تیل کی قیمتوں میں کمی

ایڈیٹوریل  جمعرات 1 جنوری 2015
دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں تو مارکیٹ میکنزم کامیاب ہے لیکن پاکستان جیسے معاشی طور پر کمزور ملک کے لیے یہ طریقہ کار زیادہ کامیاب نہیں ہے۔ فوٹو: فائل

دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں تو مارکیٹ میکنزم کامیاب ہے لیکن پاکستان جیسے معاشی طور پر کمزور ملک کے لیے یہ طریقہ کار زیادہ کامیاب نہیں ہے۔ فوٹو: فائل

وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کر دیا ہے جس کے بعد پٹرول 6روپے 25 پیسے‘ ہائی اسپیڈ ڈیزل 7روپے 86 پیسے‘ مٹی کا تیل 11 روپے 26 پیسے اور لائٹ ڈیزل 10 روپے 48 پیسے فی لیٹر سستا ہو گیا۔ بدھ کو وزیراعظم نواز شریف نے پارلیمنٹ ہاؤس میں پریس کانفرنس کے دوران اوگرا کی طرف سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے لیے بھیجی گئی سمری کے مطابق پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کیا۔

جی ایس ٹی میں اضافے کے باوجود عوام کو نئے سال کے موقع پر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 6 سے 25 روپے فی لیٹر تک ریلیف ملے گا۔  اب پٹرول کی نئی قیمت گزشتہ 6 سال کی کم ترین سطح یعنی 78 روپے 28 پیسے فی لیٹر پر آگئی ہے۔ حکومت نے پٹرولیم مصنوعات پر جی ایس ٹی میں پانچ فیصد اضافہ کیا۔ اگر یہ اضافہ نہ کرتی تو عوام کو زیادہ ریلیف مل سکتا تھا لیکن حکومت نے اپنا ریونیو خسارہ کم کرنے کے لیے جی ایس ٹی میں اضافہ کر دیا۔ بہر حال پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل کمی سے عوام کو خاصی حد تک ریلیف ملا ہے۔ زیادہ بہتر یہ ہوتا کہ حکومت اپنا خسارہ کسی اور مد میں پورا کرتی اور عوام کو زیادہ ریلیف فراہم کرتی لیکن حکومت نے جی ایس ٹی میں اضافے کو ترجیح دی۔ ادھر یہ بھی حقیقت ہے کہ ٹرانسپورٹ کرایوں کی مد میں خاطر خواہ کمی نہیں ہوئی ہے۔

صوبائی حکومتوں کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ اس حوالے سے اپنا کردار ادا کریں۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ کمی عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں غیر معمولی کمی کے باعث ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عوام کو یہ ریلیف کتنے عرصے تک ملتا ہے۔ عالمی منڈی میں اگر تیل کی قیمتیں بڑھنا شروع ہو گئیں تو یہ ریلیف کم ہونا شروع ہو جائے گا۔ ملکی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے  توانائی کی قیمتوں میں توازن اور تسلسل انتہائی ضروری ہے۔ خاص طور پر ترقی پذیر ملکوں کی معیشت کے لیے توانائی کی قیمتوں میں ردوبدل جلد نہیں ہونا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے ملکوں میں تیل کی قیمتیں سالانہ میزانیے میں طے کی جاتی ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک برس تک پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں یکساں رہتی ہیں۔ اس طریقے سے ٹرانسپورٹ کے کرایوں کو متعین کرنا آسان ہو جاتا ہے۔

یوں ملکی معیشت یکساں رفتار سے آگے بڑھتی ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں تو مارکیٹ میکنزم کامیاب ہے لیکن پاکستان جیسے معاشی طور پر کمزور ملک کے لیے یہ طریقہ کار زیادہ کامیاب نہیں ہے۔اب تو بجلی کی قیمتیں بھی گاہے بگاہے بڑھتی رہتی ہیں۔ اگر حکومت تیل‘ گیس اور بجلی کی قیمتیں سالانہ بنیادوں پر متعین کرے تو اس کے ملکی معیشت پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ اس وقت عوام کو تیل کی قیمتوں کے حوالے سے خاصا ریلیف مل رہا ہے۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ یہ ریلیف مختصر مدت کے لیے نہ ہو بلکہ طویل المدت بنیادوں پر ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔