اصطلاحات کی اصلاح

نعمان احمد انصاری  پير 29 دسمبر 2014

سانحہ پشاور،ایک ایسا واقعہ ہے جو ظلم اور بربریت کی صورت میں جدید دنیا میں ایک خوفناک تاریخ رقم کر گیا ہے۔اس واقعے نے جہاں دنیا بھر کی ماؤں کو رونے پر مجبور کر دیا وہیں ہمیںیہ بھی بتا دیا کہ ہماراموجودہ دشمن کتنا واضح طور پر ہمارے سامنے موجود ہے۔اس نے ہمارے معصوم بچوں کو اس طرح نشانہ بنایا کہ ہم پر واضح کر سکے کہ تم…تم کیا ہو …؟اور تمہاری حیثیت کیا ہے؟ کچھ نہیں!۔۔۔آرمی پبلک اسکول پشاور میں جو دہشت گرد داخل ہوئے تھے وہ اس روئے زمین پر سب سے بد ترین انسان تھے، جنہوں نے رسول عربی ﷺ کے اصول حربی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے معصوم بچوں کو نشانہ بنایا  جو اسی آخری رسول کے امتی تھے جس کے داعی ہونے کا طالبان دعویٰ کرتے ہیں۔

ہر وہ سردار، رہنمایا افسر اور اس کے رفقاء و ہمراہی و جنگجو سپاہی جنہوں نے دین و دنیا کی تعلیم حاصل کرنے والے معصوم مسلمان بچوں کو ناحق قتل کیا خواہ اس کا کوئی بھی سبب ہو وہ سب کے سب انسانیت کی توہین ہیں، ایسے انسانوں کی سزا صرف موت ہی ہے لیکن موت بھی اس گناہ اور قبیح ترین فعل یعنی معصوموں کے قتل کی کیفیت کو کبھی بھی ختم یا کم بھی نہیں کر سکتی۔ اس تعلیمی ادارے میں داخل ہونے والے فدائیوں نے ہمارے دین کا لبادہ اوڑھا ہوا تھا ۔وہ اسلام زندہ باد اور اللہ اکبر کے نعرے لگا کر اپنے حرام فعل اور ارادوں پر اسلام کا پردہ ڈال رہے تھے تاکہ ان کے دیگر وحشی ساتھی بعد میں بھی یہ کھیل اس  پردے میں جاری رکھ سکیں۔ افغانستان کے پانی کی ایک خاص بات ہے ، یہاں کے پانی میں خواہ کتنی ہی اسلامیت اور روایت پسندی اورمسلمان بھائیوں کی عزت اور رواداری موجود ہو تاہم اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ غداری اور سفاکیت بھی اسی پانی کی نمایاں خصلتیں ہیں۔یہ دو ایسی خصلتیں ہیں جو پیسوں کے عوض کسی بھی ملک کو بیچی جاتی ہیں اور پھر اپنے ہی بھائیوں کا قتل عام اور ان کی عزتوں سے کھیلنا کوئی انہونی بات نہیں ہوتی۔

افغانستان کے لوگوں کی فطرت کچھ ایسی ہے کہ ان پر جب تک سخت ترین جزا و سزا کا نظام نافذ نہ کیا جائے اس وقت تک یہاں ہمیشہ سے اکثریت میں موجود  وحشی صفت سفاک انسانوں یا گروہوں پر قابو پانا آسان نہیں ہوتا۔اس زمین کی مسلم تاریخ اٹھائیں تو پتہ چلے گا کہ جب بھی کسی راست مسلم حکمران نے یہاں حکومت کی اور اسلام کے بنیادی فطری نظام کے مطابق جزا و سزا کا قانون نافذ کیا اور انصاف کی کہی ، اس وقت تک یہاں امن قائم رہا ۔تاہم جیسے ہی اس ملک میں انتشار پھیلا اور اسلامی طرز نظام کا خاتمہ ہوا ویسے ہی نہ صرف یہ ملک اپنے شہریوں کے لیے بدترین ہو گیا بلکہ اس کے پڑوسی ممالک بھی اس کی درندہ صفت فطرت سے بری طرح متاثر ہوئے۔سانحہ پشاور کی صورت میں بہرحال ہمیں یہ معلوم ہو گیا ہے کہ ہمارا دشمن نمبر ایک کون ہے اور پراکسی وار میں وہ کتنا موثر کن ہے۔

اس نے ہمیں بتادیا کہ جس افغانستان کے اس وقت ہم پڑوسی ہیں وہ محض برائے نام اسلام کا نام لیوا ہے، کیونکہ اسی افغانستان میں وفاداریاں بِک رہی ہیں اور جب تک ایک بھی خوارج یہاں موجود ہے، ہماری مغربی سرحد اسی طرح غیر محفوظ رہے گی ۔حضرت علیؓ کے دور خلافت میں ایک فتنہ ایسے لوگوں کی صورت میں اٹھا تھا ۔اس فتنے نے آس پڑوس کے مسلمان علاقوں کے لوگوں کو خوب خوب گمراہ کیا تھا۔اس فتنے کی گمراہی ایسے وقت میں پھیلی تھی جب ایک اسلامی خلافت موجود تھی۔  اس وقت روم اور دیگر غیر مسلم قومیں باوجود اپنے اندرونی انتشار کے اس فتنے کا خوب استعمال کر رہی تھیں۔مسلمانوں کے خلاف مسلح مسلمانوں کا یہ گروہ باقاعدہ بھاری رقم وصول کر کے اسلامی رہنماؤں کا قتل عام کر رہا تھا۔

حضرت علیؓ کے حکم پر اس فتنے کے خلاف جہاد کیا گیا اور انھیں یکے بعد دیگرے قتل کیا گیا۔ ان میں سے چند لوگ جو بچے ان میں سے کسی نے مشرقی افریقہ کی جانب فرار اختیار کیا تو کسی نے دوسری سمت۔۔۔آج بھی مسلم امہ کو وہی فتنہ درپیش ہے۔پریشانی یہ ہے کہ جہاں لوگ اس گروہ کے فتنہ ہونے اور اس کے خاتمے کی حمایت کرتے ہیں وہیں دوسری جانب دائیں بازو کی کچھ جماعتیں اس گروہ کے خلاف کارروائی کو مغرب کی مجاہدین پر حملہ تصور کرتی ہیں۔ یہی وہ کشمکش ہے جو پاکستانی قوم کو اس ایشو پر کھبی ایک نہیں ہونے دے رہی تھی۔

دراصل ہمیں کبھی اس مسئلے پر تذبذب کا شکار ہونے کی ضرورت نہیں تھی۔یہ مسئلہ تھا اس نام کا جو آج سے کم و بیش سولہ سترہ برس قبل مغرب نے افغانستان میں لڑنے والے ایک افغان گروہ کے لیے تجویز کیا  اور پھر مغربی میڈیا میں یہ نام اس افغان گروہ کا تعارف بن گیا۔ افغانستان میں امن کے قیام اور جرائم کے خاتمے میں جب طالبان نے حیرت انگیز کامیابیاں حاصل کیں اور شریعت کو ریاست کا ضابطہ بنانے کی کوشش کی تو امریکا، برطانیہ کی ہمراہی میں یورپ نے اسے سخت ناپسند کیا۔  ایک وقت ایسا آیا کہ جو طالبان نہیں بھی تھے انھیں بھی طالبان بنا لیا گیا یا سمجھا اور پکارا جانے لگا۔ یہ اصطلاح دراصل مغربی استعمار کے خلاف جدوجہد کے ساتھ ساتھ اسلامی نظام ریاست کی جستجو کی علامت سمجھا جانے لگی۔

اس اصطلاح کا مغرب میں  تو  اندھا استعمال ہوا ، اور پھر ایک وقت ایسا بھی آیا جب یہ اصطلاح افغانستان میں روپے پیسے، وسائل اور اسلحے کی لین دین اور دھندے کا ذریعہ بن گئی۔ غدار اور سفاک وارڈ لارڈز پیسے اور اسلحے کی خاطر خود کو طالبان گردانتے رہے اورعالمی خفیہ ایجنسیوں کی بدولت  خاص طور پر پاکستان کے خلاف ہو گئے۔ان کی پاکستان دشمنی کی بناء پر بھارت کو شہ ملی اور اس کی پراکسی وار پاکستان کے خلاف حد درجہ مستحکم ہو گئی۔ 2008سے اب تک 80فیصداندرون ملک دہشت گردی کے واقعات کا تسلسل دراصل بھارتی پراکسی وار کا غماز ہے جو اس نے افغانستان کی کمین گاہوں میں چھپے پاکستان مخالف عناصر کو استعمال کرکے جاری رکھا ہوا ہے۔ اس صورتحال کا واحد شکار پاکستان اور اس کے عوام اور فوج بنے۔

اب صورتحال یہ رہی ہے کہ جب دائیں بازو کے لوگ طالبان سے مذاکرات کی بات کرتے تو بائیں بازو کے لوگ مخالفت کرتے ۔اسی طرح بائیں بازو کی تنقید کو دائیں بازو کی جماعتیں غیر اسلامی گرداننے میں کھبی اغماض نہیں برتتیں۔  اس مسئلے کا حل اب بھی بہت سیدھا سادا ہے۔  تمام مسلح جتھے، گروہ یا گروپ فوری طور پر با اعلان خود کو اس اصطلاح ’طالبان‘ سے دور کرلیں یا پھر  خود کو گمنامی میں تحلیل کرلینے کے ساتھ ساتھ ہتھیار نہ اٹھانے کا تہیہ کرلیں۔ ویسے بھی غدار سرزمین طالبان نے پشاور کے آرمی اسکول میں معصوم بچوں کو قتل کر کے نہ صرف اس بات کا ثبوت دیدیا ہے ان کا اللہ اور اس کے رسولﷺسے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔

انگریزی میں کہا جاتا ہے، ’’Everything happen for reasons‘‘ اس لیے جو کچھ ہوا ہے وہ قدرتی طور پر بڑا فیصلہ کن ہو گیا ہے۔جہاد کی حمایتی جماعتوں کو بھی مذہبی جذباتیت کو چھوڑ کر اب دینی بلوغت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔  اللہ کی راہ میں جدوجہد  صرف تلوار یا اسلحے سے ہی نہیں بلکہ آپ کے مال و متاع ، آپ کے جذبات، آپ کے قلم، آپ کی کوششوں کی قربانیوں سے بھی کی جانی چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔