جرائم اور دہشت گردی کی روک تھام

فاطمہ نقوی  پير 29 دسمبر 2014
fnakvi@yahoo.com

[email protected]

زندگی کی شاہراہ پر سفرکرتے ہوئے کچھ واقعات ایسے ہوتے ہیں جن کی بدولت پوری زندگی تبدیل ہوکر رہ جاتی ہے نظریات و خیالات تبدیل ہوجاتے ہیں اکثر دیکھا گیا ہے کہ ظلم و زیادتی کے شکار لوگوں نے تنگ آکر قانون کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا اور پھر پوری زندگی جرائم کی دنیا میں گزاردی ۔کہیں لوگوں کے رویوں سے تنگ آکر کچھ لوگوں نے اپنی زندگی کا ہی خاتمہ کرلیا کیونکہ وہ اس بے درد معاشرے کے اصولوں پر چلنے سے قاصر تھے تو کہیں انصاف کے حصول میں مشکلات نے انھیں اس طرح توڑا کہ سوائے اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے کے کوئی راستہ ان کے پاس نہیں رہا تو کہیں کسی واقعے نے لوگوں کو مجبور کردیا کہ وہ جرم کے خلاف متحد ہوکر آر یا پار والا معاملہ کر گزریں ،تاکہ روز روز کی چخ چخ سے جان چھوٹ جائے اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں جرائم کی شرح میں روزبروز اضافہ ہو رہا ہے۔

جرائم کی تاریخ بہت پرانی ہے دنیا میں جرم کی ابتدا تو اس وقت سے ہوگئی تھی جب ہابیل کو قابیل نے اپنی ذاتی خواہش کو پایہ تکمیل ہونے کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہوئے قتل کر دیا تھا اور اس طرح جرائم کی دنیا میں اضافہ ہونے لگا نامساعد حالات بیروزگاری غیر مسلم معاشرے کے اطوار اور اخلاقی اقدار سے دوری نے جرائم کو معاشرے کا حصہ بنادیا ہے۔

پاکستانی معاشرہ اس وقت جس اخلاقی پستی کا شکار ہے اس کی وجہ سے بھی جرائم میں بتدریج اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اس کے علاوہ غربت ایک ایسا ناسور ہے جس نے جرائم کو پنپنے میں بہت راہ ہموار کی ہے کیونکہ ایک طرف بڑھتی ہوئی غربت اور دوسری طرف سرمایہ دارانہ نظام کی بدولت پیسے کی فراوانی اس سے لوگوں میں احساس محرومی پیدا کرکے انھیں ناجائز ذرایع سے دولت کمانے میں لگادیا جس سے مجرموں کی زندگی میں کچھ سہولتیں تو آگئیں مگر معاشرتی نظام درہم برہم ہوگیا اور یہی وجہ ہے کہ معاشرتی جرائم کی شرح میں دن رات اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

اس کے علاوہ ایلیٹ کلاس نے بھی اپنے ذاتی مفادات کے لیے مجرموں کی پشت پناہی کرنا شروع کر دی جس کی وجہ سے ان کے اقتدار میں تو دوام ہوا مگر معاشرے میں اخلاقی انحطاط شروع ہوگیا۔ وڈیروں، جاگیرداروں اور دوسرے سیاسی لوگوں نے اپنے دشمنوں کو نیچا دکھانے کے لیے ان جرائم پیشہ لوگوں کے گٹھ جوڑ سے مختلف راستے اختیار کیے ڈاکوؤں، قاتلوں کو پناہ دی اور ان کے بل بوتے پر جس قدر پاکستانی معاشرے کو تباہ کرسکتے تھے کیا سب سے بڑی خرابی یہ پیدا ہوئی کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے ہی ایسے لوگوں کا گڑھ بن گئے ۔

جن کی وجہ سے امیر کے لیے قانون اور غریب کے لیے قانون اور بن گیا اور مجرموں کو سزائیں ملنا یا تو ختم ہوگئیں یا پھر نہ ہونے کے برابر دی گئیں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ جرائم پیشہ گروہ زیادہ مضبوط ہوکر معاشرے کو تباہ کرنے کے عمل پر مزید پختہ ہوگئے اور جو کچھ جمہوری حکومتیں آئیں وہ عوام کے جان و مال کو تحفظ دینے کی کوئی ٹھوس حکمت عملی وضع کرنے کی بجائے اکثر ایسے لوگوں کو پناہ دینے پر کاربند رہیں۔ ابھی گلوبٹ کا حالیہ واقعہ ہی لوگ نہیں بھولے ہوں گے کہ کس طرح سے لوگوں کی املاک کو نقصان پہنچانے والے شخص کو تحفظ دینے کی کوشش کی گئی اور یہی وجہ ہے کہ انصاف نہ ملنے کی وجہ سے لوگ مایوسی کا شکار لوگ فرسٹریشن کا شکار ہوکر مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہوجاتے ہیں۔

پاکستانی معاشرہ اس وقت مختلف النوع جرائم کا شکار ہے کوئی شعبہ زندگی ایسا نہیں جو کسی برائی سے پاک ہو جس کی وجہ سے عام آدمی میں عدم تحفظ اور خوف پیدا کردیا ہے قانون نافذ کرنے والے ادارے مختلف وجوہات کی بنا پر ان جرائم کو ختم کرنے میں ناکام رہے ہیں کیونکہ عوام کی اکثریت اسی وجہ سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے تفتیشی نظام پر بھروسہ نہیں کرتے اکثریت کا خیال ہے کہ پولیس بھی بہت سی خرابیوں کی جڑ ہے کیونکہ وہ مال پانی بنانے کی آڑ میں دانستہ اور غیر دانستہ مجرموں کی پشت پناہی کرتی نظر آتی ہے۔

ایک عام آدمی معمولی سی ایف آئی آر کٹوانے بھی تھانے جاتے ہوئے ڈرتا ہے کہ کہیں وہ دھر نہ لیا جائے کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے کہ جب پنجاب کے آئی جی پولیس عباس خان نے خود تسلیم کیا کہ پولیس کا موجودہ نظام پوری طرح عوام دشمن ہے اس کا کام مراعات یافتہ طبقے کی تعمیل کرنا ہے کہ جب پولیس کی کارکردگی میں مراعات یافتہ طبقے کی مداخلت ہوتی ہے تو اس کا مطلب ہے قانونی عمل میں مداخلت ہے اس وجہ سے معاشرہ ہر قسم کی قانون شکنی میں پھنس کر رہ جاتا ہے۔

جب تک پاکستان میں پولیس کو پیشہ ور اور غیر جانبدار نہیں کیا جائے گا قانون کی بالادستی قائم نہیں ہو پائے گی اس لیے ضروری ہے کہ پولیس کے محکمے کو مقامی گورننس کے سپرد کیا جائے تاکہ مقامی نمایندے (بلدیاتی نظام کے ماتحت) بھی پولیس کے افکار کردار کو کنٹرول کرتے ہوں اور مقامی سطح کے کنٹرول کی وجہ سے ہی پولیس جرائم پیشہ لوگوں کی پشت پناہی نہیں کرسکے گی۔ فوجی عدالتوں کا قیام ایک خوش آیند قدم ہے مگر فوج کہاں کہاں اپنا رول ادا کرے گی اس لیے ضروری ہے کہ جرائم اور دہشت گردی کی روک تھام کے لیے پولیس کے کردار کو بھی مثبت بنایا جائے اس محکمے کو مکمل طور پر اشرافیہ کی خدمت کے فرائض سے سبکدوش کرکے جرائم کے خاتمے کے لیے استعمال کیا جائے ، ٹریننگ فوج کی نگرانی میں کروائی جائے، کرپشن کا خاتمہ ہو اور جب تک پولیس کے کردار کو عوام دوست نہیں بنایا جائے گا دہشت گردی، اسٹریٹ کرائم ، قتل و غارت غرض ہر قسم کے مسائل بڑھتے رہیں گے بااختیار پولیس کلچر ہی ہمارے معاشرے میں بہتری لاسکے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔