لب پہ آتی دعا…

سعید پرویز  بدھ 31 دسمبر 2014

میرے پاس الفاظ نہیں کہ میں اسکول کے بچوں اور اساتذہ کی ہلاکت پر دکھ کا اظہار کر سکوں، میں ان ماؤں کی آنکھوں میں کبھی نہ ختم ہونے والے انتظار پر اندر ہی اندر مر رہا ہوں۔ تابوت کے شیشے میں پھول سے بچوں کا دیدار کوئی بھی کبھی بھی نہ بھول پائے گا۔ اپنے تو اپنے غیر بھی اس سانحے پر اشک بار نظر آئے۔ دنیا بھر میں فضا سوگوار ہے۔

ہمارے ملک میں حادثے تو بہت ہوئے۔ بلوچستان میں ہزارہ قبیلے پر تین قیامتیں ٹوٹیں، واہگہ بارڈر پر 150 افراد مارے گئے، کراچی میں بے شمار سانحات ہوئے اور سیکڑوں ہلاکتیں ہوئیں مگر ایک اسکول کے اندر بد بختوں کا داخل ہوکر بربریت کی انتہا کہ تاریخ بھی جس پر شرمسار ہے وہ معصوم بے گناہ بچے جن کی کسی سے کوئی دشمنی نہیں تھے وہ تو اپنی طرح معصوم خوابوں کو آنکھوں میں سجائے علم حاصل کرنے اپنے اسکول جاتے تھے اور دہشت گردوں نے پھولوں کو انھی کے خون میں ڈبو دیا۔ اپنے رب سے گلہ گزار ہے ’’ظلم کی ہوگئی ہے حد، یا رب‘‘

کوئی بے حس بھلاتا ہے! بھلا دے مگر لوگ کبھی نہ بھلا سکیں گے۔ علم کی شمع کے پروانوں کی خون میں تر کتابیں بستے، کلاس رومز کی کرسیوں کے نیچے جمے ہوئے خون کہ جہاں بچوں نے چھپنے کی کوشش کی مگر خونخوار درندوں نے چھپنے والے بچوں کو بھی نہیں چھوڑا اور ان کی بندوقوں کی نالیاں بارود اگلتی رہیں۔

گلاب کے پھولوں کا شہر پشاور سوگ میں ڈوبا ہوا ہے اور یہ فضا جانے کب تک قائم رہے گی۔ پورے ملک میں غم و غصے کی ایک لہر ہے۔ ادارے، عدالتیں، اسمبلیاں، سیاسی، مذہبی جماعتیں سب متحد و متفق ہوچکے ہیں۔ یہ اتحاد کہیں دور دور نظر نہیں آ رہا تھا سب کچھ بکھرا ہوا تھا۔ انتشار کا بول بالا تھا اور سب کا منہ کالا تھا۔ اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر دیے۔ علم کی شمع کے پروانوں نے نثار ہوکر بند گلی کو توڑ دیا اور آگے بڑھنے کا رستہ کھول دیا۔

یہ واقعہ بہت بڑا موڑ ہے ملک و قوم تباہی کی طرف جا رہے تھے کہ ایسے میں معصوم بچوں نے اپنی جانیں قربان کر کے تباہی و بربادی کا رستہ روک دیا۔ ملک میں جس قدر نفاق پھیل چکا تھا۔ فرقہ واریت، زبان و نسل پر تقسیم، ہر طرح کی جنونیت ان کا خاتمہ تو ہو جانا چاہیے تھا مگر پتہ نہیں تھا کہ اس درجہ قربانی درکار ہو گی۔ یہ درندے تھے تو انسان ہی مگر یہ اﷲ کو چھوڑ کر شیطان کے بندے بن چکے تھے۔ پشاور میں اور بھی بڑے سانحات ہوئے مگر ’’سانحہ پشاور‘‘ جب بھی بولا یا لکھا جائے گا تو یہی علم کی شمع پر قربان ہو جانے والے بچے یاد آئیں گے۔ میں پھر کہوں گا کہ پاکستان ان بچوں کو کبھی نہ بھلا پائے گا ان بچوں نے اپنی جانیں قربان کرکے بکھرے ہوئے عوام کو ایک کردیا ملک کے مستقبل کو تباہی سے دھن دولت والے نہ سدھرے تو ان کا انجام بہت برا ہوگا۔ غریب، مصیبت زدہ مسائل میں گھرے عوام اب مزید صبر نہیں کر سکیں گے۔

دنیا بھر میں پھانسی کی سزا ختم کردی گئی ہے۔ سانحہ پشاور کے بعد پوری قوم کا یہ مطالبہ ہے کہ ایسے درندوں کو زندہ نہ چھوڑا جائے۔ موجودہ مخصوص حالات کے تحت پھانسی کی سزا کو بحال کیا جا رہا ہے اس بحالی کو آئینی حیثیت دینے کے لیے ضروری اقدامات کیے جارہے ہیں۔ آئین میں ترمیم کی جارہی ہے اور پارلیمنٹ میں آئینی ترمیم کو منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔ فوجی عدالتوں کا قیام صرف دو سال کے لیے ہوگا۔ درندہ صفت انسانوں اور ان کی معاونت کرنے والوں کو نہیں چھوڑا جائے گا۔ حکومت، سیاسی جماعتیں، مذہبی جماعتیں اور فوج کا اتفاق ہوچکا مگر میں عام آدمی کی بات کروں گا عام آدمی نے سانحہ پشاور پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔ عام آدمی ایسے تمام عناصر کا خاتمہ چاہتا ہے۔

کیا شہر کیا گاؤں دیہات کچھ بھی محفوظ نہیں رہا۔ دہشت گردوں نے کہیں کچھ نہیں چھوڑا ان درندوں کو جہاں کہیں موقع ملا انھوں نے اپنا کام دکھایا۔ ہزاروں لوگ ان درندوں کی دہشت گردی کا شکار ہوچکے، اربوں کھربوں کا نقصان ویسے بھی ہوگیا۔ اسکول، کالج، اسپتال، ہوٹل، پولیس سینٹرز، حتیٰ کہ جی ایچ کیو بھی ان درندوں سے محفوظ نہ رہ سکا اب بقول فیض ’’اور کیا دیکھنے کو باقی ہے۔‘‘

سانحہ پشاور میں پھول جیسے بچوں کو جس بربریت سے مارا گیا ہے اس سانحے کے بعد میں خود کو چلتی پھرتی لاش سمجھ رہا ہوں، کسی نے کہا ’’ہمارا سنہرا مستقبل تباہ کر دیا گیا‘‘ پوری دنیا میں شہید بچوں کی یاد میں شمعیں روشن کی گئیں۔ خاموشی اختیار کی گئی، سوگ کے مختلف طریقے اپنائے گئے۔ یہ تو دنیا کا حال تھا اور جس ملک میں یہ سانحہ ہوا ہے وہاں کے رہنے والوں کا حال کیا ہوگا۔ ان کے جذبات کیا ہوں گے۔ صاف ظاہر ہے وہ تو چاہیں گے کہ درندوں کا مکمل خاتمہ کیا جائے اور بس۔

اب بھی کچھ لوگ اگر مگر کررہے ہیں اب تو ظلم کی انتہا ہوگئی اب اگر مگر کی گنجائش کہاں!!

ذرا دیر کو ان گھروں کے بارے میں سوچو جہاں سے پھولوں کے جنازے اٹھائے گئے ہیں وہ مائیں اور ان کا نہ ختم ہونے والا انتظار وہ باپ وہ بہن بھائی وہ دادا دادی وہ نانا نانی۔

یہ سب کیا ہوگیا؟ یہ کیوں ہوگیا؟ ان جیسے کئی سوالوں کا جواب کسی کے پاس ہے! کسی کے پاس نہیں! ان جیسے سارے سوالوں کے جوابات کی تلاش میں وہ گھر ’’زندگی گزاریں گے مگر جواب کبھی نہیں ملیں گے وہ گھر جہاں سے پھولوں کے جنازے اٹھائے گئے اور قبرستانوں میں پھولوں کو مٹی کے سپرد کر دیے گئے۔ بعض باتوں کا جواب ان کا جواز برسوں بعد سامنے آتا ہے مجھے یوں لگتا ہے جیسے علامہ اقبال نے یہ نظم اپنی شہید بچوں کے لیے لکھی تھی، شہید پھولوں کے چہرے میرے سامنے روشن ہیں اور مجھے لگتا ہے جہاں ان پھولوں کو رکھا گیا ہے ان قبروں سے بھی یہ آواز آرہی ہے جیسے وہ ہم زندہ رہ جانے والوں کو احساس دلا رہے ہوں۔

لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
دور دنیا کا میرے دم سے اندھیرا ہوجائے
ہر جگہ میرے چمکنے سے اجالا ہو جائے
ہو مرے دم سے یونہی میرے وطن کی زینت
جس طرح پھول سے ہوتی ہے چمن کی زینت
زندگی ہو میری پروانے کی صورت یا رب
علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یا رب

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔