بلدیاتی نظام اور دہشت گردی

ظہیر اختر بیدری  جمعرات 1 جنوری 2015
zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

[email protected]

بلدیاتی نظام کی غیر موجودگی سے پیش آنے والی مشکلات کا احساس آج ان لوگوں کو بھی ہو رہا ہے جو دہشت گردی کو ختم کرنے کی منصوبہ بندیوں میں مصروف ہیں۔ ملک کے بڑے شہروں میں چھپے ہوئے دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں میں جو مشکلات پیش آ رہی ہیں ان پر نہ پولیس میں اضافے سے قابو پایا جا سکتا ہے نہ رینجرز کی تعداد بڑھا کر نہ فوج استعمال کر کے۔

اس مہم میں کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ علاقائی سطح پر ایسی تنظیمیں موجود ہوں جو اپنے اپنے علاقوں میں مشکوک لوگوں پر نظر رکھ سکیں اور ان کے خلاف کارروائیوں میں انتظامیہ کی مدد کر سکیں اور ایسی تنظیمیں صرف بلدیاتی نظام فراہم کر سکتا ہے جو بدقسمتی سے ہمارے ملک میں صرف اس وقت دکھائی دیتا ہے جب ملک پر فوج کی حکمرانی ہوتی ہے۔ کونسلر سے لے کر یوسی ناظم، ٹاؤن ناظم اور مرکزی سٹی ناظم تک جو مرحلہ وار تنظیمیں جنرل پرویز مشرف کے متعارف کردہ بلدیاتی نظام میں موجود تھیں وہ علاقائی مسائل حل کرنے کے ساتھ ساتھ ہنگامی حالات میں مجرموں کے خلاف مربوط کارروائیوں کے لیے بھی ناگزیر تھیں، لیکن ہماری سیاسی اشرافیہ کی بلا روک ٹوک لوٹ مار کی راہ میں یہ نظام دیوار بن کر حائل ہو رہا تھا لہٰذا ہماری سیاسی اشرافیہ پچھلے 8-7 سال سے اس نظام کو ٹالتی آ رہی ہے۔

اگرچہ بہانے بے شمار بنائے جا رہے ہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ بلدیاتی نظام اقتدار مافیا کے مفادات کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ بنا ہوا تھا۔ اس حوالے سے ہماری اقتدار مافیا کو دو بڑے خطرات لاحق ہیں۔ ایک یہ کہ ایم این اے اور ایم پی اے علاقائی مسائل کے حل کے نام پر جو کروڑوں روپوں کے فنڈز حاصل کر رہے تھے۔ بلدیاتی نظام کے نفاذ کے بعد ان فنڈز کا راستہ رک جاتا حکومتوں کا مفاد یہ تھا کہ علاقائی مسائل کے حل کے لیے دی جانے والی اربوں کی رقوم ایم پی اے اور ایم این ایز کے منہ میں ایسا چارہ بن گئی تھی کہ یہ محترمین صوبائی حکومتوں کے خلاف آواز نہیں اٹھا سکتے تھے اور انھیں قابو میں رکھنے کے لیے ترقیاتی فنڈز بہت کارآمد تھے۔ اس حوالے سے صوبائی حکومتوں کو جو دوسرا خطرہ لاحق تھا وہ اختیارات کے چھن جانے کا تھا۔

ہماری سیاسی وڈیرہ شاہی اپنے اختیارات میں کسی کی دخل اندازی برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں اور بلدیاتی نظام کی خوبی یا خرابی یہ ہے کہ وہ اختیارات کے ارتکاز کی نفی کرتا ہے اور اختیارات کی تقسیم نچلی سطح تک اس طرح کرتا ہے کہ کسی ایک ہاتھ یا چند ہاتھوں میں اختیارات کے ارتکاز کا خطرہ نہیں رہتا۔ ہمارے ملک میں جاگیردارانہ نظام کو تسلیم کرنے سے انکار کرنے والے لوگ خود جاگیردار ہیں۔

یہ جاگیردار اور وڈیرے ہزاروں ایکڑ زرعی زمینوں کے مالک آج بھی ہیں لیکن ان کا موقف یہ ہے کہ پاکستان میں جاگیردارانہ نظام موجود نہیں۔ یہ موقف  صرف جاگیردار طبقے کا ہی نہیں بلکہ مڈل کلاس خاص طور پر سندھ کی مڈل کلاس بھی ’’بوجوہ‘‘ سندھ میں جاگیردارانہ نظام کی موجودگی سے انکار کرتی ہے اور بدقسمتی یہ ہے کہ یہ مڈل کلاس وڈیروں کو سندھی تہذیب کی نمایندہ اور باقیات سمجھتی ہے۔ بلدیاتی نظام کے حوالے سے بات کرتے ہوئے جاگیرداری کا مسئلہ اس لیے زیر بحث آ گیا کہ جاگیردارانہ سیاست اور جاگیردارانہ ذہنیت ہمارے معاشرے میں اس قدر جڑیں پکڑ چکی ہے کہ نچلی سطح سے اوپر تک اس ذہنیت کے مظاہرے دیکھے جا سکتے ہیں جس میں ’’اختیارات کے ناجائز استعمال‘‘ کی بیماری زندگی کے ہر شعبے میں دکھائی دیتی ہے۔

اس حوالے سے مجھے ایک ذاتی صدمہ اس وقت ہوا جب میں جی ایم سید سے ایک طویل گفتگو اس وقت کر رہا تھا جب وہ بستر مرگ پر تھے۔ ڈیڑھ گھنٹے کی اس طویل گفتگو میں اگرچہ  سید صاحب نے بہت سارے سربستہ رازوں سے پردہ اٹھایا لیکن میں اس وقت حیران رہ گیا جب میرے ایک سوال کے جواب میں جی ایم سید نے کہا۔ سندھ ہی میں نہیں بلکہ پورے پاکستان میں جاگیردارانہ نظام ختم ہو گیا ہے۔ جاگیردارانہ نظام ایک معاشی نظام ہی نہیں بلکہ ایک ذہنیت بھی ہے جس کا مشاہدہ ہم قدم قدم پر کرتے رہتے ہیں اور سیاست میں ولی عہدی کا کلچر اسی نظام کی دین ہے۔

ہم نے اپنی گفتگو کا آغاز دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بلدیاتی نظام کی اہمیت سے کیا تھا۔ آج پاکستان دہشت گردی کی جس تباہ کن لپیٹ میں ہے اس کا مشکل مرحلہ ان دہشت گردوں سے نجات کا ہے جو شہروں میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک پھیلے ہوئے ہیں۔ ہماری فوج ضرب عضب کے ذریعے شمالی وزیرستان میں بڑی موثر کارروائیاں کر رہی ہے اور ان علاقوں میں دہشت گردوں کو بڑے نقصان کا سامنا بھی ہے لیکن دہشت گرد تنظیموں نے شہری علاقوں کے مضافات اور کچی آبادیوں میں اس طرح پناہ لے رکھی ہے کہ ان علاقوں سے دہشت گردوں کا خاتمہ کرنا نہ پولیس کے بس کی بات ہے نہ رینجرز کے بس کی بات کیونکہ دہشت گردوں کی نشاندہی کے بغیر نہ پولیس کوئی کامیاب کارروائی کر سکتی ہے نہ رینجرز۔ اس حوالے سے خفیہ ایجنسیوں کی اطلاعات بڑی کارآمد ہوتی ہیں لیکن کراچی جیسے سیکڑوں میل پر پھیلے اور ہزاروں کی بستیوں پر مشتمل شہر میں یہ ممکن نہیں کہ خفیہ ایجنسیوں کے ذریعے ان علاقوں میں چھپے ہوئے دہشت گردوں کا خاتمہ کیا جا سکے۔

صرف اور صرف بلدیاتی نظام ہی وہ واحد ذریعہ ہے جو کونسلر اور یوسی جیسے چھوٹے چھوٹے علاقوں سے لے کر سٹی ناظم تک معلومات کے حصول کا ذریعہ ہے اور ان معلومات کی بنیاد پر قانون نافذ کرنے والے ادارے دہشت گردوں کو ختم کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ ان حقائق کی روشنی میں یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ بلدیاتی نظام نہ صرف علاقائی مسائل کے حل کے لیے ناگزیر ہے بلکہ چھوٹے چھوٹے علاقوں تک پھیلے ہوئے دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے بھی بلدیاتی نظام ناگزیر ہے۔ ہم نے ان حقائق کی نشاندہی کر دی ہے کہ علاقائی مسائل کے نام پر کروڑوں کا فنڈ حاصل کر کے کھا جانا، اختیارات کا ارتکاز یہ دو ایسی بڑی ضرورتیں ہیں جو ہماری اقتدار مافیا کو بلدیاتی نظام کا راستہ روکنے پر مجبور کر رہی ہیں۔

لیکن اس حوالے سے ذرا گہرائی سے نظر ڈالی جائے تو ایک اور حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ بلدیاتی نظام کی عدم موجودگی کی وجہ سے بڑی پارلیمانی سیاسی جماعتوں کا بھرم باقی ہے۔ ہماری بڑی پارلیمانی پارٹیاں عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے جہاں دوسرے بے شمار حربے استعمال کرتی ہیں یہی حربے ان کی کامیابیوں کے معاون بن جاتے ہیں ان میں سب سے بڑا حربہ دھاندلی ہے۔ عام انتخابات میں جس قدر بڑے پیمانے پر منظم دھاندلی ہوتی ہے اس کا اندازہ ہم حالیہ بحران سے لگا سکتے ہیں۔ جو 2013ء کے انتخابات میں ہونے والی دھاندلی کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے۔

عام انتخابات میں دھاندلی تو بڑی آسانی سے کی جا سکتی ہے لیکن بلدیاتی انتخابات کے چھوٹے چھوٹے حلقوں میں سیاسی وڈیروں کے لیے دھاندلی کی گنجائش پیدا کرنا اس لیے مشکل ہوتا ہے کہ ان چھوٹے چھوٹے حلقوں میں ووٹ دینے والے اور ووٹ لینے والے دونوں ہی ایک دوسرے کو اچھی طرح جانتے ہیں اور ووٹروں کی تقسیم اور ووٹروں کی ذہنیت سے بھی ان علاقوں کے عوام واقف ہوتے ہیں۔ اس پس منظر میں بلدیاتی انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلیوں کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں اور عوام کی حمایت سے محروم سیاسی پارٹیوں کے لیے دھاندلی کے بغیر بلدیاتی انتخابات میں فتح حاصل کرنا مشکل ہوتا ہے یہی وہ خطرہ ہے جو بڑی سیاسی پارٹیوں کو مجبور کر رہا ہے کہ وہ جس حد تک ممکن ہو بلدیاتی انتخابات سے گریز کریں لیکن موجودہ خطرناک صورتحال اور ملک کے مستقبل کا تقاضا یہی ہے کہ ہر صورت میں بلدیاتی انتخابات ہوں۔ دیکھیے ہماری محترم عدلیہ اس حوالے سے کیا اقدام کرتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔