اے جذبۂ دل گر میں چاہوں

اقبال خورشید  اتوار 28 دسمبر 2014

’’ظلم انسانی جبلت ہے، فقط ادب ہی اِس جبلت پر قابو پاسکتا ہے۔‘‘

یہ شبد جاڑے کی اُس رات، جب سانحۂ پشاور کا غبار دلوں پر چھایا تھا، روشنی بن کر چمکے۔

میں سرخ اینٹوں والے شہر میں تھا۔ حیدرآباد میں۔ پر یہ وہ شہر نہیں تھا، جہاں میرے بچپن کی حسین یادیں سانس لیتی تھیں، جس کی تنگ گلیوں سے گرمیاں دھیرے دھیرے گزرتیں، جہاں سرد راتیں مونگ پھلی کی خوشبو سے بھری ہوتیں۔ اور تاروں سے سجے صحن میں دادی اماں کی پُراسرار کہانیاں ہمیں جگائے رکھتیں۔

وہ زمانہ لد گیا۔ گذشتہ دو عشروں میں بہت کچھ بدل چکا ہے۔ اب میں حیدرآباد پریس کلب میں تھا۔ جہاں ایک سیمینار منعقد تھا، ’’شان ادب‘‘ نامی تنظیم کے زیر اہتمام، ’’ادب برائے تبدیلی‘‘ کے موضوع پر، جس کی داغ بیل سہ ماہی ’’اجرا‘‘ نے ڈالی۔ ’’اجرا‘‘ جو شاہین نیازی کی ادب دوستی اور احسن سلیم کی تخلیقی اپج کا امتزاج۔ تاریکی میں چمکنے والے وہ الفاط احسن سلیم ہی کے تھے، جو اپنے اداریوں میں تواتر سے اس تحریک کے خدوخال پر روشنی ڈالتے آئے ہیں۔ اِس کوشش نے دوست بھی بخشے، اور ناقد بھی، پر استقلال میں لغزش نہ آئی۔

اُس سہ پہر ہم میلوں کا سفر برق رفتاری سے طے کر کے حیدرآباد پہنچے، جہاں ’’شان ادب‘‘ کے بانی، انیس خان اور معروف محقق اور نقاد، پروفیسر مرزا سلیم بیگ نے ہمارا استقبال کیا۔ وقت سب سے بڑی دولت، اِسی نکتے کے پیش نظر جونہی سندھی کے ممتاز افسانہ نگار اور مدرس، جناب ڈاکٹر قاضی خادم ہال میں داخل ہوئے، تقریب کا آغاز کردیا گیا۔

ادبی یا پھر اردو کانفرنس کے بجائے قومی کانفرنس کروانے کے پیچھے احسن سلیم اور ان کے احباب کی یہ سوچ تھی کہ زبانیں انسان کو انسان سے جوڑتی ہیں، معاشرے میں رواداری پیدا کرتی ہیں، یہ تو سیاست داں ہیں، جنھوں نے اپنے مفادات کے لیے زبانوں کو تقسیم کا آلہ بنالیا۔

اُس رات مندوبین مختلف زبانوں کی ترجمانی کر رہے تھے۔ ڈاکٹر عتیق احمد جیلانی، توقیر چغتائی، ریاض تسنیم نے بڑے پُراثر مقالات پڑھے۔ زبانوں کا سمبندھ بھی زیر بحث آیا، تبدیلی کا امکان بھی۔

بیوروکریسی شاہین نیازی کا ادب سے ناتا نہیں توڑ سکی۔ ذاتی کتب خانے میں ہزاروں کتابیں۔ کئی نایاب نسخے۔ یادداشت بلا کی۔ ول ڈوراں کی معرکہ آرا کتاب،  The Story of Civilization کے ترجمے میں جٹے ہیں۔ گفت گو کرتے تو سادہ پیرائے میں، مگر اس میں Substance ہوتا ہے۔ دبیز ہوتی اُسی رات اُنھوں نے جدید ادب کے آغاز پر کچھ روشنی ڈالی۔ کہا؛ پہلے پہل اوراق میں محفوظ ہونے والے الفاظ دراصل منتر تھے کہ کاہن یقین رکھتے؛ یہ الفاظ انسان پر عجیب و غریب اثرات مرتب کرتے ہیں۔ آج بھی معاملہ یہی کہ کتابیں انسان میں مثبت و منفی؛ دونوں ہی احساسات پھونک رہی ہیں۔ ادیب کی اہمیت بیان کرتے سمے یونان کا تذکرہ ہوا، جہاں شاعر کو مذہبی پیشوائوں سے بلند درجہ حاصل تھا۔

صدارت کے منصب پر فائز ڈاکٹر قاضی خادم کو سننا خوش گوار تجربہ رہا، جن کے الفاظ نے اُس زمانے کو منظر کیا، جب مہاجرین یہاں آکر آباد ہوئے۔ قصّے، جن میں محبت مہکتی تھی۔ حالات میں بہتری کی امید بھی ظاہر کی۔ اِس تحریک کے تناظر میں کہا؛ انسان ارادہ باندھ لے، تو راستہ نکل ہی آتا ہے۔ خود اپنی مثال دی کہ کبھی لاکھ روپے ایک ساتھ نہیں دیکھے، مگر جب کتابیں لکھنے بیٹھے، تو اشاعت کے امکانات خود ہی پیدا ہوتے گئے۔ اپنی یادداشتوں کی پانچوں جلد بھی احسن سلیم اور شاہین نیازی کو پیش کی۔

سیمینار کے بعد مشاعرہ ہوا۔ صدارت معروف شاعر، خاور احمد نے کی۔ مہذب آدمی۔ پختہ شاعر۔ ایک معنوں میں وہی ہمارے میزبان۔ پہلے حیدرآباد کے شعرا ڈائس پر آئے، پھر مہمانوں نے شعر سنائے۔ ’’ہوٹنگ‘‘ اچھی رہی۔

حیدرآباد سے واپسی کے سفر میں، ہائی وے پر دوڑتی گاڑی کے باہر تاریکی اور ٹھنڈ تیر رہی تھی۔ تارے بجھے ہوئے۔ شاید یہ اندرون پر چھایا کرب تھا، جس نے آنکھوں کے روبرو یاس کی چادر تان دی:

دل تو میرا اداس ہے ناصر
شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے

میں لمحہ بہ لمحہ سرخ اینٹوں والے شہر سے دور ہوتا جارہا تھا، جہاں میری کم سنی کی یادیں چلتی پھرتیں۔ ہم شہر قائد لوٹ رہے تھے، جہاں اب کچھ بھی پہلے جیسا نہیں رہا۔ جس کی روشنی دُکھ کے کہرے میں چھپ سی جاتی ہے۔ پر شاید یہ کہرا شہر قائد تک محدود نہیں۔ میرے دیس کے ہر شہر، ہر قصبے کا یہی حال ہے:

کہاں تک تاب لائے ناتواں دل
کہ صدمے اب مسلسل ہوگئے ہیں

ان صدموں سے نجات شاید ادب ہی میں مضمر ۔ ادب، جو زندگی کی امنگ پیدا کرے، اعلیٰ اقدار کو فروغ دے، انسان کو انسان کے قریب لائے۔ تو تبدیلی کی خواہش نیک ہے۔ گو یہ راہ دشوار، تاہم عمل کا دارومدار نیت پر۔ ارادہ باندھ لیا، تو آدھی منزل طے ہوگئی: ’’اے جذبۂ دل گر میں چاہوں ہر چیز مقابل آجائے!‘‘

اِس تحریک کی خواہش سماج کے اسٹرکچر میں موجود لسانی تنازعات کا رخ تبدیل کرتے ہوئے ادیبوں، شاعروں، فن کاروں کو ایک پلیٹ فورم پر اکٹھا کرنا ہے کہ اس کے بغیر معاشرے کی فرسودہ اور غیرتخلیقی قوتوں کا توڑ ممکن نہیں۔

آرزو تو یہ قابل قدر ہے، پر قلم کاروں کو بھی اپنی ذمے داریوں کا احساس کرنا ہوگا۔ کسی زمانے میں تخلیق کار کو زندگی کے دیگر طبقات پر برتری حاصل رہی ہوگی، مگر آج وہ بے چہرگی کا شکار ہے۔ اِس کا سبب جہاں معاشرتی تضادات اور بے حسی، وہیں کچھ قصور خود اس کا اپنا بھی۔ اُسے احساس ذمے داری اور موثر حکمت عملی کے ساتھ سامنے آنا ہوگا۔ تاریخ میں جمہوریت اور انسانی اقدار کے لیے ادیبوں نے لازوال کردار ادا کیا۔ ہمارے ادیب کو بھی ان ہی روشن نقوش پا کا تعاقب کرنا ہوگا۔

بہ قول احسن سلیم: ’’جمہوری بصیرت، قومی وحدت اور ڈسپلن کے لیے ادیب و شاعر کو اپنی سوسائٹی کی صورت حال اور گلوبل سطح پر ’انسان اور انسانیت‘ سے کامل طور پر آگاہ ہونا پڑے گا۔ تب ہی تاریخ کے جبر کو اعمال کی آزادی میں تبدیل کیا جاسکے گا۔ ورنہ انسانی فطرت کی سفاکی پہاڑوں سے اُتر کر ہمارے گھروں میں داخل ہوجائے گی۔ تاریخ کا جبر ’غلامی‘ کی زنجیروں کو مزید مضبوط اور مستحکم کردے گا۔‘‘

سفاکی پہاڑوں سے اتر کر ہماری دہلیز پر پہنچ گئی۔ فوری فیصلہ کیجیے کہ اب چند ہی گھڑیاں آزاد ہیں، اِنھیں کھو دیا، تو ترسنے کا بھی موقع نہیں ملے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔