نجات کون دلائے گا؟

تنویر قیصر شاہد  جمعرات 1 جنوری 2015
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

سعودی عرب کے ممتاز انگریزی اخبار ’’عرب نیوز‘‘ کے معروف اخبار نویس عبدالرحمن الرشید کا کہنا ہے: ’’شام سے لے موریطانیہ اور مصر سے لے کر سوڈان تک، عالمِ عرب کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اسے دو بڑے امراض نے آ گھیرا ہے۔ ایک تو ہے مذہب کے نام پر سیاست کرنے والی جماعتیں اور دوسرا ہے مسلّح شدت پسند تنظیمیں، جب تک ان سے نجات نہیں ملتی، خطہ عرب مہذب جمہوریتوں کی شکل اختیار نہیں کر سکتا اور نہ ہی مکمل امن قائم ہو سکتا ہے۔‘‘

جناب عبدالرحمن الرشید نے جمہوریت اور کسی بھی جمہوری عرب ملک کو لاحق جن کمزوریوں کی نشاندہی کی ہے، یہ بدقسمتی سے پاکستان کو بھی لاحق ہیں۔ پاکستان میں یہ گروہ کھمبیوں کی طرح اُگ آئے ہیں۔ ویسے تو اس کا آغاز اسی وقت ہو گیا تھا جب پاکستان میں قراردادِ مقاصد منظور کی گئی تھی لیکن جنرل ضیاء کے دور میں مذہب کے نام پر سیاست کرنے والی جماعتوں اور لیڈروں کی قوت و ہیبت، شان و شوکت اور تعداد میں زیادہ اضافہ ہوا۔ یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ مذہب کے نام سے استوار کی جانے والی سیاسی جماعتوں میں بہت فائدے مخفی ہیں۔ جمہوریت کی بھی ’’خدمت‘‘ ہو جاتی ہے اور ذاتی بھی۔ کوئی آپ پر انگلی بھی نہیں اٹھا سکتا اور موقع ملے تو اقتدار میں بھی حصہ بقدرِ جُثہ مل جاتا ہے۔

چند روز قبل مَیں نے ایک اردو اخبار کے سٹی پیج پر ایک ’’مذہبی رہنما‘‘ کی تصویر دیکھی اور چونک کر رہ گیا۔ ایک مکتبِ فکر کے یہ ’’مذہبی رہنما‘‘ اعلان کرتے ہوئے پائے گئے کہ وہ ایک مرحوم مذہبی لیڈر کی جماعت بحال کرنے جارہے ہیں اور وہ اس کے مرکزی رہنما بھی  ہوں گے۔

موصوف کی تصویر دیکھ اور خبر پڑھ کر مَیں چونک گیا۔ مجھے میرا ایک جگری یار شدت سے یاد آنے لگا جس نے نہایت اخلاص و جذبات میں اور متذکرہ مرحوم مذہبی لیڈر کی محبت میں اپنی زندگی تباہ کر لی تھی۔ فیصل آباد زرعی یونیورسٹی میں اپنی تعلیم بھی برباد کی اور گھر والوں کو بھی۔ آخر کار ایک مذہبی اور جہادی تنظیم بنائی اور شہید ہو گیا۔ اس کے مرنے کے بعد مَیں فاتحہ خوانی کے لیے اس کے گاؤں گیا۔ گھریلو زندگی اور بچوں کی حالت دیکھ کر دل بھر آیا۔ اس کی قبر پر حاضر ہوا تو دل اور آنکھیں قابو میں نہ رہیں۔ اب مرحوم مذہبی رہنما کی جماعت کے ’’احیاء‘‘ کے حوالے سے اس ’’مذہبی رہنما‘‘ کا دعویٰ پڑھا تو مَیں ششدر رہ گیا۔

مذہب کے نام پر بننے والی جماعتوں کے کئی رخ ہوتے ہیں۔ ملک میں جمہوریت ہو تو ان کے ساتھ۔ آمریت آجائے تو اس کے ساتھ۔ نواز شریف اور زرداری صاحب آجائیں تب بھی حکومت میں اور اگر جنرل پرویز مشرف آئین اور منتخب حکمران کو روندتے ایوانِ اقتدار میں داخل ہو جائیں تب بھی اس کے ساتھ مثلاً ایم ایم اے۔ حتیٰ کہ اپنے قریبی رشتے دار بھی انھی آمروں کے ادوارِ حکومت میں اقتدار و اختیار کا حصہ بنائے گئے۔

ایک مذہبی جماعت کے رہنما نے تو کمال چابک دستی سے نواز شریف حکومت سے بھی استفادہ کیا اور بی بی صاحبہ کے دور میں بھی اقتدار سے مسلسل رس کشید کرتے رہے۔ مشرف کے آمرانہ دور میں کئی مذہبی جماعتوں نے متحد ہو کر آمر ہی کے تعاون سے پورے صوبے کی حکومت حاصل کر لی۔ ان جماعتوں کے کردار سے اجتماعی حیثیت میں جمہوری اقدار اور جمہوریت کو نقصان ہی پہنچا۔ چنانچہ عرب صحافی عبدالرحمن الرشید کا تجزیہ درست بھی ہے اور ان کا تجویز کردہ نسخہ بھی مستحسن۔ سوال مگر یہ ہے کہ اس نسخے کو بروئے کار کون لائے گا؟

عالمِ عرب ہی نہیں، پورے عالمِ اسلام میں جتنی بھی مذہبی جماعتیں اقتدار کے حصول کے لیے برسرِ عمل ہیں، تقریباً سب کا ایک ہی ایجنڈا ہے: جمہوریت کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کرو اور پھر جمہوریت اور جمہوری اقدار کو بھول جاؤ۔ الجزائر میں ایک مذہبی جماعت کے سربراہ مدنی صاحب تو اس کا اعلان بھی کرتے تھے اور اقتدار میں آ کر اس پر عمل بھی کیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ الجزائر میں جمہوریت ختم ہو گئی اور اب وہاں شدت پسندوں کا غلبہ ہے جو خونریزی کر رہے ہیں۔

الزام فرانس پر لگا دیا گیا ہے کہ اس نے الجزائری مذہبی جماعتوں کو چلنے نہیں دیا۔ غزہ میں فلسطینی اتھارٹی میں ’’حماس‘‘ نے بھی اسی غلطی کا ارتکاب کیا۔ ایران میں آیت اللہ خمینی صاحب نے بھی یہی کام کیا۔ ان کا اقتدار میں آنا جمہوریت کی فتح تھی لیکن اقتدار میں آتے ہی انھوں نے ملک میں تھیو کریسی نافذ کر دی۔ چلو جمہوریت کی چُھٹی ہوئی۔

سوڈان میں حسن ترابی اور عراق میں نوری المالکی کی مذہبی اور شدت پسند تنظیموں نے بھی یہی کام کیا۔ جمہوریت کے نام پر اقتدار میں آئے اور ڈکٹیٹر بن گئے۔ نوری المالکی امریکیوں کے تعاون سے (بقول امریکی صحافی ڈیکسٹر فلکنس) اور جمہوریت کے راستے سے عراق کے حکمران تو بن گئے تھے لیکن اقتدار میں آ کر صدام حسین سے بڑے آمر بن گئے۔ اپنے تمام مخالفین کو قتل کروایا اور مکرتے بھی رہے۔ مالکی صاحب بھی ’’دعوۃ‘‘ نامی مذہبی جماعت کے حصہ دار تھے اور خود کو انقلابی بھی کہتے تھے۔

’’داعش‘‘ انھی کے مظالم کا رد عمل کہا جا رہا ہے۔ حسن الترابی کی مذہبی جماعت کے مظالم سے تنگ آ کر سوڈان دو حصوں میں تقسیم ہو گیا اور عراق تقسیم ہونے کو ہے۔ عراق نوری المالکی کے جارحانہ اقدامات کی وجہ سے آج دو فرقوں میں بَٹ چکا ہے۔ دونوں فرقے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں۔ جمہوری روایات، درمیان میں، قتل ہو کر رہ گئی ہیں۔ پہلے امریکا نے عراق میں خون بہایا اور اب عراق کے دونوں بڑے مذہبی گروہ اپنے اپنے مخالفین کا خون بہا رہے ہیں۔ مالکی کی جگہ سنبھالنے والے نئے عراقی حکمران بے بسی کا نمونہ بن چکے ہیں۔

مصر میں کیا ہوا؟ مذہبی جماعت اخوان المسلمین جمہوریت کے نام پر اقتدار میں آئی لیکن اخوان کے صدر مُرسی صاحب نے آتے ہی جمہوری روایات اور اقتدار کے برعکس اقدامات شروع کر دیے۔ وہ تو حسنی مبارک سے بھی بڑھ کر نکلے؛ چنانچہ ملک خون میں نہانے لگا اور جمہوریت کا جنازہ نکل گیا۔ پھر جنرل عبدالفتح السیسی آیا اور مرسی کے اقتدار کی صف لپیٹ کر رکھ دی۔ اخوان کے مرسی کے اقدامات کی وجہ ہی سے آج عالمِ عرب اور خلیجی ممالک منقسم ہو کر رہ گئے ہیں اور لوگ جمہوریت سے توبہ کرنے لگے ہیں؛ چنانچہ یہ جو سعودی صحافی عبدالرحمن الرشید نے تجزیہ کیا ہے کہ مذہب کے نام پر سیاست کرنے والی مذہبی جماعتیں اور مسلّح انتہا پسند تنظیمیں جمہوریت کے لیے دو بڑے امراض ہیں، غالباً ٹھیک ہی تجزیہ کیا ہے۔

جب تک یہ موجود ہیں عالمِ اسلام مہذب جمہوریت کی شکل اختیار نہیں کر سکتا۔ یہ تجزیہ پاکستان پر بھی پوری طرح منطبق ہوتا ہے۔ سوال مگر یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں ان سے نجات دلائے گا کون؟ مذہب کے نام پر بروئے کار آنے والی یہ جماعتیں، جنہوں نے جمہوریت کا لبادہ بھی اوڑھ رکھا ہے، معاشی اعتبار سے بہت تگڑی اور طاقتور ہو چکی ہیں۔ چند روز قبل تو ہماری سینیٹ میں ایک رکن کے ایک سوال کے جواب میں پاکستان کے ان مذہبی اداروں کے نام بھی بتا دیے گئے ہیں جو غیر ممالک سے بھاری فنڈز حاصل کرتے ہیں اور ان ممالک کے نام بھی ظاہر کر دیے گئے ہیں جو یہ فنڈز فراہم کر رہے ہیں۔ یوں پاکستان کی بے بسی بھی ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔