پی سی بی میں اختیارات کا ’’ورلڈکپ‘‘

سلیم خالق  منگل 30 دسمبر 2014
کھلاڑی ہو یا آفیشلز سب ایک دوسرے کے خلاف کام کرتے رہتے ہیں مگر میڈیا کے سامنے ایسے بن جاتے ہیں جیسے ان سے اچھا دوست کوئی ہے ہی نہیں،

کھلاڑی ہو یا آفیشلز سب ایک دوسرے کے خلاف کام کرتے رہتے ہیں مگر میڈیا کے سامنے ایسے بن جاتے ہیں جیسے ان سے اچھا دوست کوئی ہے ہی نہیں،

اگر ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کا ورلڈکپ ہو تو اس وقت پاکستان لازمی چیمپئن بن جائے، چاہے کھلاڑی ہو یا آفیشلز سب ایک دوسرے کے خلاف کام کرتے رہتے ہیں مگر میڈیا کے سامنے ایسے بن جاتے ہیں جیسے ان سے اچھا دوست کوئی ہے ہی نہیں،آسکر والے نجانے کیوں انھیں ایوارڈ نہیں دیتے۔

یہ تاریخی جملے ایک سابق ٹیسٹ کرکٹر نے مجھ سے کہے  مگر میں ان کا نام اس لuے نہیں لکھ رہا کہ حال ہی میں انھیں پی سی بی میں ملازمت ملی ہے کہیں وہ نہ چھن جائے، قارئین کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں، البتہ حقیقت یہی ہے کہ ملک میں کرکٹ کے معاملات ان دنوں افراتفری کا شکار ہیں، ورلڈ کپ اب تھوڑے ہی فاصلے پر ہے، اس وقت تمام ممالک اپنی تیاریوں کو حتمی شکل دے رہے ہیں، مگر ہمیں یہی نہیں پتا کہ کون کھیلے گا اور کون نہیں۔

کپتان مصباح الحق بدستور انجرڈ مگر بورڈ کی ہر حال میں کوشش ہے کہ انھیں جیسے بھی ہو آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ بھیجا جائے،40 سال کی عمر میں کسی بڑی انجری سے فوری نجات اور پھر دوبارہ میدان میں اترنا آسان نہیں ہوتا مگر مصباح کوشش جاری رکھے ہوئے ہیں، ہمیں بھی اچھے کی امید رکھنی چاہیے، اسی طرح شاہد آفریدی کو اتنا بددل کر دیا گیا ہے کہ وہ میگا ایونٹ کے بعد کرکٹ ہی چھوڑنے کا اعلان کرچکے، کئی سفارشی کھلاڑیوں کا متواتر انتخاب کیا جا رہا ہے۔

ہر سلیکٹر ملک نہیں بلکہ اپنے ایک، 2 مخصوص کھلاڑیوں کا سوچتا ہے، اگر وہ منتخب کر لیے جائیں تو دیگر پر اسے کوئی اعتراض نہیں ہوتا، میں فی الحال یہاں نام نہیں لکھ رہا لیکن گذشتہ چند سیریز کے دوران بعض ایسے کھلاڑی بھی پاکستانی اسکواڈ میں شامل ہوئے جن سے کئی گنا اچھے پلیئرز بھی ڈومیسٹک کرکٹ میں موجود ہیں مگر سفارش نہ ہونے کی وجہ سے موقع نہیں ملا، قومی ٹیم تو درکنار صوبائی اسکواڈز کے انتخاب میں بھی اقربا پروری عروج پر ہے۔

ایک اعلیٰ عہدیدار کا بھانجا کچھ نہ کرنے کے باوجود کینیا کے خلاف بھی کھیل گیا مگر ڈر کے مارے کسی نے آواز نہ اٹھائی، اب جب نیتوں میں اتنا فتور ہو تو کوئی ٹیم کیسے جیت سکتی ہے، اسی وجہ سے رواں سال صرف 6 ہی ون ڈے میچز میں فتح نصیب ہوئی، اب ورلڈکپ آ رہا ہے تو میں پہلے سے آپ کو بعد کے چند متوقع بیانات بتا رہا ہوں۔

٭ہمارا ہدف 2019 کا ورلڈ کپ ہے، نئی ٹیم تب تک سیٹ ہو جائے گی، شہریارخان

٭کوشش بڑی کی مگر نہ جیت سکے، اب صرف ٹیسٹ کھیلوں گا، مصباح الحق

٭ بہترین دستیاب پلیئرز کا انتخاب کیا مگر بدقسمتی سے کارکردگی اچھی نہ رہی، معین خان

٭ قوم ہمت نہ ہارے جلد ٹیم قدموں پر کھڑی ہوجائے گی، وقار یونس

ویسے اگر حقائق کا جائزہ لیا جائے تو ون ڈے رینکنگ میں ہماری ٹیم ساتویں نمبر پر ہے، اس سے زیادہ توقعات رکھنا بھی مناسب نہ ہوگا، اس کے باوجود دل سے کوشش تو کرنی چاہیے مگر افسوس بورڈ میں ابھی خود اختیارات کے لیے ورلڈکپ جاری ہے،80 سالہ شہریارخان جب چیئرمین بنے تو یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ وہ نجم سیٹھی کے زیراثر رہیں گے، مگر انھوں نے قدم جماتے ہی اپنی مرضی کے اسٹروکس کھیلنا شروع کر دیے۔

معین خان کا تقرر سابق چیئرمین نے کیا تھا مگر شہریارخان نے انھیں صرف چیف سلیکٹر رکھنے کا بڑا قدم تن تنہا اٹھا لیا، چیئرمین نے سعید اجمل کے معاملے میں بھی بعض فیصلوں سے دیگر اعلیٰ آفیشلز کو لاعلم رکھا، اسپنر نے انگلینڈ میں قیام بڑھانے اور غیررسمی ٹیسٹ جیسے کئی فیصلے شہریارخان کو براہ راست فون کر کے کیے، حالانکہ کرکٹ کمیٹی انھیں فوراً وطن بلانا چاہتی تھی، بورڈ کے لئے چیئرمین کا سب سے بڑا مسئلہ میڈیا میں حد سے زیادہ آنا ہے، روزانہ انٹرویوز دینے سے وہ کوئی ایسی بات کہہ جاتے ہیں جس سے ان کے ساتھیوں کو مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

سعید اجمل کے ورلڈکپ سے باہر ہونے کی بات بھی ان کے منہ سے نکل گئی ورنہ اصل پلان ثقلین مشتاق اور محمد اکرم سے پریس کانفرنس کرانے کا تھا، بورڈ میں ویسے ہی اب کئی ترجمان ہو چکے ہیں، گورننگ باڈی کے رکن شکیل شیخ اکثر اپنے صحافتی ادارے کے کسی ٹی وی چینل پر بیٹھ کر پالیسی بیانات دیتے نظر آتے ہیں۔

میڈیا ڈپارٹمنٹ میں بھی اس وقت ایک جنگ کی سی کیفیت ہے جس کی تفصیلات سے اگلے کالم میں قارئین کو آگاہ کروں گا، فی الحال تو درست خبروں کو بھی غلط کرایا جا رہا ہے، جیسے معین خان کی بطور منیجر برطرفی کی جب گذشتہ دنوں اطلاعات سامنے آئیں تو ایک آفیشل نے کئی اخبارات و ٹی وی چینلز کو فون کر کے کہا کہ ایسا کچھ نہیں ہو رہا، چیمہ تو چیف ڈی مشن ہوں گے، بعد میں یہ بات غلط ثابت ہوئی، اب اگلی بار کون ان کی بات پر بھروسہ کرے گا؟ اس وقت بورڈ میں جو کھچڑی پک رہی ہے اس کا یقیناً ٹیم پر بھی اثر ہوگا۔

معین خان کو جب برطرف کر دیا تو اب ورلڈکپ میں بھیج کر لاکھوں روپے خرچ کرنے کی کیا تک ہے، ڈبل عہدے پیسے بچانے کیلیے ختم کر رہے ہیں ناں،مگر اس کیس میں تو معین سے ایک عہدہ واپس لے کر چیمہ کا تقرر ہوا اور دونوں آسٹریلیا و نیوزی لینڈ جائیں گے، اس سے کیسے رقم بچے گی؟معین سابق کپتان رہے ہیں، پہلے انھوں نے اشارہ دیا کہ اگر ایک عہدہ چھینا گیا تو دوسرا بھی چھوڑ دیں گے مگر پھر مان گئے،کم از کم انھیں ٹور پر جانے سے تو انکار کرہی دینا چاہیے تھا، مفاد ٹکرانے پر بڑے بڑے دوست بھی دشمن بن جاتے ہیں۔

وقار یونس اور مصباح الحق بھی اس فیصلے سے خوش نہیں ہوں گے، وہ پلیئنگ الیون کا انتخاب خود کرنا چاہتے ہیں مگر یہاں سے معین کو بھیجا جا رہا ہے، ان کی برطرفی کا بڑا سبب پلیئرز کو حد سے زیادہ ڈھیل دینا تھا، رات گئے ہوٹل سے باہر ڈنرز وغیرہ میں مصروف رہنا معمول بن گیا تھا، ظاہر ہے اب بورڈ میڈیا میں آ کر یہ اندر کی باتیں تو نہیں بتائے گااس لیے ڈبل رول کی آڑ میں خاموشی سے انھیں باہر کر دیا گیا۔

حکام جانتے تھے کہ ان کی نرمی کا اگر ورلڈکپ میں کسی کھلاڑی نے ناجائز فائدہ اٹھایا تو مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، اسی لیے خاموشی سے منیجر کی پوسٹ واپس لے لی،انھوں نے کئی کھلاڑیوں کو کپتانی کے بھی خواب دکھا دیے اس سے بھی مسائل ہونے لگے تھے، شاید بطور چیف سلیکٹر بھی وہ آخری بار ورلڈکپ اسکواڈ کا انتخاب کریں گے کیونکہ اس کے بعد جو طوفان آنا ہے وہ بڑوں بڑوں کو اڑا کر لے جائے گا۔

آخر میں قارئین کا شکریہ کہ انھوں نے شاہد آفریدی کے بارے میں گذشتہ کالم کو بیحد پذیرائی بخشی، فیس بک کے ایکسپریس نیوز پیج پر تقریباً 38 ہزار لائیکس آپ کی پسند کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔