میاں صاحب شکریہ!

عبدالقادر حسن  پير 29 دسمبر 2014
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

ہمارے نہایت ہی پریشاں حالات کے سربراہ میاں محمد نواز شریف نے پوری قوم اور اپنے ساتھیوں پر واضح کر دیا ہے کہ دہشت گردی ان کے ملک کو لے ڈوبے گی اگر ملک کو دہشت گردوں سے بچانا ہے تو پھر پوری قوم کو اور تمام سرکاری مشینری کو متحد ہونا پڑے گا کہ یہ ملک ہم سب کا ایک مشترکہ ملک ہے۔

وزیراعظم کی باتوں میں یہ حقیقت بھی پوشیدہ تھی کہ ہمارا یہ ملک ہمارے ایسے پرعزم بزرگوں کا بنایا ہوا ملک ہے جو اس سے پہلے دنیا کے نقشے پر موجود نہیں تھا اور جن قوتوں کی مرضی کے خلاف یہ ملک قائم ہوا ہے وہ سب اس کے بارے میں اپنا پرانا قاتلانہ عناد بدستور زندہ رکھتی ہیں اور انھوں نے اس ملک کے اندر بھی دہشت گرد پیدا کیے ہیں۔ اس طرح ہمیں ایک نہیں اندرونی اور بیرونی کئی محاذوں پر لڑنا ہے یوں ہم ہر وقت حالت جنگ میں ہیں اور مسلسل بے چین ہیں۔

ہماری یہ حالت شروع دن سے ہے اور ہمیں اپنے ان حکمرانوں سے محکومانہ گلہ ہے جنہوں نے سستی سے کام لیا اور حالات کی سنگینی کا احساس نہیں کیا، اس پس منظر میں آج کے وزیراعظم کو صرف اپنا کام ہی نہیں کرنا جو بہت ہی زیادہ اور مشقت طلب ہے بلکہ ماضی کی غلطیوں اور کوتاہیوں کا بھی ممکن حد تک ازالہ کرنا ہے۔ اسی لیے اس صورت حال سے متفکر ہو کر وزیراعظم نے نہ صرف دوسری قومی جماعتوں بلکہ اپنی جماعت کے ساتھیوں کو بھی خبردار کر دیا ہے کہ صورت حال کس قدر تشویشناک ہے یہ بقا کی جنگ ہے اپنی اور نئی نسلوں کی بھی، پشاور کے سانحے نے یہ سب کچھ اس قدر بھیانک اور خوفناک انداز میں واضح کر دیا ہے کہ اس کے بعد سوچنے سے زیادہ عمل کی ضرورت ہے۔

یہ کیا بات ہوئی کہ وزیروں وغیرہ اور سرکاری مشینری کے عیش و آرام پر اربوں لٹا دیے جائیں مگر ہم اپنے بچوں کی حفاظت بھی نہ کر سکیں کہ دہشت گرد کسی ادارے میں آرام کے ساتھ داخل ہوں  حملے کی تیاری کریں اور پھر جو چاہیں کر گزریں۔ اگر آج تعلیمی اداروں کی حفاظت کے بندوبست کیے جا رہے ہیں دیواریں بن رہی ہیں یا بلند اور مستحکم کی جا رہی ہیں تو متعلقہ لوگوں کو پہلے اس کا خیال کیوں نہیں آیا کہ بڑے سے بڑا تعلیمی ادارہ بھی عام اور غیر متعلق لوگوں کی گزر گاہ بن گیا ہے یہ حالت پشاور کے اس مظلوم ادارے کی نہیں ملک کے کئی بلکہ بیشتر تعلیمی اداروں کی ہے اور ان کی سیکیورٹی کا کوئی انتظام تو سرے سے ہے ہی نہیں بس ایک آدھ چوکیدار وغیرہ۔ اب انٹیلی جنس کے ادارے یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ تعلیمی ادارے ایک ماہ کے لیے بند کر دیے جائیں تاکہ ان کی ممکن حد تک سیکیورٹی کا بندوبست کیا جا سکے۔ تعطیلات میں توسیع تو کر دی گئی ہے لیکن ان اداروں کو کسی خطرے سے بچانے کے لیے بند کرنا ان کی کسی تباہی سے زیادہ بہتر ہے۔ بظاہر یہ بات انتہا پسندانہ سی ہے لیکن جو سانحہ ہوچکا ہے اس کے سامنے کچھ بھی نہیں۔

وزیراعظم نے اب تک جن قومی خطرات کا اظہار کیا ہے اور ان کا مقابلہ کرنے کے عزم کا اعلان کیا ہے اور عمل بھی شروع کر دیا ہے یہ سب پوری قوم کے اطمینان کے لیے کافی ہے کہ ان کا حکمران جو ان کی جان و مال کی حفاظت کا ذمے دار ہے جاگ اٹھا ہے۔ میاں صاحب دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے منصوبے بنا رہے ہیں اور بڑی تیزی کے ساتھ لیکن ہمارے ملک کو ماضی میں جس سست مزاج اور خود پرست قیادت کا سامنا رہا ہے وزیراعظم کو اپنے ان ساتھیوں کو بھی خواب غفلت اور بے حسی سے جگانا ہے۔

یہ کس قدر خوفناک بے حسی کی بات ہے کہ تھر میں اب تک کوئی ڈھائی سو سے زیادہ بچے صرف بھوک کی وجہ سے مر گئے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ یہ بدانتظامی اور متعلقہ صوبائی حکومت کی غفلت اور لاپروائی ہے، یہ ملک اتنا بھوکا نہیں کہ یہاں لوگ بھوک سے مر جائیں یہ کوئی بھارت نہیں جہاں سیاست کے ساتھ افلاس کی حکومت بھی ساتھ ساتھ چل رہی ہو۔ اگر وزیراعظم کو آئینی اختیار حاصل ہے تو وہ سندھ کی حکومت کو فوراً برطرف کر دیں یا صدر صاحب سے اس کی سفارش کریں، آج کے دور میں اس قدر نالائق اور عوام کے مفاد سے غافل حکومت کو باقی رہنے کا حق ہر گز نہیں ہے ایسا تو دشمنوں کی حکومتیں بھی نہیں کرتیں۔ سب کو معلوم ہے اور نہیں تو ہونا چاہیے کہ غربت اور دہشت گردی معاشرتی انصاف کے بغیر ختم نہیں ہو سکتیں بلکہ کوئی بھی قومی مرض ہو اس کا علاج قومی سطح پر انصاف اور مساوات ہے۔

ہماری حکومت اور اس کے کارپردازوں نے بڑے صبر آزما اور کٹھن پروگرام کا اعلان کیا ہے۔ میاں صاحب نے حال ہی میں اپنی تقریر میں جن نکات کا اعلان کیا ہے وہ رات گئے تاخیر کے باوجود قوم نے سنی ہے یا دوسرے دن صرف اخباروں میں پڑھ لی ہے۔ ان نکات کا اعلان اپنی جگہ پر اصل بات ان نکات پر عملدرآمد ہے اور یہی عملدرآمد اس حکومت کا اولین فرض ہے جو اس نے خود ہی اپنے ذمے لینے کا اعلان کیا ہے۔ یہ بات وزیراعظم ہی بہتر جانتے ہیں کہ انھوں نے جن نکات کے پروگرام اور ذمے داری کا اعلان کیا ہے اسے کس طرح پورا کرنا ہے لیکن جس طرح بھی کرنا ہے اسے بہرحال کرنا ہی ہے۔

انگریز غیر ملکی تھے نہ ان کا مذہب ہم سے ملتا تھا نہ زبان اور کلچر لیکن انھوں نے جس خوبی اور خوش اسلوبی کے ساتھ ایک صدی سے زیادہ عرصہ تک حکومت کی اسے دیکھ کر ان کے لیڈر سرونسٹن چرچل نے اصرار کیا تھا کہ ہم ابھی پچاس برس مزید ہندوستان پر حکومت کر سکتے ہیں لیکن حکمران لیبر پارٹی نے ہندوستان آزاد کر دیا۔ بہر حال ایک بات قابل غور ہے کہ پورے ہندوستان میں سول اور فوج کے لیے انگریزوں کی تعداد کوئی چالیس ہزار افراد کے قریب رہی۔ ان چالیس ہزار نے وسیع و عریض سرزمین اور کروڑوں کی متنوع آبادی پر حکومت کی اور اپنی حکمت عملی اور فراست سے یہ وقت گزار لیا لیکن ایک شرط پر کہ ان کے سرکاری کارندے قانون کی زبردست پابندی کرتے رہے۔ ڈی سی اور ایس پی اپنے ضلعوں کو قابو میں رکھتے تھے۔ عوام کی جان و مال کی حفاظت آج سے ہزارہا گنا بہتر تھی درست کہ اس وقت کے گردوپیش کے حالات بہت ساز گار تھے۔

برطانیہ ایک سپرپاور تھی اور اسے ہماری طرح دہشت گردی کا خطرہ نہیں تھا لیکن کسی بھی ممکن خطرے کی پیش بندی حد سے زیادہ تھی۔ پہلے بھی کبھی یہ بیان کر چکا ہوں کہ جب میانوالی کے ایس پی کو کسی مفرور کا پتہ چلا کہ وہ کہاں چھپا ہے تو وہ فوراً ہی وہاں پہنچا مقامی پولیس اسے ایک مکان کے سامنے لے گئی اور ایک بند کمرے کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ وہ اس کمرے میں موجود ہے ایس پی دروازے کے سامنے جا کر کھڑا ہو گیا اور حکم دیا کہ دروازہ کھول دو۔ سب نے کہا کہ حضور وہ مسلح ہے اور آپ یہ خطرہ مول نہ لیں لیکن وہ کوئی پرانی طرز کا انگریز تھا اس نے کہا کہ یہ برطانوی تاج کی عزت کا سوال ہے کہ اس کا کوئی باغی زندہ رہے چنانچہ دروازہ کھلا اور وہ مسلح مفرور سامنے آیا تو ایس پی کی گولی کا نشانہ بن گیا۔

اگر غیر ملکی قابض کسی انگریز کو اپنی ملکہ کے تاج کا احترام تھا اور وہ جان کی قربانی پر تیار تھا تو ہم اپنے ملک کے لیے کیوں نہیں، ہم نے تو خدا و رسولؐ کے نام پر یہ ملک لیا ہے۔ بہر کیف ہمارے وزیراعظم نے جس عزم بلکہ جن عزائم کا اعلان کیا ہے قوم ان کے ساتھ ہے وہ بھی ملک کی عزت کی حفاظت کریں قوم بھی جان لڑا دے گی۔ میاں صاحب کا شکریہ کہ وہ پرعزم ہیں اور ڈٹ گئے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔