- ویسٹ انڈیز ویمن ٹیم کا پاکستان کو ون ڈے سیریز میں وائٹ واش
- کراچی میں ایرانی خاتون اول کی کتاب کی رونمائی، تقریب میں آصفہ بھٹو کی بھی شرکت
- پختونخوا سے پنجاب میں داخل ہونے والے دو دہشت گرد سی ٹی ڈی سے مقابلے میں ہلاک
- پاکستان میں مذہبی سیاحت کے وسیع امکانات موجود ہیں، آصف زرداری
- دنیا کی کوئی بھی طاقت پاک ایران تاریخی تعلقات کو متاثر نہیں کرسکتی، ایرانی صدر
- خیبرپختونخوا میں بلدیاتی نمائندوں کا اختیارات نہ ملنے پراحتجاج کا اعلان
- پشین؛ سیکیورٹی فورسز کی کارروائی میں3 دہشت گرد ہلاک، ایک زخمی حالت میں گرفتار
- لاپتہ کرنے والوں کا تعین بہت مشکل ہے، وزیراعلیٰ بلوچستان
- سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی کو سزا سنانے والے جج کے تبادلے کی سفارش
- فافن کی ضمنی انتخابات پر رپورٹ،‘ووٹوں کی گنتی بڑی حد تک مناسب طریقہ کار پر تھی’
- بلوچستان کے علاقے نانی مندر میں نایاب فارسی تیندوا دیکھا گیا
- اسلام آباد ہائیکورٹ کا عدالتی امور میں مداخلت پر ادارہ جاتی ردعمل دینے کا فیصلہ
- عوام کو ٹیکسز دینے پڑیں گے، اب اس کے بغیر گزارہ نہیں، وفاقی وزیرخزانہ
- امریکا نے ایران کیساتھ تجارتی معاہدے کرنے والوں کو خبردار کردیا
- قومی اسمبلی میں دوران اجلاس بجلی کا بریک ڈاؤن، ایوان تاریکی میں ڈوب گیا
- سوئی سدرن کے ہزاروں ملازمین کو ریگولرائز کرنے سے متعلق درخواستیں مسترد
- بہیمانہ قتل؛ بی جے پی رہنما کے بیٹے نے والدین اور بھائی کی سپاری دی تھی
- دوست کو گاڑی سے باندھ کر گاڑی چلانے کی ویڈیو وائرل، صارفین کی تنقید
- سائنس دانوں کا پانچ کروڑ سورج سے زیادہ طاقتور دھماکوں کا مشاہدہ
- چھوٹے بچوں کے ناخن باقاعدگی سے نہ کاٹنے کے نقصانات
آسٹیوپوروسس
ہڈیوں کا بھربھرا پن ایک عام مرض ہے، جسے طبی زبان میں آسٹیوپوروسس کہا جاتا ہے۔ ماہرینِ صحت کے مطابق یہ دنیا میں دل کے امراض کے بعد دوسرا بڑا مسئلہ ہے۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ننّاوے لاکھ افراد اس عارضے میں مبتلا ہیں۔ ان میں زیادہ تعداد خواتین کی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ادارۂ صحّت کے تحت عالمی سطح پر ہڈیوں کے اس مسئلے سے بچاؤ اور اس سے متعلق آگاہی کی کوششیں جاری ہیں۔ تاہم غیرمتوازن خوراک کے علاوہ جدید طرزِ زندگی بھی اس کے پھیلاؤ کا باعث بن رہی ہے۔ اس بیماری میں انسانی جسم کی ہڈیاں کم زور ہو کر مڑنے لگتی ہیں اور ان کے ٹوٹنے کا خطرہ کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔
ماہرین کے مطابق ہڈیوں کی کم زوری اور بھربھرے پن کا مسئلہ مردوں کے مقابلے میں عورتوں میں 40 فی صد زیادہ ہوتا ہے۔ 45 سال کی عمر کے بعد عورتوں میں اس بیماری کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ یہ بیماری یوں تو پورے جسم کی ہڈیوں کو متاثر کرتی ہے، لیکن ریڑھ، کولہے اور کلائی پر اس کا زیادہ اثر پڑتا ہے۔ ہڈیوں کی مضبوطی کا تعلق سورج کی روشنی یا دھوپ سے بھی ہے۔
شہری علاقوں میں لوگ دھوپ میں نہیں نکلتے یا ان کا زیادہ وقت بڑی بڑی عمارتوں، گاڑیوں اور بند جگہوں پر گزرتا ہے جس کی وجہ سے جسم کے لیے ضروری دھوپ سے محروم رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ خوراک میں دودھ، مچھلی اور ہڈیوں کو مضبوط بنانے والی دیگر اجناس کا استعمال نہ کرنا بھی اس شکایت کا سبب بنتا ہے۔ اس کے مقابلے میں دیہی علاقوں میں مرد اور خواتین کا زیادہ وقت کھلی جگہ پر گزرتا ہے۔ وہ کھیتوں میں کام کرتے ہیں۔ ان کی غذا میں دودھ کا استعمال زیادہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان میں کا خطرہ کم ہوتا ہے۔
طبی ماہرین کے مطابق آسٹیوپوروسس کی دیگر وجوہات میں بڑھتی ہوئی عمر، کیفین کا زیادہ استعمال اور کیلشیم کی کمی شامل ہے۔ ڈاکٹروں کے مطابق اس بیماری میں زیادہ تر مریض ٹانگوں، ہاتھوں یا کمر میں درد کی شکایت کرتے ہیں۔ ہڈیوں کے بھربھرے پن کا شکار فرد کسی وجہ سے گر جائے تو اس کے ہاتھوں یا پیر کی ہڈی میں فریکچر کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ ہڈیوں کے بھربھرے پن سے بچنے کے لیے ماہرین چند منٹ دھوپ میں گزارنے کو ضروری خیال کرتے ہیں۔
سورج کی روشنی سے وٹامن ڈی تھری کی ضرورت پوری ہوتی ہے، جو ہڈیوں کے لیے کیلشیم کی فراہمی کا ذریعہ ہے۔ اس کے علاوہ جسمانی سرگرمیوں میں اضافہ اور غذا پر توجہ دینا بھی نہایت ضروری ہے۔ خواتین میں اس بیماری کی وجہ چند وجوہ میں بڑھتی ہوئی عمر، ہارمونز میں تبدیلیاں اور نظامِ ہضم کی خرابی بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ بعض دوائیں بھی ہڈیوں پر منفی اثرات مرتب کرتی ہیں اور ان کی کم زوری کا باعث بنتی ہیں۔
اس بیماری کی علامات عموماً دیر سے ظاہر ہوتی ہیں۔ اس کی ابتدائی علامات میں مریض کو جوڑوں کے درد کے ساتھ ساتھ اٹھنے بیٹھنے میں بھی تکلیف محسوس ہوتی ہے۔ آسٹیوپوروسس سے بچنے کے لیے غذا کے ذریعے مردوں خصوصاً خواتین کو یومیہ 1300 ملی گرام کیلشیم حاصل کرنا چاہیے۔ یہ دودھ، دودھ سے بنی ہوئی دیگر اشیا، ہری سبزیاں اور مچھلی سے حاصل ہو سکتا ہے۔ ماہرینِ طب کے مطابق آدھے گھنٹے کی ورزش بھی پٹھوں اور ہڈیوں کی مضبوطی میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔