زمین پر ’پلینیٹ آف دی ایپس‘

ندیم سبحان  پير 29 دسمبر 2014
لائبیریا کا جزیرہ جہاں چمپانزی حکمران ہیں۔  فوٹو: فائل

لائبیریا کا جزیرہ جہاں چمپانزی حکمران ہیں۔ فوٹو: فائل

آپ نے Planet of The Apes سیریز کی فلمیں تو ضرور دیکھی ہوں گی جن میں انسانوں جیسی عقل و فہم کے حامل بن مانسوں کو ایک سیارے پر حکمرانی کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔

یہ فلمیں تو خیر سائنس فکشن کا شاہ کار تھیں مگر کرۂ ارض پر حقیقتاً ایک ایسا جزیرہ موجود ہے جہاں بن مانس (چمپانزی) حکمران ہیں۔ یہ بنا دُم کے بندر یا بوزنے قدرتی طور پر یہاں نہیں پائے جاتے بلکہ انھیں یہاں لاکر بسایا گیا ہے۔ دراصل یہ وہ افریقی چمپانزی ہیں جنھیں ایک تجربہ گاہ میں تختۂ مشق بنایا جاتا رہا تھا۔ برسوں تک ان پر مختلف تجربات کیے جاتے رہے۔

خوش قسمتی سے یہ تجربات ان کی ہلاکت کا سبب نہیں بنے۔ طبی تحقیق کا مقصد پورا ہونے کے بعد درجنوں چمپانزیوںکو ایک غیرآباد پر جزیرے پر لاکر بسادیا گیا۔ ان بن مانسوں کو ہیرو کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کیوں کہ ان پر ہونے والے طبی تجربات نسل انسانی کے لیے بے حد مفید ثابت ہوئے، اور ان کی بنیاد پر کئی مہلک امراض کا علاج دریافت کرنے میں اہم پیش رفت ہوئی۔

جزیرے سے پہلے یہ جانور لائبیرین انسٹیٹیوٹ آف بایومیڈیکل ریسرچ ( اسے وائی لیب بھی کہا جاتا تھا ) کے باسی تھے۔ 1970ء کے عشرے کے دوران ان پر ہیپاٹائٹس سمیت کئی بیماریوں کا علاج دریافت کرنے کے لیے تجربات کیے گئے تھے۔ جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں کی جانب سے بڑھتے ہوئے دباؤ کے بعد بالآخر گذشتہ عشرے کے وسط میں یہ تجربہ گاہ بند کردی گئی، اور 60 سے زائد چمپانزیوں کو دریائے فارمنگٹن کے وسط میں واقع ایک سرسبز قطعۂ اراضی پر منتقل کردیا گیا۔ یہ جزیرہ مقامی آبادی میں ’’ منکی آئی لینڈ‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جزیرے پر عام افراد کا جانا ممنوع ہے۔ وہاں صرف چمپانزیوں کے رکھوالے جاسکتے ہیں۔

ان جانوروں پر ’’ آئی لینڈ آف دی ایپس‘‘ کے عنوان سے ایک دستایزی فلم بھی بنائی گئی تھی۔ اس فلم میں امریکی صحافی کاج لارسن کو جزیرے کا سفر کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ وہ کشتی میں بیٹھ کر جزیرے کی طرف روانہ ہوا تھا مگر ساحل پر اُترنے میں کام یاب نہیں ہوسکا تھا، کیوں کہ کشتی کو دیکھتے ہی بن مانس ساحل پر آگئے تھے، اور بُری طرح چیخنے لگانے لگے تھے۔ ان کے جارحانہ رویے کو دیکھ کر لارسن نے واپسی کی راہ اختیار کرنے ہی میں عافیت جانی۔

1980ء کی دہائی کے اواخر میں لائبیریا میں داخلی صورت حال کشیدہ ہونے لگی اور 1989ء میں پہلی خانہ جنگی چھڑ گئی۔ اس صورت حال میں وائی لیب پروگرام کے لیے بھی خطرات پیدا ہوگئے۔ تجربہ گاہ کی ڈائریکٹر بیٹسی کو تحقیق کا سلسلہ جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ جزیرے پر منتقل کیے جانے والے چمپانزیوں کی حفاظت یقینی بنانے میں مشکلات کا سامنا تھا مگر اس نے اپنی جان بچانے کی خاطر تجربہ گاہ اور وہاں موجود سیکڑوں بوزنوں کو چھوڑ کر جانے سے انکار کردیا۔

1993ء تک بیٹسی اور تجربہ گاہ کے دوسرے ملازمین بخیروعافیت اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔ تاہم خانہ جنگی سے تادیر وہ بھی محفوظ نہ رہ سکے۔ ایک روز دہشت گردوں نے بیٹسی کے گھر میں گھس کر اس کے شوہر برائن کو ہلاک کردیا۔ اس اندوہناک واقعے کے باوجود بیٹسی نے تجربہ گاہ اور ان جانوروں کو چھوڑ کر جانے سے انکار کردیا۔ وہ اپنے کام میں مصروف رہی، یہاں تک کہ 1999ء میں چھڑنے والی دوسری خانہ جنگی بھی اسے اپنے کام کو خیرباد کہہ دینے پر مجبور نہ کرسکی۔ لیکن جانوروں پر طبی تجربات کے خلاف اٹھنے والی آوازیں خانہ جنگی سے زیادہ طاقت ور ثابت ہوئیں۔

2005ء میں بالآخر جانوروں کے تحفظ کے لیے آواز بلند کرنے والوں کے موقف کو درست تسلیم کرتے ہوئے بیٹسی نے تجربہ گاہ بند کرنے کا اعلان کردیا۔ اس موقع پر بیٹسی نے کہا،’’ میرے خیال میں وہ ٹھیک کہہ رہے تھے۔ چمپانزیوں پر تجربات نہیں کیے جانے چاہیے تھے۔ تاہم اس کا ازالہ کرنے کے لیے ہی ’منکی آئی لینڈ‘ کا انتخاب کیا گیا تھا، جہاں یہ جانور بقیہ زندگی فطری انداز میں رہتے ہوئے گزار سکتے ہیں۔‘‘

بیٹسی اور تجربہ گاہ کے چند ریٹائرڈ ملازمین ہر دوسرے دن جزیرے کا رُخ کرتے ہیں۔ ان کے ہمراہ پھل اور سبزیاں ہوتی ہیں جنھیں یہ جانور شوق سے کھاتے ہیں۔ لارسن کے برعکس وہ بیٹسی اور ملازمین سے مانوس ہیں، اس لیے انھیں دیکھتے ہی آوازیں نکال کر خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔