تو ہم سب نے دیکھا۔ وہ شیردل شخص خوبصورت شجاعت کا مجسمہ تھا۔وہ جتنا عرصہ بھی پاکستان میں رہا سب کی نظروں کا مرکز تھا۔ حالانکہ اس کی بیرون ملک جدوجہد کی داستان ہماری تاریخ کا ایک ایسا باب ہے جسے بیان نہیں کیا گیا۔

میر مرتضی بھٹو نے یہاں آکر اپنے والد کی سیاست کو آگے بڑھایا اور اس نے اصولوں کی بنیاد پر اپنی بہن سے اختلافات بھی رکھے۔ حالانکہ اس کے لیے سندھ کا چیف منسٹر بننا مشکل نہیں تھا۔ مگر بھٹوز اقتدار کے بھوکے نہیں، وہ جدوجہد کے لیے جنم لیتے ہیں۔ اس لیے انھوں نے اپنی بہن کی حکومت میں جدوجہد کی اور اس شہر کی تاریک راہوں میں اپنے گھر کے سامنے گولیوں سے چھلنی کیا گیا۔ کیا میر مرتضی بھٹو کا کردار افسانوی نہیں؟

بینظیر بھٹو کی تو بات ہی کیا! انھوں نے اپنے پسینے اور آخر میں خون سے جو تاریخ لکھی ہے وہ ہمارے سامنے ہیں۔ وہ لڑکی جس نے ٹین ایج میں ملکی مارشل لاء کے خلاف عوامی آزادی کا پرچم بلند کیا۔ جس نے جیل اور جلاوطنی کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ جس نے صرف مسلمان دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم ہونے کا اعزاز حاصل نہیں کیا بلکہ اس نے ملک میں موجود خودکش حملوں والی دہشت گردی کی آگ میں کود کر ثابت کیا کہ بھٹو کبھی نہیں ڈرتے۔ ان کے نام پر اقتدار میں آنے والی حکومت نے ان کے قاتلوں کو بے نقاب تو نہیں کیا بلکہ ان کی عظیم جدوجہد کو خوبصورت انداز سے قلمبند کروانے میں بھی کوئی دلچسپی نہیں لی۔

ذوالفقار علی بھٹو ، شاہنواز بھٹو، میر مرتضی بھٹو ، بیگم نصرت بھٹو اور بینظیر بھٹو تو سیاست کی اسٹیج کے ہیروز ہیں مگر یہ بھٹو خاندان ہے جس کی آخری شمع وہ شخصیت ہے جو روز اول سے سیاست سے نالاں ہے اور آج بھی لندن میں کتابوں کے ساتھ زندگی گذار رہی ہے۔ وہ خاتون جس کا نام صنم بھٹو ہے۔میرا دل کرتا ہے کہ میں اس خاتون پر ایک کالم نہیں بلکہ ایک کتاب لکھوں جس کے لیے حکمران بننا کوئی بڑی بات نہیں۔ لیکن وہ یہاں مہمان بن کر آتی ہے اور میڈیا کو انٹرویو بھی نہیں دیتی۔ وہ اپنے گاؤں اور اپنے آبائی گھر کا چکر لگاتی ہے۔ اپنی بہن کے بچوں سے ملتی ہے۔

انھیں گلے لگا کر اس خوشبو کو محسوس کرتی ہے جو اس کی بڑی بہن کی پہچان تھی۔ اس کے بعد اپنے والدین بھائیوں اور بہن کی قبروں پر اپنے آنسو نچھاور کرتی ہے اور پھر واپس چلی جاتی ہے۔ لوگ اسے کہتے ہیں کہ بینظیر کے بعد آپ ملکی سیاست میں کردار ادا کیوں نہیں کرتیں؟ ان کے لیے وزیر اعظم بننا صرف خواہش کی اظہار کی بات تھی مگر انھوں نے ہمیشہ یہی جواب دیا کہ جو سیاست ہمارے خاندان کو کھا گئی میں اس سیاست سے نفرت کرتی ہوں اور وہ اپنے موقف پر قائم ہے۔ آج لوگ میڈیا میں اپنی تصویر شایع کروانے کے لیے بے چین اور بیقرار ہیں مگر وہ میڈیا سے بات نہیں کرتیں۔

وہ جو لندن میں کسی محل میں نہیں بلکہ ایک چھوٹے سے فلیٹ میں رہتی ہے۔ جو اپنے گھر کے لیے خود شاپنگ کرتی ہے۔ جو اپنے بچوں کا خود خیال رکھتی ہے اور فارغ وقت میں کتابوں کا مطالعہ کرتی ہے۔ وہ دانشور خاتون ایک بہترین ناول کا مرکزی کردار بن سکتی ہے مگر اس کو اپنی شخصی آزادی عزیز ہے۔ وہ لالچ اور خوف سے بالاتر زندگی جیتی ہے۔ اگلے روز اپنی بہن کی ساتویں برسی پر اگر وہ اپنے بھانجے کے ساتھ لاڑکانہ میں نہیں تھی اس کا کچھ سبب تو ہوگا۔

مگر اس کے نہ ہونے سے لاڑکانہ کس قدر اداس تھا؟ افسانوی خاندان کے مزاروں کے سامنے ہونے والے جلسے میں ’’جیے بھٹو‘‘ کے نعرے لگ رہے تھے۔ مگر پانچ بھٹوز دھرتی میں دفن تھے جب کہ ذوالفقار علی بھٹو کے خاندان کی آخری شمع بھی وہاں موجود نہیں تھی۔ کیا یہ تاریخ کا المیہ نہیں؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔