تیل دیکھو، تیل کی دھار دیکھو

ڈاکٹر سید اقبال محسن  جمعرات 1 جنوری 2015

خام تیل کی قیمت صرف تین مہینے میں نصف تک گرچکی ہے۔ ستمبر کے مہینے میں 98 ڈالر فی بیرل کا تیل 56 ڈالر میں بک رہا ہے۔ 50 ڈالر تک مزید گرنا تو بالکل سامنے کی بات ہے۔ کیا اس سے زیادہ بھی گرے گا؟ ہاں اس کا امکان ہے لیکن صرف کچھ دنوں کے لیے اور اس کے بعد پھر ستر تک واپس آجائے گا۔ اس سے آگے کی پیشن گوئی ممکن نہیں۔

تیل کی قیمتیں چڑھتی کیوں ہیں یہ تو ہمیں معلوم ہے لیکن جب گرنے لگتی ہیں تو عام آدمی اس خوشی میں کہ تیل سستا ہوگیا ہے یہ پوچھنا بھول جاتا ہے کہ یہ سستا کیوں ہوا۔ سپلائی اور ڈیمانڈ کا بنیادی اصول فری مارکیٹ میں قیمتوں کا تعین کرتا ہے لیکن یہ جاننا کہ سپلائی بڑھ گئی ہے یا ڈیمانڈ کم ہوئی اور یہ کہ سپلائی کیوں بڑھی یا ڈیمانڈ کیوں گھٹی، ایک پیچیدہ عمل ہے اور اگر قیمت مسلسل گرنے لگ جائے تو سمجھ لیں دونوں چیزیں ایک ساتھ ہو رہی ہیں یعنی طلب کم ہوتی جا رہی ہے اور رسد کے بڑھنے کو کوئی روک نہیں رہا۔

تیل کا ایک زمانہ تو وہ تھا جب امریکا کی سات کمپنیوں کی مکمل اجارہ داری تھی۔ وہی دنیا بھر کے ملکوں میں جاکر تیل کے کنوؤں کی کھدائی کرتیں۔ خود ہی قیمتیں طے کرتیں اور آپ ہی خریدار ہوتیں۔ تیل پیدا کرنے والے تیسری دنیا کے ملکوں کے کمزور حکمرانوں کو کچھ رقم رائلٹی کہہ کر پکڑا دیتے اور حساب بے باک۔ دو ڈالر کا یہ تیل ساٹھ کی دہائی میں وافر مقدار میں دستیاب تھا اور یہ وہ وقت تھا جب دنیا میں نئے ذخائر بھی ہر دن دریافت ہورہے تھے۔

لیکن عرب اسرائیل جنگ کے بعد ستر کی دہائی کا آغاز ہوتے اور کرنل قذافی کے نمودار ہونے پر اوپیک میں جان پڑگئی اور انھوں نے کہنا شروع کیا کہ یہ قیمتی خزانے کوڑیوں کے دام نہیں لٹائے جاسکتے اورہمیں اس کی مناسب قیمت دی جائے ورنہ ہم سپلائی بند کردیںگے۔ یوں سن چوہتر میں تیل نو ڈالرکا ہوا اور سن اٹھتر میں 36 ڈالر کا۔ تیل عربوں کا ہتھیار بن گیا اور امریکا کی ناک میں نکیل پڑگئی۔

مگر یہ نہ بھولیں کہ دنیا طاقت ورکی ہے۔کمزورکا داؤ ایک دفعہ چل بھی جائے تو طاقت ور تلملاتا رہتا ہے اور دیگر راستے تلاش کرتا ہے۔ مغربی ممالک نے جب دیکھا کہ سپلائی کا کنٹرول مشرق وسطیٰ اور انڈونیشیا یا وینزویلا جیسے چھوٹے ملکوں کے ہاتھ میں چلا گیا ہے تو انھوں نے ڈیمانڈ کو کنٹرول کرنا شروع کردیا۔ جاپان کی بنائی ہوئی کاریں مقبول ہونے لگیں جو امریکی گاڑیوں کے مقابلے میں کم پٹرول کھاتی تھیں۔گھروں کو سردیوں کے لمبے مہینے میں گرم رکھنے کے لیے بہتر انسولیشن کا استعمال شروع ہوا۔ ساتھ ہی امریکا نے تیل ذخیرہ کرنے کے وسیع انتظامات کیے اور چند سالوں کی کوششوں کے بعد یہ نتیجہ نکلا کہ تیل پیدا کرنے والے ممالک 18 ڈالر پر تیل بیچنے پر مجبور ہوگئے۔ جس طرح ستر کی دہائی مغرب کے لیے Oil Crisis کے سال ہیں۔ اسی طرح اسی کی دہائی اوپیک ممالک کے لیے Price Crash کے سال ہیں۔

نائن الیون کا معاملہ، افغانستان پر بمباری اور عراق پر امریکی حملہ، ایسے تابڑ توڑ واقعات ہیں جو سپلائی اور ڈیمانڈ کے اصول پر حاوی ہوگئے اور تیل کی قیمتیں بڑھتی چلی گئیں۔ عراق کی جنگ کے دوران تیل تیس ڈالر سے پچاس ڈالر اور اس کے دو سال کے اندر 2007 میں اپنی انتہائی قیمت یعنی 147 ڈالر پر پہنچ گیا۔ لیکن اس کی دوسری وجہ یہ بھی تھی کہ یہ وہ سال ہیں جب چین اور ہندوستان ترقی کی راہ پر چل پڑے تھے۔ ٹیکنالوجی اور صنعتوں میں اضافہ غیر معمولی حد تک ہوا۔ تیل ان ملکوں کو ہر قیمت پر درکار تھا۔ 147 ڈالر کا تیل تو صرف چند ہفتے رہا لیکن پچھلے سات برسوں سے اس کی قیمت ایک سو ڈالر سے کچھ اوپر رہی۔

یہ تیل کی اونچی قیمت تھی جس نے سویت یونین کے انہدام کے بعد اور روس کے بے حیثیت ہونے کے بعد اسے دوبارہ G-8 کے درجے پر پہنچادیا اور پیوٹن کو دنیا کا دوسرا طاقت ور فرد بنادیا۔تیل کی اونچی قیمتوں کا ایک نتیجہ یہ بھی ہوا کہ تیل یا گیس کے ایسے ذخائر جو گہرائی میں واقع ان چٹانوں کے مساموں میں پھنسے ہوئے ہیں جنھیں نکالنے کے لیے مہنگی ٹیکنالوجی درکار ہے۔ ان کی ڈرلنگ شروع ہوگئی۔ یہ ذخائر Shale Gas کہلاتے ہیں جو امریکا، چین، پولینڈ اور پاکستان میں واقع ہیں لیکن اس کی ٹیکنالوجی ابھی صرف امریکا کے پاس ہے، امریکا پچھلے پانچ سال میں شیل گیس اتنی مقدار میں نکالنے لگا ہے کہ اس کا انحصار مشرق وسطیٰ کے تیل پر کم ہوگیا۔ دوسری طرف ہندوستان اور چین میں ترقی کی تیز رفتاری میں کچھ کمی آئی۔

چنانچہ تیل کی طلب میں کمی ہوئی اور بین الاقوامی منڈی میں قیمتیں گرنے لگیں۔عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں کا گرنا معمول کی بات ہے۔ جب قیمتیں گرنے لگتی ہیں تو تیل پیدا کرنیوالے ملک اپنی پیداوار میں تھوڑی کمی کردیتے ہیں اور قیمت بحال ہوجاتی ہیں۔ لیکن اس دفعہ جو انوکھی بات دیکھنے میں آئی ہے وہ یہ ہے کہ تیل پیدا کرنیوالے دو بڑے ملک یعنی سعودی عرب اورابو ظہبی پیداوار میں کمی نہیں کررہے اور تیل کی قیمت کے مزید گرنے کا انتظار کررہے ہیں تاکہ امریکا کی مہنگی شیل گیس مارکیٹ سے باہر ہو جائے۔

تیل کی قیمتوں کے گرنے سے بڑی پیداوار والے ملکوں کی معیشتوں پر اتنا اثر نہیں پڑتا جتنا کم پیداوار والے ملک متاثر ہوتے ہیں۔ تیل کی قیمت اگر زیادہ عرصے گری رہی تو ہم جیسے مسکین ملکوں کا کچھ بھلا ہوجائے گا۔ دنیا تو پاکستان کو ناکام ریاست کا طعنہ دیتی ہے میں تو صرف مسکین کہہ رہا ہوں اور وہ بھی ہم نہ ہوتے اگر ہمارے بالادست طبقے دو سو ارب ڈالر سوئزر لینڈ کے بینکوں میں نہ جمع کرا دیتے۔ ہماری تین چوتھائی سے زیادہ بجلی تیل سے بنتی ہے جو بہت مہنگی پڑتی ہے اور لوڈ شیڈنگ کا سبب بھی بنتی ہے۔

لوڈ شیڈنگ نہ پچھلی حکومت ختم کرسکی تھی اور نہ موجودہ کرسکتی ہے نہ اگلی۔ لوڈ شیڈنگ ختم ہوگی تو صرف ڈیم بنانے سے یا تیل سستا ہونے سے۔ ڈیم تو ہم بنا نہیں سکتے، اپنے پاؤں پر کلہاڑی ہم مارچکے ہیں۔ اب ہم صرف تیل کے سستا ہونے کی آس لگاسکتے ہیں۔ اٹھہتر پر آگیا ہے۔ مزید بھی گرسکتا ہے لیکن ہمارا اصل فائدہ مزید گرنے میں نہیں بلکہ اسی قیمت پر لمبے عرصے تک دستیاب رہنے میں ہے۔

میں نے ابھی ذکر کیا تھا کہ امریکا والی شیل گیس کئی دوسرے ممالک کے علاوہ پاکستان میں بھی دریافت ہوئی ہے۔ خدشہ ہے کہ کہیں غیر معمولی جوش وخروش نہ پیدا ہوجائے اس لیے وضاحت کردوں کہ یہ اطلاع ہمیں امریکی جیولوجیکل سروے نے ہی دی ہے اور وہ بھی صرف ایک نمونے کی بنیاد پر۔ ہمیں اس ذخیرے کی حدود کا تعین کرنے اور اسے استعمال کے قابل بنانے میں بہت محنت لگے گی اور وقت درکار ہوگا۔ اس پر کچھ نہ کچھ ریسرچ تو ہورہی ہے لیکن اس کی ٹیکنالوجی پر دسترس حاصل کرنا اور اس کی مہنگی قیمت کے لیے تیار ہونا صبر طلب ہوگا۔ لیکن امید کی کرن روشن ہے۔

وطن عزیز میں بھی ایک انوکھی بات ہوئی ہے کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمت گرنے پر پاکستان میں ایک ہفتے میں دو دفعہ قیمت کم ہوئی ہے اور وہ بھی آٹھ آٹھ دس دس روپے۔ اگر ایک دفعہ اور دس روپے کم کردی جائے تو ہمارے پٹرول پمپ پر تیل اسی تناسب سے سستا ہوجائے گا جس تناسب سے دنیا میں کم ہوا ہے اور ہم اس بات پر ایک دوسرے کو مبارکباد دے سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔