خدا کرے اب کوئی سانحہ نہ ہو

رئیس فاطمہ  بدھ 31 دسمبر 2014
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

آج نئے سال کا پہلا دن ہے۔ دیکھیے پاکستان کے لیے یہ سال کیسا ثابت ہوتا ہے؟ اک ذرا مڑ کر 2014 ء پہ نظر ڈالیے تو ہر طرف بارود اور خون کی بو پھیلی ہے۔ سانحات ہی سانحات۔ مگر فکر کس کو ہے؟ اگر ہے تو خود دودھ، دہی، ربڑی اور ملائی کے بھرے کونڈوں کی کہ کس طرح مال اڑایا جائے۔ دعوتیں دی جا رہی ہیں کہ آؤ اور کھاؤ کہ ربڑی اور ملائی ہمارے باپ دادا نے ’’پاکستان‘‘ نامی پلیٹ میں رکھ کر دی تھی اور اب ہم دودھ، دہی اور ربڑی سے بھرے کونڈوں پہ قبضہ کرنے اور چھاپہ مارنے کے نت نئے طریقے اپنی اولاد کو بتائیں گے۔

کس میں مجال ہے کہ وطن کی فکر کرے؟ بھلا کون کرے گا؟ وہ نسل اقتدار اور حساس اداروں سے رخصت ہوگئی  جنھیں وطن کی فکر ہوا کرتی تھی۔ مصیبتوں نے پورے ملک کو اپنے شکنجے میں کس لیا ہے۔ پورا 2014 سانحوں سے بھرا پڑا ہے۔ ابھی تو کراچی ایئرپورٹ پہ مرنے والوں کی سوختہ لاشیں انصاف کی منتظر تھیں کہ سانحہ پشاور رونما ہوگیا۔ پشاور میں نے نہیں دیکھا، لیکن ایک انجانی سی عقیدت اور انس اس شہر سے اس لیے محسوس کرتی ہوں کہ یہ میرے دادا کی جنم بھومی ہے۔

انھوں نے یہ شہر اس لیے چھوڑ دیا تھا کہ وہ نسل در نسل دشمنی کا خاتمہ چاہتے تھے۔ اس قبائلی اور خاندانی دشمنیوں کو ختم کرنے کے لیے وہ اپنے جگری دوست میرے نانا کے پاس دہلی چلے آئے تھے اور شادی بھی ان ہی کے خاندان میں کی۔ یہ روشن خیالی انھیں تعلیم نے عطا کی تھی۔ وہ عالم دین بھی تھے۔ قرآنی تعلیمات کے اصل مفہوم اور سیرت نبویؐ کے مطالعے نے نانا اور دادا دونوں کو دوستی کے ایسے مضبوط رشتے میں باندھ دیا تھا کہ دونوں نے تاحیات صرف پیار بانٹا اور محبت سمیٹی۔ آج ہم سب ہی نہیں بلکہ تمام دنیا کے مہذہب لوگ سانحہ پشاور پہ اشک بار ہیں۔ میرا بہت جی چاہتا تھا کہ پشاور جاؤں اور جہاں میرے دادا نے زندگی کے خوبصورت دن گزارے، بچپن کی دہلیز پار کر کے جوانی کی پھولوں بھری وادی میں قدم رکھا۔ وہ جگہ ضرور دیکھوں۔ لیکن ڈر، خوف اور بندوق کی گولیوں کی سنسناتی ہولناک آوازوں  نے ہمیشہ ارادے سے باز رکھا ۔

پھول کملا چکے، غنچے چٹخنے سے پہلے بارود کا نشانہ بن گئے۔ آٹھ اساتذہ بھی جان کی بازی ہار گئے۔ ہم لاکھ ان کی یاد میں دیے جلائیں، لیکن ان کے لواحقین پہ گزرنے والے دکھ کو کسی طرح بھی کم نہیں کرسکتے۔ جانے والے معصوم ساری زندگی کا روگ دے گئے۔ لیکن جواب طلب بات یہ ہے کہ جب حساس اداروں نے اگست میں ممکنہ دہشت گردی کی خبر دے کر خبردار کردیا تھا تو وہ اطلاعات کس نے اور کیوں قابل توجہ نہیں سمجھی؟ کہیں اصل ماسٹر مائنڈ ہمارے اندر اور ہمارے درمیان ہی تو نہیں؟ اس شبے کو یقین کی حد تک تقویت اس لیے ملتی ہے کہ مہران بیس، کراچی ایئرپورٹ، لاہور کے حساس اداروں کے حملوں میں ایک قدر مشترک یہ ہے کہ حملہ آور نہایت آسانی سے اپنے ہدف تک کیسے پہنچ جاتے ہیں اور تمام کارروائی انتہائی کم وقت میں پوری کرکے بحفاظت واپس بھی چلے جاتے ہیں۔ انھیں ’’پروانہ راہداری‘‘ کون دیتا ہے؟ واہگہ بارڈر پہ ہونے والے سانحے اور مہران بیس کراچی پہ رونما ہونے والے خونیں واقعات کو ذرا باریک بینی سے دیکھیے تو یقینا جواب مل جائے گا کہ یقینا کوئی حسن بن صباح ضرور ہے ان خونی سانحات کے پیچھے۔

سانحہ پشاور کے بعد وزارت داخلہ نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ تمام اسکول جو تینوں مسلح افواج پاکستان کے زیر انتظام چلتے ہیں  ان کی سیکیورٹی کے بارے میں فول پروف انتظامات کیے جائیں۔ کیونکہ یہ خدشہ بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ نیوی، ایئرفورس اور آرمی کے تحت چلنے والے اسکولوں کو دہشت گرد دوبارہ نشانہ بناسکتے ہیں۔ بہت اچھی بات ہے۔ کاش کہ پہلے ہی یہ سب کرلیا جاتا۔ افواج پاکستان کے اسکولوں کو خصوصی سیکیورٹی کے ساتھ ساتھ دیگر نجی تعلیمی اداروں اور سرکاری اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں کو بھی اسی طرح سیکیورٹی فراہم کی جائے۔کیا  نیلے پیلے کالے اسکولوں میں زیر تعلیم بچے اور ان کو پڑھانے والے اساتذہ  اہمیت نہیں رکھتے۔

سوال یہ ہے کہ ایک کے بعد ایک تخریبی کارروائیوں کے بعد جو لوگ سینہ ٹھونکتے ہوئے واردات کا میڈل اپنے سینے پہ لگا کر اور فخریہ کہتے ہیں کہ ’’اس دہشت گردی کی ذمے داری ہم قبول کرتے ہیں‘‘ تو ان بہادروں کو حکومت پکڑ کر سزا کیوں نہیں دیتی؟ میرا خیال ہے کہ اس عذرلنگ کی وجہ سب جانتے ہیں۔ اور یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ ان انتہاپسندوں کو پروانہ راہداری ضیا الحق نے دیا تھا۔ روس کو ختم کرنے کے لیے امریکا نے جہاد کے نام پر امریکی ڈالروں کا انبار لگا دیا۔ اور امیر المومنین بننے کے خواہش مند موصوف نے ڈالروں کی بوریاں’’جہاد‘‘ اور ’’روس ایک لادین ریاست ہے‘‘ کے نام پر وصول کیے۔ نہ صرف ڈالرز بلکہ اسلحہ بھی ملا۔ ساتھ ساتھ ہیروئن اور افغانی ٹڈی دل کی طرح کراچی میں وارد ہوگئے۔ ساتھ ساتھ کلاشنکوف کلچر بھی ساتھ لائے۔

اس طرح اطراف و جوانب میں ہر جگہ انھوں نے قبضہ جما لیا۔ مزے کی بات یہ کہ سب کے پاس پاکستانی شناختی کارڈ بھی ہوتا تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ شہریوں نے زیادہ کرائے کے لالچ میں جرائم پیشہ، تخریب کار اور انتہا پسندوں کو مکانات کرائے پر دے دیے۔ افغان مہاجرین ایک عذاب کی صورت میں یہاں نازل ہوئے۔ جن کی وجہ سے کراچی میں مکانوں، اپارٹمنٹ اور دکانوں کی قیمتیں اور کرائے آسمانوں کو چھونے لگے۔ ان وارداتیوں کے ساتھ ساتھ وہ غریب افغانی بھی تھے جو کوڑے کے ڈھیر سے رزق کماتے تھے۔

بس اسٹاپوں پہ پانی پلاتے تھے اور محنت مزدوری کرتے تھے لیکن ابتدا ہی میں اگر چیک اینڈ بیلنس کی پالیسی اپنالی جاتی ، مالک مکانوں کو اس بات کا پابند کیا جاتا کہ وہ کسی غیر ملکی کو کرایے پر فلیٹ دینے سے پہلے تمام معلومات تھانے میں جمع کرائیں تو شاید کسی حد تک یہ دہشت گردی رک سکتی تھی۔ لیکن پاکستان میں تو ہر جرم اور مجرم کو  تحفظ حاصل ہے۔

کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ایک عام پاکستانی کے لیے قومی شناختی کارڈ کا حصول کس قدر مشکل ہے؟ لیکن افغانیوں اور دیگر جرائم پیشہ افراد کس طرح نہایت آسانی سے منہ مانگی کثیر رقم دے کر شناختی کارڈ اور پاکستانی پاسپورٹ حاصل کرلیتے ہیں۔ اکثر و بیشتر جب ایک ہی آدمی کی مختلف حلیوں میں کئی کئی شناختی کارڈوں کے ساتھ قومی اخبارات میں تصاویر شایع ہوتی ہیں تو پوچھنے والا کوئی نہیں کہ ایک ہی شخص کو چار   کارڈ کیسے اور کیونکر مل گئے؟ وہی مثل ہے کہ ساہوکار ہی اگر چور بن جائیں تو چوروں کو کون پکڑے گا؟آئے دن سعودی عرب میں جن پاکستانیوں کے ہیروئن اسمگل کرنے کے جرم میں سر قلم کیے جاتے ہیں وہ پاکستانی نہیں ہوتے بلکہ صرف پاکستانی پاسپورٹ کے حامل ہوتے ہیں۔

دیکھیے 2015 اپنے اندر کن سانحات کو چھپائے بیٹھا ہے کہ ہر ایک کو اپنی بادشاہت اور مقبروں کی فکر کھائے جا رہی ہے اور، اور وطن کے محافظ بھی ان ہی کے محافظ اور پہریدار بن گئے ہیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔