خوشبوؤں کو اڑا کر ہوا لے گئی

راؤ سیف الزماں  منگل 30 دسمبر 2014
saifuzzaman1966@gmail.com

[email protected]

آج نوک قلم کند ہے۔ حرف، تمنا سے محروم ہیں۔ کوئی تسلی، کوئی دلاسہ، ازالہ نہیں ہو سکتا۔ پشاور کے معصوم پھول اور کلیاں شہادت کی سرخ چادر اوڑھے گہری نیند سو رہے ہیں۔ دنیا و مافیہا سے بے خبر۔ لیکن ماں کی ان آنکھوں کا کیا کیا جائے جو ہر پل دروازے پر ٹکی ہیں کہ ابھی 2 بجیں گے، اس کا لعل دروازہ کھولے گا اور دوڑ کر اس سے لپٹ جائے گا۔ جلدی جلدی اسے بتائے گا کہ آج اسکول میں کیا ہوا۔ ٹیچر نے اسے پانچ اسٹار دیے ، تین کاپی پر اور دو یہ میرے گالوں پر۔

اس ماں کو کون تسلی دے؟ ہاں نظام بنتے رہیں گے، سیکیورٹی سخت کرنے پر بحثیں ہوں گی۔ حکومت اپوزیشن ملاپ ہو جائے گا۔ ملک بھر میں شہدا کی یاد میں شمعیں روشن ہوں گی۔ جلسے، جلوس نکلیں گے۔ اخبارات نوحہ خوانی سے بھر جائیں گے۔

میڈیا چینلز پر تجزیہ نگار اور ماہرین کے درمیان مکالمے ہوں گے، تجاویز کا تبادلہ ہو گا یا سیاسی راہنما سیکیورٹی انتظامات کو لے کر ایک دوسرے پر الزام تراشی کریں گے۔ اب بہت کچھ ہو گا۔ لیکن یہ بہت کچھ بھی محض چند روز تک ہو گا۔ پھر رفتہ رفتہ سانحہ پشاور پر مٹی کی ہلکی تہہ جمنی شروع ہو گی جو بعدازاں دبیز تر ہوتی چلی جائے گی۔ آخر ایک دن یہ حادثہ ناگہانی حادثہ کہلائے گا اور بالکل آخر میں اسے اللہ کی مرضی اور قسمت کا لکھا مان کر فائل بند کر دی جائے گی۔ لیکن کھلی رہ جائیں گی ماں کی آنکھیں، باپ کے آنسو۔ یہ اب کبھی بند نہیں ہوں گے۔

آپ کو میری بات تلخ و ترش لگے گی۔ لیکن للہ مجھے بتائیے۔ آج ملک میں جو بھی زندہ ہے کیا وہ کسی سیکیورٹی کی وجہ سے بچا ہوا ہے؟ ہرگز نہیں۔ بھائی وہ تو اللہ کی مرضی اور موت کے طے شدہ وقت کے باعث سانس لے رہا ہے۔ جو صحت مند ہے، چوری، ڈاکے، راہزنی، ٹارگٹ کلنگ سے محفوظ ہے۔ ان پر بھی یہی فارمولہ صادق آتا ہے۔ چلیے اگر میں غلط کہہ رہا ہوں تو کوئی بتائے گا کہ لیاقت علی خان سے لے کر ضیا الحق تک، حکیم محمد سعید سے لے کر بے نظیر بھٹو تک کے قاتل کیوں گرفتار نہیں ہو سکے؟ وہ ساری فائلیں آج کیوں داخل دفتر ہیں؟ اور وہ کون سے خفیہ نادیدہ ہاتھ ہیں جو ان قاتلوں کے محافظ رہے؟ نتیجہ کیا نکلا؟ آپ نے دیکھا آج دہشت گردی کس عروج پر ہے۔ آپ چاہتے ہیں کہ ہم اس سانحے پر آنسو بہا کر کہہ دیں کہ اس مشکل گھڑی میں پوری قوم کے اتحاد و اتفاق کی ضرورت ہے اور ایک لائن میں کھڑے ہو کر ’’لب پے آتی ہے دعا بن کے تمنا میری‘‘ پڑھیں۔ زندہ باد، مردہ باد کے نعرے لگائیں۔

کیا میں آپ کو ان معصوم بچوں کی سفاکانہ ہلاکت کے علاوہ کچھ اور بتاؤں؟ تو سنیں ایک ٹی وی چینل کے نیوز رپورٹر نے ایک ایسے شہید بچے کے والد سے انٹرویو لیا جو غم و اندوہ کی کیفیت میں سانحے کا ذمے دار حکومت کو قرار دے رہا تھا۔ دوسرے چینل نے ایسے بچے کے والد کا انتخاب کیا جو عمران خان کو برا بھلا کہہ رہا تھا۔ یا اللہ اس قوم پر رحم فرما۔ بہت سے سیاسی رہنماؤں نے ایک دوسرے کو مورد الزام قرار دیتے ہوئے بیانات دیے کہ اگر فلاں صاحب صوبے میں موجود ہوتے تو یہ حادثہ نہ ہوتا۔

لیکن کون نہیں جانتا کہ جب فون آتا ہے کہ ’’ہم تمہیں پتھروں کے دور میں بھیج دیں گے‘‘ تو ہم اپنے بچے تک ان کے حضور تحفتاً پیش کر دیتے ہیں اور بدقسمتی سے قیمتاً اور پھر اپنی کتابیں تحریر کرتے وقت اس کا بہادرانہ اعتراف بھی کرتے ہیں اور فون کالز کے بعد چڑھ دوڑتے ہیں جن پر چڑھ دوڑنے کا حکم صادر ہوتا ہے۔ آپ مجھے بتائیے دنیا بھر میں دہشت گردوں کی مثالیں ملتی ہیں لیکن اتنی وحشت، بربریت! میرے بھائیو! جس کانٹے دار درخت کو کاٹنا ہے اس کی جڑ کہاں ہے اور کیوں ہے؟ آپ میری گفتگو کو موقع محل سے ہٹ کر قرار دیں گے، لیکن میں برا مانے بغیر آپ سے سوال کرتا ہوں کہ یہ تو آرمی پبلک اسکول تھا۔

کسی حد تک Secure تھا۔ ملک میں ہزاروں اسکول ہیں، وہاں تو Security کے نام پر چپراسی تک نہیں ہے۔ آپ کو احساس ہے کہ کیا کچھ دائرہ امکان میں ہے؟ ایک محتاط اندازے کے مطابق طالبان کی تعداد تین لاکھ سے بھی زیادہ ہے اور انھیں اب داعش نامی تنظیم کی حمایت بھی حاصل ہے۔ وہ سارے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق وہ پانچ حالتوں میں اس وقت روپوش ہیں۔ (1)۔ایک وہ جو مختلف مدارس میں مسافر بچوں کے والدین کا روپ دھارے ہوئے ہیں۔ (2)۔وہ مدارس میں اساتذہ یا ملازمین کی شکل میں کام کر رہے ہیں۔ (3)۔وہ تبلیغ دین کا بہانہ بنا کر ٹولیوں کی شکل میں شہروں، قصبوں میں موجود ہیں۔(4)۔وہ ملک کے مختلف علاقوں میں، چائے، پراٹھے کے ہوٹلز کھول کر بیٹھے ہیں۔(5)۔وہ غیر معروف مسافر خانوں میں قیام پذیر ہیں۔ ان کا نیٹ ورک بڑا منظم ہے۔ ایک مزید گمان کے طور پر میں سمجھتا ہوں کہ وہ اب وزیرستان و ٹرائبل ایریاز میں تقریباً موجود نہیں ہیں۔ زیادہ تر وہاں سے وقتی ہجرت کر چکے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ اب تدارک کیا ہے اور حکمت عملی کیا ہونی چاہیے؟ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اجازت مرحمت فرمائی ہے کہ ’’لوگو! اگر تم پر زیادتی کی جائے تو قصاص میں اللہ تمہیں ہاتھ کے بدلے ہاتھ، آنکھ کے بدلے آنکھ، جان کے بدلے جان، عورت کے بدلے عورت، آزاد کے بدلے آزاد، غلام کے بدلے غلام حکم دیتا ہے۔ تا کہ زمین پر توازن قائم ہو۔‘‘

لیکن بے قصور کے بدلے! کیا ہو گا اور کون ہو گا؟ ظاہر ہے بے قصور۔ آپ جب تک ان کے علاقوں پر بلا تخصیص حملے نہیں کریں گے اور ان کے بھائی، بیٹے، ماں باپ، بچے نہیں مارے جائیں گے، یہ سلسلہ ان کی طرف سے رکنے والا نہیں جو پشاور میں پیش آیا۔ عزیزان گرامی! پڑھنے یا سننے میں آپ مجھے یکدم کوئی انتہا پسند قرار دے سکتے ہیں لیکن یہ 18 کروڑ لوگوں کا ملک ہے۔ آپ کب تک، کہاں تک اور کیسے ان سفاک دہشت گردوں کی دست برد سے معصوم اور بے قصور لوگوں کو حتیٰ کے بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کو بچا پائیں گے۔

عملاً یہ ممکن نہ ہو گا۔ اگر خدا ہی ان پر کوئی بجلی نہ گرا دے تو۔آپ خواہ افغانستان چلے جائیں یا کسی پر بھی الزام دھریں۔ ممکن ہے بلکہ یقینی طور پر وہ ضرور ان کی پشت پناہی کر رہے ہوں گے۔ لیکن اصل دہشت گرد اور قاتل تو یہی ہیں جو استعمال ہو رہے ہیں۔

اس کے علاوہ ایسی تمام دینی جماعتوں پر مکمل پابندی عائد ہونی چاہیے جو ہمہ وقت قتال اور جہاد کے فتوے صادر کرتی ہیں۔ جن کے پلیٹ فارم سے نکل پڑو ۔ اور کوچ کرو کی صدائیں بلند ہوتی رہتی ہیں۔ میں آپ سے التماس کرتا ہوں کہ خدارا جو کرنا ہے فوری کیجیے۔ جلد ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔ میں سانحہ پشاور کے بعد ایک باقاعدہ چھاپہ مار جنگ دیکھ رہا ہوں پورے ملک میں۔ اللہ پاک کرم فرمائے۔ معاملہ رکتا نظر نہیں آ رہا۔ آپریشن ضرب عضب کی کامیابی مبارک ہو لیکن جنگ فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو گئی ہے۔

ساتھ ساتھ ایسے سارے سیاستدانوں کو بھی پٹہ ڈالیں جنھیں رسہ کشی کا ازلی نسلی شوق ہے اور جب نقصان ہو جاتا ہے تو جھٹ سے مل بیٹھتے ہیں۔ نیز تمام دینی درسگاہوں و مدارس کے لیے ایک ضابطہ اخلاق بنائیں۔ جس کے قوانین سخت ہونے چاہئیں۔ ورنہ ماں دروازے کو تکتی رہے گی۔ سرما کی سنسان سڑک پر رات گئے ہر آہٹ، سرسراہٹ کو گنتی رہے گی کہ کب اس کی بیل بجے گی کب اس کا لخت جگر آئے گا؟ آنسو بہتے رہیں گے اور نوحہ خوانی جاری رہے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔