(خیالی پلاؤ) - غزل ؛ ’’نیا سال آنے کو ہے‘‘

فرح بھٹو  بدھ 31 دسمبر 2014
 ڈھل جائے گی ظلمت کی رات نیا سال آنے کو ہے، کرو نہ اب دکھ کی کوئی بات نیا سال آنے کو ہے۔ فوٹو فائل

ڈھل جائے گی ظلمت کی رات نیا سال آنے کو ہے، کرو نہ اب دکھ کی کوئی بات نیا سال آنے کو ہے۔ فوٹو فائل

 ڈھل جائے گی ظلمت کی رات نیا سال آنے کو ہے

 کرو نہ اب دکھ کی کوئی بات نیا سال آنے کو ہے

شہید کی ماں نے اپنے آنسوں پونچھ کر یہ کہا

 بلند ہیں ہمارے جذبات نیا سال آنے کو ہے

ہوگی سال نو کی صبح اجلی اجلی روشن روشن

حسین ہوں گے سب لمحات نیا سال آنے کو ہے

میری دھرتی سیراب ہوگی سکھ کے ساون سے

خوشیوں کی ہوگی برسات نیا سال آنے کو ہے

بچھڑے ملے گے آخر بھولے بھی گھر لوٹے گے

پھر ہوگا ہاتھوں میں ہاتھ نیا سال آنے کو ہے

کئی معصوم آنکھوں نے سہانے خواب دیکھے ہیں

 تعبیر ان کی لائے گا سات نیا سال آنے کو ہے

اداس چہروں پر ہنسی کھلکھلائے گی

دیکھ لینا یہ کرامات نیا سال آنے کو ہے

وطن پر جان دیتے ہیں ہم وفادار اتنے ہیں

بدل ڈالیں گے یہ حالات نیا سال آنے کو ہے

ایک خدا ایک رسولؐ ایک قرآن ایک ہیں مسلمان

 سب کرو مل کر مناجات نیا سال آنے کو ہے

زندگی کی بساط پر لینی ہمیں بازی فرح

دینی ہے شر کو مات نیا سال آنے کو ہے

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے غزل لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی  تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔