وہ جو بچوں سے بھی ڈر گئے

حسین مسرت  پير 29 دسمبر 2014

حادثہ، تباہی، بربادی، ماتم، الم، احتجاج، حفاظتی تدابیر پر سوال، کمیٹیاں، شور، خاموشی۔ یہ فارمولا ہمارے ہاں برسوں سے رائج ہے۔ اسی پر عمل کرتے ہوئے ہمارا سیاسی نظام اپنی بے ساکھیاں سنبھالے ہوئے چل رہا ہے۔پشاورکے اسکول پر حملے پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ جو اہل قلم ہیں ان کے قلم درد اگل رہے ہیں۔ آنکھیں ہیں اشکبار، دل لہو لہو ہے۔ اب قلم نوحوں کے علاوہ کچھ لکھنے کو تیار ہی نہیں۔ طالبان جوکہ سالوں سے دہشت کی علامت ہیں، اب ان کے کئی گروپ بن چکے ہیں۔ اب حالات یہ ہیں کہ جو امن کی صدا بلند کرتے تھے وہ سمٹتے جا رہے ہیں اور دہشتگردوں کے گروپ بڑھتے جا رہے ہیں مختلف ناموں سے مختلف چہروں سے وہ لوگ ہر ملک، ہر خطے، ہر علاقے میں راج کر رہے ہیں۔

پشاور کے المناک سانحے پر پورے ملک کے لوگ چلا اٹھے۔ بنا کسی سیاسی سپورٹ، بنا کسی سماجی تنظیموں کے بلاوے کے لوگ بیقرار ہوکر راستوں میں نکل آئے، طالبان کے خلاف شدید نفرت کا اظہار کرنے لگے۔ معصوم بچوں کا خون اتنا زیادہ ہے کہ نہ وہ سوکھ رہا ہے نہ وہ اپنا رنگ چھوڑ رہا ہے۔ اس خون کی مہک میں بیشمار ماؤں کے آنسو شامل ہیں جوکہ اس کو سوکھنے نہیں دے رہے۔ دیس کی کروڑوں مائیں آج خون کے آنسو رو رہی ہیں۔ انسانیت، محبت اور درد کے رشتے الگ ہوتے ہیں اور سیاسی داؤ پیچ کے راستے الگ ہوتے ہیں۔ جب 9 جون کو ایئرپورٹ پر طالبان نے حملہ کیا تھا تب بھی پوری قوم سراپا سوال تھی کہ حفاظت کرنیوالے کہاں گئے؟ یہ طالبان ہتھیاروں اور بھاری بھرکم تھیلوں سمیت کیسے ایئرپورٹ میں داخل ہوگئے؟ پشاور اسکول پر حملے پر بھی ہزاروں سوال ہیں جوکہ غم کے بوجھ تلے دب چکے ہیں۔

کل APC ہوگی جس میں اہم فیصلے کیے جائینگے۔ اس میں دہشت گردوں کے خلاف کونسل جوڑنے پر غور ہوگا۔ فوجی عدالتوں کے قیام پر غور ہوگا اور افغان پناہ گزینوں کی واپسی پر سفارشات تیار کی جائیں گی۔ وطن کے خیرخواہ لازمی طور پر وطن کے لیے اچھا ہی سوچیں گے۔ کیمپوں کی باگ ڈور ان ہی کے ہاتھوں میں ہے۔ عوام کا کام صرف اور صرف واویلا اور ماتم کرنا تھا۔ آج دیس کا چپہ چپہ موم بتیوں کی مدھم مدھم روشنیوں سے جگمگا رہا ہے۔ بچے، بوڑھے، خواتین، مرد ہر کوئی اپنے درد کا دیا جلاکر پریس کلب پر شمعیں، کہیں راستوں میں، کہیں اسکولوں کے سامنے رکھتے جاتے ہیں کروڑوں دیے ٹمٹما کر انصاف کے طلبگار ہیں، شاید یہ مدھم روشنی ان ماؤں کے دل کے اندھیرے دور کرسکے جن کی آنکھوں کے نور ان سے چھین لیے گئے۔کچھ دن پہلے یہی عام لوگ، دکھ کے مارے لوگ اسلام آباد میں لال مسجد کے سامنے احتجاج کر رہے تھے کیونکہ لال مسجد کے سربراہ کا نام طالبان نے مذاکراتی کمیٹی میں جو دیا تھا پھر ہوا یہ کہ ان لوگوں پر ایف آئی آر کاٹی گئی۔ عوام کے مسلسل احتجاج اور دھرنوں سے تنگ آکر بالآخر پولیس نے مولانا کے نام پر بھی ایف آئی آر داخل کردی۔ لیکن گرفتار کرنے کی ہمت نہ کرسکے۔ آج ہر عام آدمی کا ذہن سوچتا ہے اور سوال پوچھتا ہے کہ آخرکار یہ طالبان کس طرح اپنے لوگ ہر جگہ شامل کرچکے ہیں۔

آخر کار طالبان نے ان پر بھروسہ کیوں کیا؟ جمہوری دور حکومت میں طالبان ریاست کے اندر اپنی ریاست بنانا چاہتے ہیں۔ ان کے قانون اپنے ہیں جوکہ صرف ان کے اپنے بنائے ہوئے ہیں۔ طالبان کے پاس صرف مذہب کا برقعہ ہے، مذہب کو ڈھال بنا کر وہ لوگ ہمیں مار رہے ہیں۔ یہ بات اب عالم آشکار ہوچکی ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ کتنے طالبان بھیس بدل کر ہمارے اداروں میں شامل ہوچکے ہیں؟ اور ان کو شاید ہم جان بھی چکے ہیں۔ کیا ان کو نکالنے کا حوصلہ ہم میں ہے؟ ان چھپے ہوئے طالبان کو نکالنے کا حوصلہ حکومت وقت میں ہے؟ جب تک ہم چھپے ہوئے طالبان کو نہیں نکالیں گے وہ اسی طرح خنجر ہمارے کلیجوں میں اتارتے رہیں گے۔ جن تنظیموں پر پابندی عائد ہوچکی ہے ان کے لوگ بھی دندناتے پھر رہے ہیں جس طرح ٹڈی دل آناً فاناً فصلوں کا صفایا کردیتے ہیں اسی طرح یہ دہشتگرد ہماری نسلوں کا خاتمہ کر رہے ہیں۔ کراچی میں اسلامیہ کالج کے سامنے وومن ایکشن فورم، جوائنٹ ایکشن کمیٹی، عورت فاؤنڈیشن، سیکولر فورم اور بہت ساری تنظیموں کا بہت بڑا احتجاج ہوا، ریلی نکالی گئی، لیکن ہمارے دکھ اور احتجاج کی حدیں مقرر تھیں۔حیرت ہے کہ نہتے لوگ تو کسی سیاسی جماعت کے آفس میں نہیں جاسکتے لیکن ہتھیار بند کہیں بھی پہنچ جاتے ہیں۔ وہ جو دور سے پہچانے جاتے ہیں۔

عین ٹائم پر شاید کوئی جادوئی ٹوپی پہن لیتے ہیں۔ ہاں! وہ یہی ہیں جو سلیمانی ٹوپی پہنے ہوئے ہمارے بیچ بیٹھے ہیں۔ وہ ہاتھ پکڑ کر ہم سے سارے اپنے فائدے کے کام بھی کروا لیتے ہیں وہ بولتے ہیں ہم سنتے ہیں۔ ہم ڈرتے ہیں لیکن ہم ان پر ہاتھ نہیں اٹھاسکتے کیونکہ وہ نظروں سے اوجھل ہیں۔ سول سوسائٹی کا مظاہرہ ختم ہونے پر دو لوگ سفارشات پیش کرنے کچھ آگے بڑھے لیکن انھوں نے کاغذ لینا گوارا نہ کیا۔ چند شمعیں پھر روشن ہوئیں۔ دہشتگردی کے خاتمے کی التجائیں بلند ہوئیں۔ مدرسوں سے دہشت کے خاتمے کے نعرے لگے اور بس! اب ہم سے برداشت نہیں ہوتا۔ ختم کرو یہ خون اور آگ کا کھیل۔ بہت ہوچکا ظلم اور بربریت کا ناچ۔ سویا ہوا انصاف اور امن جب تک جاگیں گے،آخر ہم کب تک ڈرے چھپے گھروں میں بند رہیں گے طالبان کی دھمکیوں کے باوجود اسکول کھلیں گے بچے پڑھیں گے یہ بات کسی کو نہیں معلوم کہ معصوم بچے جو اس حادثے سے بچ گئے ان کے ذہن کس طرح تعلیم حاصل کرتے ہیں؟ جن بچوں نے اس سانحے کو محسوس کیا ہے وہ اس خوف سے کب اور کیسے نکلیں گے۔

کیا اس کے لیے بھی کوئی کمیٹی یا ٹیم تشکیل دی جاسکتی ہے؟ ’’وہ جو بچوں سے بھی ڈر گئے‘‘ اور وہ جو چھوٹے چھوٹے بچوں کو مارتے ہیں۔ جنھوں نے آج پورے ملک کو یرغمال بنایا ہوا ہے ان کے لیے ہمدردی کے جذبات کیونکر ہوسکتے ہیں۔ انسانیت کے دشمن، انسانیت کے قاتلوں کی حمایت کرنیوالوں کے لیے کیا کہا جاسکتا ہے۔ دہشتگرد صرف دہشتگرد ہیں۔ ان میں اچھائی یا برائی کی تعریف نہیں کی جاسکتی۔ کوئی بم سے مارتا ہے کوئی گولی سے مارتا ہے کوئی خنجر سے ذبح کرتا ہے، کوئی صرف ایک گولی مارتا ہے تو کوئی پورا برسٹ سینوں میں اتارتا ہے ، کوئی ڈنڈے سے مارتا ہے، کوئی تیزاب پھینکتا ہے، کوئی لاش سلامت چھوڑتا ہے تو کوئی جسم کو ٹکڑوں میں تبدیل کردیتا ہے، زندگی تو گئی ناں؟ پھر کیا فرق ہے؟ طالبان گروپ کے اندر؟ مقصد تو ایک ہی ہے۔ آج قوم یہ توقع کر رہی ہے کہ یہ واقعہ دہشتگردی کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو۔ قوم اپنے رہنماؤں سے کسی بہتر لائحہ عمل کی توقع کر رہی ہے۔ شاید ہم نہیں جانتے اپنے ’’اختیارات‘‘ اور ’’حد‘‘ سے بڑھ کر کوئی عمل نہیں کرسکتے۔ ہم کیا جانیں کہ بچانے والوں کی ’’حد‘‘ کیا ہے۔ ہم تو صرف مارنے والوں کی حد جان چکے ہیں جوکہ موت سے شروع اور موت پر ہی ختم ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔