پشاور میں بچوں کا قتلِ عام اور اس کے مضمرات

بابر ایاز  پير 29 دسمبر 2014

اب جس نئی پالیسی کا وزیر اعظم نے اعلان کیا ہے، اس میں جو نئی اہم بات ہے،وہ فوجی عدالتوں کا قیام ہے جو آئین میں تبدیلی کے بغیر نہیں ہو سکتا۔کچھ سیاسی جماعتوں نے جائز طور پراس فیصلے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے مگر بادل نخواستہ اس کڑوے گھونٹ کو پی لیا۔فوجی عدالتوں کی ضرورت کیوں پیش آئی اور اس کے اثرات کیا ہوں گے اس پر میں پھر کبھی بات کروں گا۔نئی پالیسی میں باقی سب کچھ پرانا ہے۔ پشاور میں اسکول کے134 بچوں سمیت144 افراد کے خوف ناک قتل نے اگرچہ پوری دنیا کو رُلا کر لوگوں پر سکتہ طاری کر دیا ہے،مگر ان کے اس عزم کو جلا بخشی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ہم سب کی جنگ ہے۔ پشاور کے اس قتل عام کے رد ِ عمل میں تین اہم تبدیلیاں سامنے آئی ہیں جن کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔

اول، لوگوں کے لیے یہ بات کوئی خاص اطمینان کا باعث نہیں بنی کہ حکومت کی طرف سے بلائی جانے والی کُل جماعتی کانفرنس میں شامل رہنماؤں نے ایک کمیٹی قائم کرنے کا فیصلہ کیا جو دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے پالیسی کے بارے میں سفارشات مرتب کرے گی۔

اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ اگرچہ پاکستان گزشتہ دو دہائیوں سے زیادہ عرصے سے دہشتگرد حملوں سے لہو لہان ہے مگر اس کا مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان کے پاس کوئی پالیسی نہیں ہیمگر حقیقت یہ ہے کہ پارلیمنٹ نے 2007ء میں سوات آپریشن سے پہلے ملا فضل اللہ کی قیادت میں طالبان کے خلاف پالیسی کے رہنما اصول دے دیے تھے۔ حال ہی میں کابینہ کی کمیٹی نے بھی داخلی پالیسی کی ایک کمیٹی تشکیل دی اور ایک رپورٹ تیار کی۔اس لیے یہ بات نہیں ہے کہ حکومت کے پاس دستاویزکی شکل میں کوئی پالیسی نہیں ہے ہاں جو چیز پریشان کن ہے وہ اس پالیسی پر عمل درآمد کا فقدان ہے۔

مثال کے طور پر تمام انٹیلیجنس ایجنسیوں کو ایک چھتری کے نیچے لانے کے لیے متعدد کوششیں کی گئیں تاکہ ان کے درمیان بہتر رابطہ پیدا ہو سکے لیکن ابھی تک ایسا نہیں ہو سکا۔یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے جس کا صرف پاکستان کو سامنا ہے امریکا میں 9/11 کے واقعات اور بھارت میں 26/11 کو ممبئی میں بزدلانہ حملوں کے بعد تحقیقات کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ ان دونوں ملکوں میں مختلف انٹیلی جنس ایجنسیاں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون نہیں کر رہی تھیں ۔

اس عدم تعاون کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ خفیہ ایجنسیاں جنھیں فوج کنٹرول کرتی ہے،خود کو اپنی مد مقابل سول ایجنسیوں سے برتر سمجھتی ہیں اور ان پر مکمل اعتماد نہیں کرتیں۔موجودہ حکومت، عمران خان کے دباؤ میں آ کر تحریک طالبان پاکستان(TTP) کے خلاف فوجی آپریشن کی اجازت دینے سے ہچکچا رہی تھی جب کہ نئے آرمی چیف ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہنے اور سویلینز اورفوجی جوانوں کی لاشیں اٹھاتے رہنے پر تیار نہیں تھے۔ اپنے پیش رو کے برعکس جو اس خوف سے TTP کے خلاف آپریشن سے گریزاں تھے کہ اس کا جواب شہروں میں دیا جائے گا،جنرل راحیل شریف زیادہ بے خوف ہیں۔فوج میں ان کی گزشتہ ذمے داری ،آرمی کو کسی بھی داخلی خطرے کے مقابلے کے لیے تیار کرنا تھا۔فوج نے ٹی ٹی پی کے طاقت کے مراکز کو توڑنے کے لیے مقامی پولیس اور رینجرز کے تعاون سے بھی آپریشن کیا۔

ہر ملک کی اسٹیبلشمنٹ اپنی تاریخ کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہوتی ہے اور یہ سبق سیکھتی ہے کہ جب یہ بوجھ برداشت سے باہرہو جائے تو اسے ہلکا کرنا پڑتا ہے۔ پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ پاکستان میں بُری طرح سے چوٹ کھائی ہوئی حکومت نے’’ اچھے اور بُرے طالبان‘‘ کی پالیسی کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔سیاسی اور عسکری قیادت دونوں نے اعلان کیا ہے کہ تمام طالبان کے خلاف آپریشن جاری رہے گا۔اس کی ایک مثال شمالی وزیرستان آپریشن کی ہے جس میں بڑی حد تک افغان حکومت کے اطمینان کے مطابق حقانی گروپ کی پناہ گاہوں کا صفایا کر دیا گیا ہے۔ماضی میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے افغانستان کے اقتدار کے کھیل میں اپنا عمل دخل بڑھانے کے لیے حقانی گروپ کو اثاثہ سمجھا جاتا تھا۔

وقتی طور پر ان بیانات سے یہ مطلب نہیں نکلتا کہ فوجی آپریشن کو ان جہادی گروپوں تک بھی بڑھا دیا جائے گا جن کا رُخ بھارت کی طرف ہے کیونکہ جماعت الدعوۃ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعاون کر رہی ہے۔مختلف طالبان گروپوں کی طرف سے حافظ سعید پر تنقید کی گئی ہے مگر اس قسم کی اطلاعات آ رہی ہیں کہ الدعوۃ کے جنگجوؤں کوغیر فعال کیا جا رہا ہے اور اس کی NGO فلاح ِ انسانیت فاؤنڈیشن (FIF)کے ذریعے انھیں دوسری ذمے داریاں دی جا رہی ہیں۔کیا پاکستان بھارت کی طرف مرکوز جہادی تنظیموں کا بستر بوریا لپیٹ دیگا؟میرے خیال میں اس کا انحصاردہلی کے ساتھ حل طلب معاملات پر ہو گا۔

تاہم فوج کی طرف سے جاری آپریشن بالکل صحیح ہے اور اسے عوام کی حمایت بھی حاصل ہے۔تاریخی طور پر داخلی سلامتی اور خارجہ پالیسی کے اہم فیصلے اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے کیے جاتے ہیں۔سویلین حکومتوں نے اس دائرۂ اختیار پر اپنا دعویٰ منوانے کی کوشش کی مگر ایسا نہ ہو سکا۔

مگر اس آپریشن کی بہترین تشریح حربی چال کی حیثیت سے کی جا سکتی ہے۔جب تک سویلین حکومت کوئی کثیر الجہتی حکمت ِ عملی تیار نہیں کرتی یہ کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتا۔پاکستان کو جو’’ کم سوچ بچار کا حامل تصور‘‘ تھا،اگر قائم رکھنا ہے تو اس پر اب ’’ دوبارہ سوچ بچار‘‘ کرنی ہو گی۔ ریاست ، اسلامائزیشن کی حمایت جاری نہیں رکھ سکتی اور اُن متعدد اسلامی عسکریت پسندوں کے خلاف نہیں لڑ سکتی جو اس ملک میں ’’ خلافت‘‘ قائم کرنا چاہتے ہیں۔ہماری ریاست ابہام کا شکار ہے۔وہ21 ویں صدی میں ایک جدید جمہوری ملک کی حیثیت سے آگے بڑھنا چاہتی ہے اور اس کے ساتھ ہی اسکولوں اور کالجوں میں ہمارے بچوں کو مسخ شدہ تاریخ پڑھا کران کے ذہن مسموم کرتی ہے۔ مذہبی، نسلی اور قوم پرستانہ تعصب پر مبنی تعلیم کا اُلٹا نتیجہ نکلتا ہے۔

دوئم، داخلی سلامتی اور خارجہ پالیسی پرکون وار کر رہا تھا،یہ16/12 کے سانحہ پشاور کے بعد اس وقت صاف ظاہر ہو گیا جب آرمی چیف جنرل راحیل شریف فوراً ایک روزہ دورے پر افغانستان گئے۔انھوں نے تحریک ِ طالبان پاکستان کی قیادت کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا جو شمالی وزیرستان اور اس سے ملحقہ ایجنسیوں میں فوجی آپریشن شروع ہونے کے بعد افغانستان بھاگ گئی تھی۔ پاکستان کے پاس یہ شواہد ہیں کہ جن دہشت گردوں نے اسکول پر حملہ کیا ،وہ افغانستان کے صوبے کنڑ میں مقیم ٹی ٹی پی کے کمانڈر سے ہدایات لے رہے تھے۔تاہم پاکستان،افغان صدر غنی کی حکومت سے اُن کے پیش رو کرزئی سے کہیں زیادہ تعاون پر تیار ہے۔

سوئم، پشاور میں16/12 کو بچوں کے اس قتل ِ عام نے عمران خان کیPTI اور نواز شریف کی PML میں سیاسی تعطل کو توڑ دیا ہے۔اس نے حکومت اور عوام کی توجہ دہشت گردوں کے خلاف جنگ کے انتہائی فوری نوعیت کے مسئلے کی طرف موڑ دی ہے۔یہاں تک کہ عمران خان کو عوام کے غم و غصہ کا احترام کرتے ہوئے 126 روزسے جاری اپنے احتجاجی دھرنے کو ختم کرنا پڑا۔

ان کی سیاست کے خلاف اور حق میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔یہ ان کی تحریک کی اچھائیاں اور برائیاں تلاش کرنے کا وقت نہیں ہے۔ان کی تحریک نے ابھی تک دم نہیں توڑا اور وہ ثابت کرچکے ہیں کہ ان میں اسے دوبارہ شروع کرنے کی صلاحیت ہے۔اگرچہ مزید نشستوں کے لیے جدوجہد کو روک دینا نواز شریف کی حمایت نہیں ہے،اس لیے حکومت کو 2013 کے انتخابات میں دھاندلی کی سطح کا پتہ چلانے کے لیے عدالتی تحقیقاتی کمیشن قائم کر دینا چاہیے جیسا کہ مذاکرات میں طے پا چکا ہے۔ایک ممکنہ منظر نامہ یہ ہے کہ وہ ارکان قومی اسمبلی جنھیں یہ خوف ہے کہ انکوائری کے نتائج ان کے خلاف جاسکتے ہیں ،ن لیگ کی قیادت پر دباؤ ڈالیں کہ وہ اپنی پارٹی کے وعدے سے پیچھے ہٹ جائیں۔نواز شریف نے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ شائستگی کی سیاست پر یقین رکھتے ہیں۔عمران خان کو بھی واپس پارلیمنٹ میں جانا چاہیے اور انتخابی اصلاحات کی کمیٹی میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

دہشت گردی،پُر تشدد فرقہ واریت اور بلوچستان میں عسکریت پسند تحریک سے نقصان اٹھانے والے عوام ریاست کی طرف سے مختلف جہادی گروپوں کی پرورش کی پالیسی پر اب کھل کر سوال اٹھا رہے ہیں۔بہت سے لکھنے والے پوچھ رہے ہیں کہ کیا ریاست اپنے اس ناقابل ِ فہم ’’ اسٹریٹجک کلچر ‘‘ کو تبدیل کرنے پر تیار ہے۔سیکیورٹی امور کی ماہرChristina Fair اپنی تازہ تصنیف’Fighting to The End’ میں زیادہ پُر امید نظر نہیں آتیں۔مگر مجھے ایک ریٹائرڈ سینئر افسرکی اس بات سے قدرے اطمینان ہوا کہ’’ ریاست کی پرانی پالیسیاں ٹائی ٹینک کی طرح ہیں جنھیں اپنا راستہ بدلنے کے لیے کچھ وقت درکار ہے۔‘‘ مجھے یقین تو نہیں پر ایک موہوم سی امید ہے کہ کسی برفانی تودے سے ٹکرانے سے پہلے یہ کام ہو جائے گا۔

کالم نگار ’’ پاکستان خرابی اور اُس کے اثرات‘‘ کے مصنف ہیں۔ رسائی کے لیے [email protected]۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔