سال کی آخری دھوپ

انتظار حسین  جمعرات 1 جنوری 2015
rmvsyndlcate@gmail.com

[email protected]

پرانا برس رخصت ہوا۔ نئے سال کی آمد آمد۔ بتائیے پرانے برس کی رخصتی پر افسوس کریں یا اس رخصتی کو فراموش کر کے نئے سال کو خوش آمدید کہیں۔ پرانے کی طرف سے دم کے دم میں آنکھیں پھیر لینا یہ آئین مروت کے خلاف ہے۔ ارے اس پرانے برس کی سنگت میں جسے 14ء کہا جاتا تھا ہم نے بارہ مہینے گزارے ہیں۔

اچھے گزارے یا برے گزارے یہ بعد کی بات ہے۔ بارہ مہینے کی سنگت بھی کوئی معنی رکھتی ہے۔ ویسے تو یار لوگ نئے سال ہی کی خوشی مناتے ہیں مگر ہم نے ایسے وضعدار بھی دیکھے ہیں جو جانے والے سال کی عزت کے ساتھ رخصت کا اہتمام کرتے ہیں۔ لیجیے ہمیں کتنے برس پہلے کی ایک ایسی ہی تقریب یاد آ گئی۔ سال ختم ہو رہا تھا۔ سمجھ لو کہ یہ اس کا آخری دن تھا یعنی 31 دسمبر۔ ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ بیگم حجاب امتیاز علی بول رہی تھیں۔ انتظار صاحب یہ سال ختم ہو رہا ہے۔ آج کی دھوپ جاتے سال کی آخری دھوپ ہے۔ دن ڈھلنے سے پہلے آ جائیے اور ہمارے ساتھ برس کی آخری دھوپ سے ملاقات کیجیے۔

برس کی آخری دھوپ۔ اس سے آخری ملاقات کی دعوت۔ ایسی تقریب کا اہتمام حجاب امتیاز علی ہی کر سکتی تھیں بہت بوڑھی ہو گئی تھیں۔ ان کے اندر جو ایک رومانی روح تھی وہ ابھی تک جوان تھی۔ ارے اب وہ خود بھی تو ایک گزرے عہد کی آخری دھوپ تھیں۔ وہ عہد گزر گیا تھا مگر اس عہد کی دھوپ کا یہ آخری ٹکڑا دیوار گلستاں پر ابھی تک جھلملا رہا تھا۔ بیگم حجاب کی کوٹھی کا لان بھی تو اپنی جگہ ایک گلستان تھا۔ بس اس گلستان کو دیکھنے کے لیے تصور شرط ہے۔

ہاں تو مہمان جمع تھے۔ مطلع ابر آلود تھا۔ مہمان اندر بیٹھے تھے۔ چائے چل رہی تھی اور دنیا بھر کے قصے۔ بس ایک بیگم حجاب تھیں کہ بار بار باہر جا کر ابر آلود مطلع کو دیکھتی تھیں اور اندر آ جاتی تھیں۔ مگر ایک دفعہ وہ باہر سے خوش خوش اندر آئیں۔ اعلان کیا کہ ابر چھنٹ گیا ہے۔ دھوپ نکل آئی ہے۔ اسے چل کر دیکھ لیجیے۔ مگر کوئی اٹھا ہی نہیں۔ بہر حال ہم اٹھ کھڑے ہوئے۔ باہر جا کر دیکھا۔ واقعی دھوپ نکل آئی تھی۔

’’انتظار صاحب‘ یہ آخری دھوپ ہے۔ کل جو دھوپ نکلے گی وہ یہ دھوپ نہیں ہو گی‘‘۔

’’اور سورج جو اب غروب ہو رہا ہے‘‘۔

بولیں ’’یہ سورج تو اب ڈوب رہا ہے۔ کل جو سورج نکلے گا وہ یہ سورج نہیں ہو گا۔ تو اس دھوپ کو دیکھ لیجیے۔ بس جا رہی ہے۔ کوئی دم کی مہمان ہے‘‘۔

ہم نے اس دھوپ کو دیکھا۔ اسے آخری سلام کیا اور یہ کہتے ہوئے اندر آ گئے کہ ع

اک دھوپ تھی جو ساتھ گئی آفتاب کے

سال کی رخصتی کی تو بس یہ ایک یہی تقریب ہمارے دھیان میں منڈلا رہی ہے۔ باقی جو تقاریب یاد آ رہی ہیں وہ سب نئے سال کے استقبال کی تقریبات ہیں۔ دیکھئے اس وقت ہم پاکستان کی پہلی دہائی میں پہنچے ہوئے ہیں۔ نیا ملک بن گیا ہے مگر اس تقریب سے آگے چل کر جن تعصبات نے جنم لیا وہ ابھی ہمارے دھیان میں نہیں تھے۔ نیا سال اسی طرح منایا جاتا تھا کہ جیسے باقی دنیا کے ساتھ ہمارا بھی نیا سال ہے۔ لاہور کی اس زمانے کی مال روڈ کو دھیان میں لائیے۔ فوڈ اسٹریٹ نام کی کوئی اسٹریٹ شہر میں نہیں تھی۔ مال روڈ ریستورانوں کی اسٹریٹ تھی۔ 31 دسمبر کی شام کوٹی ہاؤس میں آئے کیا جگمگاتا تھا۔ ہاں جب گیارہ بجے کے لگ بھگ ہم ٹی ہاؤس سے نکلتے تھے۔

ہم کون۔ ارے یہی گنے چنے ہمارے یاران تیز گام ناصر کاظمی۔ مظفر علی سید‘ حنیف رامے‘ احمد مشتاق۔ مشتے نمونہ از خروارے۔ یار تو ہمارے اور بھی تھے۔ تیز گام ہم نے اس اعتبار سے کہا کہ ان میں سے کتنے کتنی جلدی گزر گئے۔ ہاں تو مال روڈ پر بڑھتے جائیے۔ ریستورانوں کا رنگ نئے سال کی شام کے حساب سے بدلتا جائے گا۔ چیئرنگ کراس کو عبور کر کے ایک شاندار ہوٹل۔ اس زمانے کے حساب سے شاندار ہوٹل نظر آتا تھا۔ یعنی میٹرو۔ گرمیوں کی شاموں میں تو خیر اس کی شان اور ہوتی تھی۔

اوپن ائیر میں ارد گرد چائے کے دھتیوں کے لیے چائے۔ باقی جس کا جو پینے کو جی چاہے پئے۔ بیچ میں بال روم ڈانسنگ کے لیے چمکتا دمکتا فلور۔ اور ہفتے کے آخری شام کو کیبرے۔ یہ اہتمام سال میں دو شاموں کو بطور خاص کیا جاتا تھا‘ کرسمس کی شام اور بڑے دن کی شام۔ ان دو شاموں پر داخلہ ٹکٹ سے ہوتا تھا۔ ابھی وہ زمانہ دور تھا جب سوال اٹھا کہ کس کا نیا سال۔ ہمارا تو نیا سال یہ نہیں ہے۔ اس دن کی چھٹی کیوں ہو اور نوجوان رنگ رلیاں کیوں منائیں مگر غالبؔ نے کونسے سال اور کونسے کیلنڈر کو پیش نظر رکھ کر یہ شعر کہا تھا ؎

دیکھئے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض
اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے

مطلب یہ کہ جب ایک کیلنڈر کو آپ نے اپنا لیا اور اس کے حساب سے آپ اپنا کام کاج کرنے لگے تو وہ کیلنڈر آپ کو خوش ہونے کا ایک موقعہ فراہم کرتا ہے تو اس سے کیوں بدکا جائے۔ بہر حال ہمارے یاروں کی ٹولی تو نیو ایئرز ڈے سے کم از کم اس کی شام سے نہیں بدکتی تھی۔ کسی نہ کسی طور اور شاموں کی طرح اس شام میں میٹرو میں بیٹھنے کی صورت پیدا کر لیتی تھی۔ اینجلا بیشک فلور پر رقص کرتی رہے۔ ہم ناصر کاظمی سے نئی غزل سنیں گے۔ باقی کیبرے اور بال روم ڈانسنگ تو ع

لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجیے

صبح ہونے پر روزناموں کے خصوصی نمبر خریدیے اور نئے سال کی تقریب سے لکھے جانے والے مضامین پڑھئے۔ تصویریں دیکھئے۔ ان دنوں تو یہی کچھ تھا۔ ٹی وی کی ابھی نمود نہیں ہوتی تھی۔ ریڈیو پاکستان البتہ اس دن کی تقریب سے نئے پروگرام پیش کرتا تھا۔ لیجیے ناصر کاظمی کا ایک شعر سن لیجیے ؎

پرانی صحبتیں یاد آ رہی ہیں
چراغوں کا دھواں دیکھا نہ جائے

پرانی صحبتیں کونسی۔ ہمارا معاملہ بس اتنا تھا کہ ملا کی دوڑ مسجد تک۔ ہماری دوڑ ہر پھر کر ٹی ہاؤس تک۔ اور یہاں تو بارہوں مہینے ہی میلہ لگا رہتا تھا۔ اور ہر پھر کر وہی ادب اور وہی ہم۔ چلو منہ کا مزہ بدلنے کے لیے تھوڑی سیاسی بحث بھی سہی۔ یہ تو آگے چل کر ہوا کہ ادب پیچھے رہ گیا۔ اب سیاست کی گرم بازاری رہنے لگی۔ ٹی ہاؤس نے یہ رنگ جنگِ ستمبر کے بیچ پکڑا۔ پھر یہ رنگ گہرا ہوتا ہی چلا گیا۔

مگر ذکر تو نئے سال کی تقریبات کا تھا۔ ارے جب ادیباؤں نے اپنے اپنے گھروں میں ادبی محفلیں اراستہ کرنی شروع کیں تو پھر نیا برس کیسے خالی گزر جاتا سو ہم نے نئے برس کی تقریب صرف بیگم حجاب ہی کے گھر پر منعقد ہوتے نہیں دیکھی۔ جمیلہ ہاشمی کے گھر جا کر بھی منائی اور کشور ناہید کے گھر پر جا کر بھی۔

اور اب۔ اب کی نہ پوچھئے۔ اب ہم شام پڑے علی آڈیٹوریم جائیں گے۔ مجمع الہی توبہ۔ آخر میں یہ ہوتا ہے کہ سامعین قطار اندر قطار۔ جنھیں کرسی نہ ملی وہ فرش پر پسر گئے۔ کس شوق سے ضیا محی الدین کو سن رہے ہیں۔ یعنی اب نئے سال کا استقبال ہم اس طرح کرتے ہیں کہ اس نرالی محفل میں پہنچتے ہیں جہاں ضیا محی الدین نئے پرانے اردو ادب کو چھان کر نظم و نثر کے ہیرے جواہرات چنتے ہیں۔ پھر اپنے حسنِ ادا سے انھیں چار چاند لگاتے ہیں۔ سو اب دن ڈھلنے لگا ہے اور ہم اس محفل میں شرکت کے لیے وقت سے پہلے دوڑے چلے جا رہے ہیں کہ بیٹھنے کی جگہ میسر آ جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔