(پاکستان ایک نظر میں) - میرے ہی لہو پر گزر اوقات کرو ہو!!

رضا ہاشمی  منگل 30 دسمبر 2014
ملک صاحب جس بی بی کے فیض سے 5 سال حکومت کے مزے لیے مگر آپ نے بی بی کے انصاف کے لیے کچھ نہ کیا۔ اوراب آپ سپریم کورٹ سے کیس کو جلد نمٹانے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ کیا آپ یہ مطالبہ کرنے کے اہل ہیں؟؟ خود سے ضرور پوچھیے گا، وگرنہ قوم بخوبی واقف ہے۔ فوٹو: ایکسپریس

ملک صاحب جس بی بی کے فیض سے 5 سال حکومت کے مزے لیے مگر آپ نے بی بی کے انصاف کے لیے کچھ نہ کیا۔ اوراب آپ سپریم کورٹ سے کیس کو جلد نمٹانے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ کیا آپ یہ مطالبہ کرنے کے اہل ہیں؟؟ خود سے ضرور پوچھیے گا، وگرنہ قوم بخوبی واقف ہے۔ فوٹو: ایکسپریس

پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر اور پاکستان کے سابق وزیر داخلہ رحمٰن ملک صاحب نے بے نظیر بھٹو کی برسی سے ایک روز قبل پریس کانفرنس میں سپریم کورٹ سے استداعا کرتے ہوئے کہا کہ بے نظیر بھٹو قتل کیس کی سماعت روزانہ کی بنیا د پر کی جائے تا کہ بے نظیر بھٹو کے قاتل سامنے آسکیں ۔ اس سلسلے میں حکومت کو بھی انہوں نے اپنے رہنما مشوروں سے نوازا۔

مجھے ملک صاحب کی یہ پریس کانفرنس سن کر یہی لگا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی برسی پر روایتی تعزیتی پیغام کی جگہ رحمان ملک صاحب نے ازراہ تنوع اس بار بی بی کے قاتل جلد بے نقاب کرنے کا مطالبہ کر ڈالا ورنہ حقائق کو سامنے رکھا جائے تو ملک صاحب شاید یہ بات کرنے کے اہل ہیں  ہی نہیں ۔ معاملہ کچھ یوں ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کو 27 دسمبر 2007  کو شہید کر دیا گیا ۔  انکے قتل کا مقدمہ درج ہوا اور اسکے بعد آج تک اس مقدمے کی تقریبا 200 کے قریب سماعتیں ہو چکی ہیں جس میں کہ ایف آئی اے نے ستمبر  2012کو اپنی طرف سے آخری چالان عدالت میں جمع کروایا اور اس مقدمے میں آٹھ افراد پر فرد جرم عائد کر دی گئی۔

جن اہم ملزمان پر فرد جرم عائد کی گئی ان میں پاکستان کے سابق فوجی صدر پرویز مشرف ،اس وقت کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف پولیس سعود عزیز اور ایس ایس پی خرم شہزاد شامل ہیں جن کی ٹھوس شواہد نہ ملنے پر  ضمانت ہو چکی ہے۔ جبکہ باقی ملزمان پچھلے تقریبا سات سال سے قید ہیں اور انکی ضمانتوں کی درخواستیں مسترد ہوچکی ہیں ۔

2008 کے انتخابات کے نتیجے میں  پیپلز پارٹی برسر اقتدار آئی ۔ موصوف رحمان ملک صاحب ملک کے وزیر داخلہ بنے ۔ محترمہ کی شہادت اس ملک کا نقصان  تو تھا ہی مگر پیپلز پارٹی تو بی بی کی براہ راست وارث تھی ۔ امید تو یہی تھی کہ بی بی کی اپنی حکومت اُن کے قاتلوں کو ضرور ڈھونڈ نکالے گی مگر ایسا نہ ہوا۔ رحمان ملک صاحب بے نظیر قتل کیس میں مشرف کا نام ڈلوانے کے لیے اس وقت سرگرم ہوئے جب  وہ  ملک سے باہر جا چکے تھے ۔ انہوں نے مشرف کے باہر جانے کے بعد انٹر پول سے بھی رابطہ کیا مگر انٹر پول نے معذرت کر لی۔ اسکے بعد بے نظیر قتل کیس کی تحقیقت اقوام متحدہ سے کروائی گئی جس پر قوم کے کروڑوں ڈالر خرچ کیئے گئے مگر نتیجہ وہی صفر۔

یہ رحمان ملک صاحب کہ جن کو اُس وقت اقتدار حاصل تھا  مگر اِس کے باوجود بھی اقوام متحدہ کے تفتیش کاروں کو کیس کی  مختلف معلومات  تک رسائی نہ دلوا سکے نتیجتاً تفتیش بے معنی رہی  اور عدالت نے ٹھوس ثبوت نہ ہونے کی بنا پر پرویز مشرف کو رہا کر دیا ۔

اور چھوڑیئے ، ریکارڈ سے واضح ہے کہ جب تک محترمہ کی اپنی پارٹی کی حکومت  میں رہی عوام شور کرتی رہی، پوچھتی رہی کہ آخر وہ کیا مسئلہ ہے کہ بی بی کے قاتلوں کو پکڑا نہیں جارہا  اس کیس کی  عدالتی تحقیقات مکمل کرنے کے لیئے کبھی درخواست دائر ہی نہیں کی گئی اور پھر ایف آئی اے نے بھی اس مقدمے پر کوئی کام نہیں کیا ۔ اور اب جا کر رحمان ملک یہ کہ رہے ہیں کہ بے نظیر قتل کیس کی سماعت روزانہ  کی بنیادوں پر کی جائے ۔

جناب ملک صاحب آپ نے جس بی بی کے فیض سے 5  سال حکومت کے مزے لیے مگر آپ نے اسی حکومت میں ہوتے ہوئے اُسی بی بی کے انصاف کے لیے کچھ نہ کیا ۔ آپ کو تو عدالتی تحقیقات مکمل کروانے کا خیال بھی حکومت کے بعد آیا ؟ آپ کی حکومت ہوتے ہوئے استغاثہ ملزمان کے خلاف شواہد اکھٹے کرنے میں ناکام رہا! آپ کے ماتحت ایف آئی اے کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکی آپ نے قوم کا پیسہ خرچ کیا اورپھر بھی تفتیش نہ کر واسکے ؟؟ اور اس کیس کو صرف سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے اپنے شوکیس میں سجا لیا  اور اب آپ مطالبہ کر ہے ہیں کہ سپریم کورٹ یہ کیس روزانہ کی بنیاد پر سنے؟ کیا آپ یہ مطالبہ کرنے کے اہل ہیں ؟؟ خود سے ضرور پوچھیئے گا ،وگرنہ قوم بخوبی واقف ہے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔