- بیرون ملک ملازمت کی آڑ میں انسانی اسمگلنگ گینگ سرغنہ سمیت 4 ملزمان گرفتار
- پاکستان کےمیزائل پروگرام میں معاونت فراہم کرنے کا الزام، امریکا نے4 کمپنیوں پرپابندی لگا دی
- جرائم کی شرح میں اضافہ اور اداروں کی کارکردگی؟
- ضمنی انتخابات میں عوام کی سہولت کیلیے مانیٹرنگ اینڈ کنٹرول سینٹر قائم
- وزیرداخلہ سے ایرانی سفیر کی ملاقات، صدررئیسی کے دورے سے متعلق تبادلہ خیال
- پختونخوا؛ صحت کارڈ پر دوائیں نہ ملنے پر معطل کیے گئے 15 ڈاکٹرز بحال
- لاہور؛ پولیس مقابلے میں 2 ڈاکو مارے گئے، ایک اہل کار شہید دوسرا زخمی
- پختونخوا؛ مسلسل بارشوں کی وجہ سے کئی اضلاع میں 30 اپریل تک طبی ایمرجنسی نافذ
- پختونخوا؛ سرکاری اسکولوں میں کتب کی عدم فراہمی، تعلیمی سرگرمیاں معطل
- موٹر وے پولیس کی کارروائی، کروڑوں روپے مالیت کی منشیات برآمد
- شمالی کوریا کا کروز میزائل لیجانے والے غیرمعمولی طورپربڑے وارہیڈ کا تجربہ
- پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان دوسرا ٹی20 آج کھیلا جائے گا
- بابر کو ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کا مشورہ
- موبائل فون صارفین کی تعداد میں 37 لاکھ کی ریکارڈ کمی
- گیلپ پاکستان سروے، 84 فیصد عوام ٹیکس دینے کے حامی
- ایکسپورٹ فیسیلی ٹیشن اسکیم کے غلط استعمال پر 10کروڑ روپے جرمانہ
- معیشت2047 تک 3 ٹریلین ڈالر تک بڑھنے کی صلاحیت رکھتی ہے، وزیر خزانہ
- پٹرولیم ایکسپلوریشن اینڈ پروڈکشن کمپنیوں نے سبسڈی مانگ لی
- پاکستان کی سعودی سرمایہ کاروں کو 14 سے 50 فیصد تک منافع کی یقین دہانی
- مشرق وسطیٰ کی بگڑتی صورتحال، عالمی منڈی میں خام تیل 3 ڈالر بیرل تک مہنگا
سچن ٹنڈولکر نے بال بوائے سے چیمپئن تک کے سفر کی روداد بیان کردی
دبئی: سچن ٹنڈولکر نے ورلڈکپ میں بال بوائے سے چیمپئن تک کے سفر کی روداد بیان کردی۔
انھوں نے کہاکہ2007 کا میگا ایونٹ میرے کیریئر کا ڈراؤنا خواب تھا، 2011 میں وہ حاصل کرلیا جس کی بچپن سے تمنا تھی، تفصیلات کے مطابق آئی سی سی کیلیے اپنے کالم میں سچن ٹنڈولکر نے تحریر کیا کہ25 جون 1983 کو جب بھارت نے پہلی مرتبہ ورلڈ چیمپئن بننے کا اعزاز حاصل کیا تو اس وقت میری عمر 10 برس تھی، والدین نے مجھے رات دیر گئے تک دیگر لڑکوں کے ساتھ جشن منانے کی اجازت دی،اس دن کے بعد سے میں ہارڈ بال سے کرکٹ کھیلنا شروع ہوگیا۔ انھوں نے کہا کہ میرا پہلا براہ راست ورلڈ کپ1987 کا تھا جو بھارت اور پاکستان میں کھیلا گیا تھا، اس ایونٹ میں خوش قسمتی سے مجھے ممبئی میں کھیلے جانے والے ایک میچ میں بال بوائے کی ذمہ داری ملی، میں نے اپنے سامنے عظیم کھلاڑیوں کو ایکشن میں دیکھا اور اس وقت سوچا کہ ایک دن مجھے بھی ان کی جگہ کھیلنا ہے۔
ٹنڈولکر نے کہا کہ 1992 میں میری اس ایونٹ میں اولین انٹری ہوئی مگر میں پہلے میچ میں زیادہ بہتر نہیں کھیل پایا، 10 اوورز میں ایک بھی وکٹ نہیں لی اور صرف 35 رنز اسکور کرکیے، ہم ناک آؤٹ راؤنڈ میں ہی نہیں پہنچ پائے، ہماری واحد خوشی پاکستان کے خلاف کامیابی تھی میں جس میں مین آف دی میچ قرار پایا تھا۔ سابق اسٹار نے کہا کہ1996 کا ورلڈ کپ میرے لیے کافی خاص رہا جو ایک بار پھر ایشیا میں منعقد ہوا، مجھے سری لنکا سے سیمی فائنل میں اپنے آؤٹ ہونے کا ابھی تک افسوس ہے جس کے بعد باقی بیٹنگ لائن دھڑام سے گر گئی تھی۔ 1999 کا ورلڈ کپ میرے لیے ایک مشکل ایونٹ رہا کیونکہ اس کے وسط میں میرے والد چل بسے، اس وجہ سے میرے لیے کرکٹ پر توجہ مرکوز رکھ پانا مشکل ہوگیا۔ انھوں نے کہا کہ 2003 کے میگا ایونٹ میں ہم فتح کے قریب تھے مگر فائنل میں آسٹریلوی دیوار نہیں گرا پائے۔
سب سے مایوس کن 2007 کا ایونٹ رہا، ویسٹ انڈیز میں کھیلے گئے اس ایونٹ کے پہلے ہی راؤنڈ میں ہمیں آؤٹ ہونا پڑا، مگر پھر ہم اپنے ہوم گراؤنڈز پر کھیلے جانے والے 2011 کے ایونٹ میں چیمپئن بن گئے، اس کی مجھے اپنے کیریئر کے پہلے روز سے ہی تمنا تھی،ٹنڈولکر نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ ہماری ٹیم آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں اپنے ٹائٹل کا کامیاب دفاع کرے گی۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔