کراچی کے بعد لاہور میں بھی آتشزدگی کا واقعہ

ایڈیٹوریل  منگل 30 دسمبر 2014
کراچی اور لاہور میں تو آتشزدگی کے واقعات معمول کا حصہ بن گئے ہیں لیکن اس کے باوجود پنجاب اور سندھ حکومت نے آگ پر قابو پانے والے اداروں کی بہتری پر توجہ نہیں دی۔ فوٹو : اے ایف پی

کراچی اور لاہور میں تو آتشزدگی کے واقعات معمول کا حصہ بن گئے ہیں لیکن اس کے باوجود پنجاب اور سندھ حکومت نے آگ پر قابو پانے والے اداروں کی بہتری پر توجہ نہیں دی۔ فوٹو : اے ایف پی

کراچی میں ٹمبر مارکیٹ میں لگنے والی آگ ابھی پوری طرح بجھی بھی نہیں تھی کہ لاہور کے معروف تجارتی مرکز انار کلی میں ایک چار منزلہ پلازے میں آگ لگ گئی۔ کراچی اور لاہور میں ہونے والے آتشزدگی کے واقعات میں فرق یہ ہے کہ کراچی میں اربوں روپے کی قیمتی لکڑی اور قریبی گھروں کا سامان جل کر راکھ بن گیا جب کہ لاہور میں آتشزدگی سے 13 افراد جاں بحق ہو گئے جب کہ کروڑوں روپے مالیت کا سامان بھی جل گیا۔ کراچی کی طرح لاہور میں آتشزدگی کے واقعات پر حکومتی سطح پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے اور ایک انکوائری کمیٹی بھی بنا دی گئی ہے۔ آگ کیسے لگی؟ کیوں لگی ؟اس سوال سے قطع نظر دیکھنا یہ ہے کہ اسے بروقت بجھایا کیوں نہیں جا سکا؟ لاہور میں تجاوزات، ٹریفک کے رش اور تنگ گلیوں کے باعث امدادی ٹیمیں جائے وقوع پر بروقت نہ پہنچ سکیں، یوں13 انسان بے بسی کی موت مارے گئے۔

پاکستان کا یہ المیہ ہے کہ یہاں کسی بھی حکومت نے اپنے اصل کام پر توجہ نہیں دی۔ہر حکومت نے ڈنگ ٹپاؤ پالیسی اختیار کی ۔کسی نے قومی اور شہری ادارو ں کی بہتری،ترقی اور فعالیت پر توجہ نہیں دی۔ اس بے حسی، لاپرواہی اور بددیانتی کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج پاکستان کے شہری اور قومی ادارے بدترین زوال کا شکار ہیں۔ ان کی کارکردگی صفر ہو چکی ہے۔ ٹرانسپورٹ کا شعبہ ہو،مواصلات کا معاملہ ہو، شہری تعمیرات کا مسئلہ ہو،بلدیاتی ادارے ہوں،محکمہ فائر بریگیڈ ہو یا شعبہ صحت،کہیں بھی آپ کواچھائی یا بہتری نظر نہیں آئے گی۔حکومتوں کی یہ روش آج بھی جاری و ساری ہے۔

اب بھی وزیراعظم میاں نواز شریف اربوں روپے کے ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کر رہے ہیں، کہیں موٹرویز بنائی جا رہی ہیں، کہیں بجلی کے کارخانے قائم ہو رہے ہیں اور کہیں ڈیم بنانے کے منصوبے بن رہے ہیں، چاروں صوبائی حکومتیں بھی روزانہ اخبارات میں اپنی کارکردگی پر مشتمل بیانات چھپواتی ہیں۔ کہیں کسی قتل کا نوٹس لیا جا رہا ہے، کہیں پل بنائے جا رہے ہیں، کہیں انکوائری کمیٹیاں بنائی جا رہی ہیں لیکن حالت یہ ہے کہ سندھ میں تھر کے علاقے میں بھوک اور بیماری سے انسانی جانیں ضایع ہو رہی ہیں۔ کراچی جیسے میگا سٹی میں جرائم کی بھرمار تو ہے ہی لیکن اگر کوئی ناگہانی مصیبت آ جائے جیسے آتشزدگی وغیرہ تو حکومتیں اور شہری ادارے بے بسی کی تصویر بنے نظر آتے ہیں۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کی حالت اس سے بھی بدتر ہے۔

پنجاب میں لاہور میٹرو بس کا منصوبہ مکمل ہو گیا۔ لیکن حکومت کی حالت یہ ہے کہ انار کلی بازار میں لگنے والی آگ پر بروقت قابو نہ پایا جا سکا۔ کسی حکومت نے محکمہ فائر بریگیڈ کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے رقم مختص کرنے کا اعلان نہیں کیا۔ کراچی ہو یا لاہور یا ملک کا کوئی اور شہر جہاں بھی کوئی بڑی آتشزدگی ہوئی، اس پر بروقت یا مختصر وقت میں قابو نہیں پایا جا سکا۔ آگ اس وقت خود ہی بجھی جب جلنے کے لیے کچھ باقی نہیں بچا۔کراچی اور لاہور میں تو آتشزدگی کے واقعات معمول کا حصہ بن گئے ہیں لیکن اس کے باوجود پنجاب اور سندھ حکومت نے آگ پر قابو پانے والے اداروں کی بہتری پر توجہ نہیں دی۔ لاہور میں پلازہ میں جو آتشزدگی ہوئی، اس کے نتیجے میں کئی اموات دھوئیں کے باعث دم گھٹنے سے ہوئیں، اگر فائر بریگیڈ کے عملے کے پاس فائر پروف لباس ہوتا اور ان کے پاس آکسیجن موجود ہوتی تو کئی جانیں با آسانی بچائی جا سکتی تھیں لیکن افسوس ایسا نہیں ہو سکا۔ پاکستان میں ناگہانی آفات سے نمٹنے کے لیے محکمے تو موجود ہیں لیکن ان کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے۔

ہر سال سیلاب آتے ہیں،یہ سیلاب بیسیوں قیمتی جانوں کے ضیاع کا سبب بنتے ہیں اور اربوں روپے کا مالی نقصان کرتے ہیں لیکن سیلابی پانی کو کنٹرول کرنے کے لیے ابھی تک کوئی جامع منصوبہ نہیں بنایا جا سکا۔ زلزلوں سے نمٹنے کے لیے بھی کوئی میکنزم نہیں ہے۔ خیر یہ تو بڑی آفتیں ہیں،شہروں کے تجارتی مراکز اور پلازوں میں آگ لگ جائے تو اس پر قابو نہیں پایا جا سکتا ۔اس کی ذمے داری کس پر عائد ہوتی ہے،اس وقت  وفاق اور صوبوں میں جمہوری حکومت موجود ہے۔ کیا ان جمہوری حکومتوں کا یہ فرض نہیں ہے کہ وہ شہری اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے پر توجہ دیں۔

یہاں تو حالت یہ ہے کہ جمہوری حکومتیں ابھی تک بلدیاتی انتخابات ہی نہیں کرا سکیں۔ بلدیاتی ادارے بیوروکریسی کے کنٹرول میں چل رہے ہیں۔ارکان اسمبلی قومی خزانے سے اپنی مراعات لے رہے ہیں۔ان کی مراعات کا بل بھی اربوں روپے میں بنتا ہے حالانکہ یہ تمام حضرات انتہائی خوشحال ہیں لیکن وہ اپنی مراعات لینا نہیں بھولتے ۔یہ صورت حال انتہائی افسوسناک ہے کہ ملک کے کسی نہ کسی کونے میں روز کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ رونما ہوتا ہے جہاں جانی اور مالی نقصان سے بچا جا سکتا تھا لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ گڈگورننس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ادارے خواہ وہ مرکزی حکومت کے تحت ہوں،صوبائی حکومت کے تحت ہوں،اپنی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔