دہشت گردی اور ذرایع ابلاغ کا کردار

ڈاکٹر توصیف احمد خان  منگل 30 دسمبر 2014
tauceeph@gmail.com

[email protected]

وزیر اعظم نے دہشت گردی کے خلاف مہم کی خود قیادت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔سیاسی رہنماؤں اور فوجی افسروں کے اجلاس میں خصوصی عدالتوں کے قیام کا فیصلہ ہوا جو فوجی افسروں پر مشتمل ہوگی۔ وزیر داخلہ نے دہشت گردی کے تدارک کے لیے میڈیا کے کردار پر اطمینان کا اظہار کیا۔قومی اسمبلی کی اطلاعات اور نشریات کی قائمہ کمیٹی نے 46 تجاویز پر اتفاق کیا۔

ان تجاویز میں اور باتوں کے علاوہ اخبارات، ریڈیو اور ٹیلی وژن سے دہشت گردوں کے بیانات کو روکنے کے بارے میں تجاویز شامل ہیں۔کمیٹی کی سفارشات کی شق نمبر 2 میں کہا گیا ہے کہ ذرایع ابلاغ کسی صورت دہشت گردوں کے بیانات شایع اور نشر نہیں کریں گے ۔ اسی طرح شق نمبر 3 میں کہا گیا ہے کہ ذرایع ابلاغ دہشت گرد تنظیموں کی سرگرمیوں کی کسی طرح کوریج نہیں کریں گے۔کوریج میں ان رہنماؤں کے بیانات، تصاویر، وڈیو فلمیں اور فوٹیجز وغیرہ شامل ہیں۔

نائن الیون کی دہشت گردی کے بعد دنیا بھر کے ذرایع ابلاغ کے کردار میں تبدیلی آئی، خاص طور پر برطانیہ اور امریکا کے اخبارات ،ریڈیو اور ٹی وی چینلز نے نئے ضابطہ اخلاق کو اپنایا۔ اسی طرح ممبئی میں ہونے والی دہشت گردی کی کوریج پر بھی بحث مباحثے کے بعد بھارت کے ٹی وی چینلز نے ایک نئے ضابطہ اخلاق پر اتفاق رائے کیا۔ برطانیہ میں دہشت گردی کی کوریج کے حوالے سے خصوصی بحث ہوئی۔ ابلاغ عامہ کے ماہرین اور سینئر صحافیوں کا اس نکتے پر مکمل اتفاق ہوا کہ دہشت گردوں کی سرگرمیوں کے بارے میں کوریج میں حقائق کو نہیں چھپایا جائے گا مگر کسی بھی صورت دہشت گردوں کا اپنا پیغا م شایع یا نشر نہیں ہوگا ۔

جس سے ان کے مظلوم ہونے یا ہیرو بننے کا تاثر پیدا ہو۔ اسی طرح مسخ شدہ لاشوں کی تصاویر اور فوٹیج نہ تو شایع ہوں گی نہ ہی نشر کی جائیں گی۔ پھر دہشت گردی کے واقعات کی کوریج میں خصوصی احتیاط کی جائے گی۔ صحافیوں کی سیکیورٹی کو بہتر بنانے کے لیے ان کی خصوصی تربیت کی جائے گی اور سیکیورٹی پروٹوکول تیار کیے جائیں گے اور ہر ممکن کوشش کی جائے گی کہ جس علاقے میں دہشت گردوں نے کارروائی کی ہواس علاقے کو سیکیورٹی حکام جب تک کلیئر قرار نہ دے دیں وہاں کی براہِ راست کوریج نہیں ہوگی۔ ممبئی میں دہشت گردی کے سانحے کے وقت بھارتی ٹی وی چینلز کا کوئی ضابطہ اخلاق موجود نہیں تھا، جس کی وجہ سے جذبات سے بھرپور اور حقائق کو توڑ موڑ کر اس واقعے کی کوریج کی گئی۔ ایک ٹی وی چینل نے مبینہ پاکستانی دہشت گردوں کی ڈمی کارروائی کو نشر کیا۔

بہت سے ناظرین اس سیگمینٹ کو حقیقی مناظر سمجھ بیٹھے مگر پھر ٹی وی چینلز کے ایڈیٹرز نے اس سانحے کی کوریج میں ہونے والی خامیوں کو محسوس کیا، یوں 2006میں بھارت کے ٹی وی چینلز ایک نئے ضابطہ اخلاق پر متفق ہوئے۔ اس ضابطہ اخلاق کے تحت دہشت گردوں کی کارروائی کے براہِ راست کوریج پر پابندی عائد ہوئی۔ اسی طرح مسخ شدہ لاشوں اور زخمیوں کے فوٹیج نہ دکھانے پر اتفاق رائے ہوا،اور معروضیت (Objectivity) پر مبنی خبروں کی اشاعت اور نشر کرنے کو اہم قرار دیا گیا۔ پاکستان اگرچہ نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ کا حصہ بنا مگر ریاست کی ترجیحات میں دہشت گردی کا خاتمہ سرفہرست نہیں تھا،  اخبارات اور ٹی وی چینلز نے دہشت گرد تنظیموں کے پیغام کو بھرپور طریقے سے شایع اور نشرکیا۔

ذرایع ابلاغ نے دہشت گردی کے بارے میں امریکی پالیسی کو اس طرح منفی انداز میں پیش کیا کہ طالبان اور ان کے حامی مظلوم ہوگئے۔ اسامہ بن لادن ایبٹ آباد میں برسوں چھپا رہا، جب وہ امریکی کمانڈوز کے حملے میں  ہلاک ہوا تو ٹی وی چینلز نے اس بات کا پتہ چلانے کے بجائے کہ وہ پاکستان میں کس طرح چھپا ہوا تھا امریکی حملے کی مذمت کرنی شروع کردی،یوںجی ایچ کیو پر حملہ یا میریٹ ہوٹل پر یا کراچی میں ایئرپورٹ یا مہران بیس پر حملہ ہوا تو ذرایع ابلاغ کا رویہ مایوس کن رہا۔

گزشتہ ہفتے جب جی ایچ کیو راولپنڈی حملے کے مجرموں کو پھانسی دی گئی تو ایک ٹی وی چینلز نے اپنے 9 بجے کے خبرنامے کے آغاز میں جس طرح کی خبر نشر کی اس سے محسوس ہورہا تھا کہ ٹی وی چینل پرانی ڈگر پر چل رہا ہے مگر پھر شاید اس چینل میں فیصلہ ساز اتھارٹی کو حقائق کا اندازہ ہوا۔ یوں اگلے سیگمنٹ میں ان دہشت گردوں سے متاثر ہونے والے خاندانوں کے فوٹیج نشر ہونے لگے۔ پھر یہ بھی بتایا گیا کہ ان دہشت گردوں نے لاہور میں سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر حملہ کر کے پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کے مستقبل کو تاریک کردیا تھا تو کیا اس صورتحال کا تدارک یوں ہوسکتا ہے کہ دہشت گردوں کی سرگرمیوں کا مکمل بائیکاٹ کردیا جائے ؟ ذرایع ابلاغ کے ماہرین اس تجویز کو انتہائی خطرناک اور عوام کے جاننے کے حق پر حملہ قرار دیتے ہیں۔

نائن الیون کے بعد پاکستان کے معروف اخبارات پر تحقیق کرنے والے محقق پروفیسر عرفان عزیز کا کہنا ہے کہ پاکستانی ذرایع ابلاغ نے دہشت گردوں کو پروجیکٹ کرنے کا بیانیہ Narrative اپنایا ہوا تھا۔ یوں اس بیانیہ کی بناء پر دہشت گرد سوچ کو ذرایع ابلاغ سے مدد ملی مگر دہشت گردی کے بارے میں خبروں کے بلیک آؤٹ کی افواہ سازی کا ایک مضبوط نیٹ ورک قائم ہوجائے گا۔ پھر دہشت گرد اور ان کے ہمدرد سوشل میڈیا کے ذریعے افواہوں کو پھیلاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ملالہ پر قاتلانہ حملے کے بعد اگرچہ قومی اخبارات اور ٹی وی چینلز نے مثبت پیغام نشر کیا مگر سوشل میڈیا پر زہر آلود مواد کے ذریعے نوجوانوں کے ذہنوں کو پراگندا کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس صورتحال میں دہشت گردی کے تناظر میں معروضیت کے اصولوں کے مطابق خبروں کی اشاعت اور ٹیلی کاسٹ ہونا ضروری ہے۔

اس ضمن میں دہشت گردی کے نقصانات اور انسانی حقوق  کی پامالی کے معاملات پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس بات کو یقینی بنانا ضروری ہے کہ صرف حقائق بیان کیے جائیں۔ دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث افراد کے انٹرویو اور تصاویر کی اشاعت اور ٹیلی کاسٹ کرنے میں خصوصی احتیاط کی جائے۔ کوئی ایسا مواد شایع یا نشر نہ ہو جس سے دہشت گردی کو تقویت ملتی ہو ۔ اس طرح دہشت گردی کی کارروائیوں کے دوران براہِ راست کوریج پر مکمل پابندی ہونی چاہیے، جب تک متاثرہ علاقے کو سیکیورٹی کلیئرنس نہ دیا جائے، رپورٹر اور کیمرا مین اس علاقے میں داخل نہ ہوں ۔ زخمیوں اور لاشوں کی تصاویر اور فوٹیج نشر نہیں ہونے چاہئیں، اس سارے تناظر میں پھر یہ سوال سامنے آتا ہے کہ کیا اخبارات، ریڈیو اور ٹیلی وژن پر سنسرشپ عائد کردی جائے؟ سنسرشپ کا نفاذ ایک خطرناک صورتحال ہوگی ۔ سنسر کرنے والے افسران اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق اختیار استعمال کریں گے ۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں3سال کے قریب عرصے تک نافذ ہونے والے سنسر شپ کے خطرناک نتائج برآمد ہوئے تھے ۔

یہ وقت ہے کہ ٹی وی چینلز میں خاص طور پر گیٹ کیپر کے ادارے کو مستحکم کیا جائے۔ گیٹ کیپر سے مراد ایڈیٹرز، پروڈیوسرز، ڈائریکٹرز، رپورٹرز اور نیوز ایڈیٹرز سب شامل ہیں۔ مہذب دنیا میں شایع اور نشر ہونے والا مواد گیٹ کیپنگ کے کئی مراحل سے گزرتا ہے اور ہر مرحلے پر مواد کی معروضیت کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ یوں دنیا کا کوئی ٹی وی چینلز یہ خبر نشر نہیں کرتاکہ شہر میں دھماکے کی آواز سنی گئی ہے، جب تک دھماکے کی نوعیت یا مقام کی تصدیق نہیں ہو جاتی، یہ خبر ناظرین تک نہیں پہنچی چاہیے۔ یہ میڈیا ہاؤسز کی ذمے داری ہے کہ گیٹ کیپر کے ادارے کو مستحکم کریں۔ پھر میڈیا ہاؤس کے بیانیہ کی تبدیلی بھی مسئلے کا حل ہے۔ میڈیا کی ترقی جمہوری دور میں ممکن ہے۔ دہشت گرد جمہوری نظام کو تہس نہس کرنا چاہتے ہیں ۔ پاکستان میں 50 سے زائد صحافی دہشت گردی کا شکار ہوئے ہیں ۔ ذرایع ابلاغ کو دہشت گردی کے خاتمے کی مہم میں مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔