فوجی عدالتیں

عبید اللہ عابد / سید بابر علی  ہفتہ 3 جنوری 2015
نئے عدالتی نظام کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے؟ قانونی اور سیاسی حلقے کیا سوچ رہے ہیں؟۔ فوٹو: فائل

نئے عدالتی نظام کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے؟ قانونی اور سیاسی حلقے کیا سوچ رہے ہیں؟۔ فوٹو: فائل

24 دسمبر 2014ء کو آرمی چیف جنرل راحیل شریف پہلے وزیراعظم محمد نوازشریف، بعدازاں کل جماعتی کانفرنس کے شرکا سے کہا کہ اب دلیرانہ اور جراتمندانہ فیصلوں کا وقت آگیا ہے، چنانچہ رات کو قوم سے خطاب میں وزیراعظم نے اعلان کیا کہ دہشت گردی کے مقدمات کے لئے مسلح افواج کے افسران پر مشتمل ایسی خصوصی عدالتیں قائم ہوں گی جن کے سربراہ فوجی افسر ہوں گے، ان کی مدت دو سال سے زیادہ نہیں ہوگی۔

یہ عدالتیں فوری طور پر قائم کی جائیں گی جن میں سنگین دہشت گردوں کا ٹرائل کیاجائے گا۔ فوری انصاف کو یقینی بنانے کے لئے مقدمے کے ٹائم فریم کا بھی تعین کیاجائے گا۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق حکومت نے یہ عدالتیں آئین کے بجائے آرمی ایکٹ میں ترمیم کرکے بنانے کا فیصلہ کیاہے۔ یہاں ہونے والے فیصلوں کو کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکے گا۔

اس اعلان کے بعد ملک بھر میں یہ بحث تادم تحریر جاری ہے کہ آیا فوجی عدالتیں قائم کرنے کی اجازت ملکی آئین دیتاہے یا نہیں۔ ماہرین قانون کا کہنا تھا کہ فوجی عدالتوں کے قیام کے لئے آئین کے آرٹیکل8اورA-212میں تبدیلی کرناپڑے گی، آئین کا آرٹیکل8کا تعلق بنیادی حقوق سے ہے۔ فوجی عدالت کے قیام کے لئے اس میں تبدیلی آئین کے بنیادی ڈھانچے کو تبدیل کردے گی۔ آئین کا آرٹیکل8کہتا ہے کہ ’’مملکت کوئی ایسا قانون وضع نہیں کرے گی جو بایں طور عطا کردہ حقوق کو سلب یا کم کرے اور ہروہ قانون جو اس شق کی خلاف ورزی میں وضع کیاجائے، اس خلاف ورزی کی حدتک کالعدم ہوگا۔‘‘

اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ فوجی عدالتوں کے قیام کے لئے آئین کے بنیادی ڈھانچے اور اس کے بنیادی خدوخال کو تبدیل کرنا پڑے گا جس کا موجودہ پارلیمنٹ کو کوئی اختیارنہیں، اگریہ پارلیمنٹ ایسا کرتی ہے تو یہ آئین کو منہدم کرنے کے مترادف ہوگا، یہ اختیار صرف اور صرف آئین سازاسمبلی کو ہوتاہے۔

موجودہ اسمبلی آئین ساز نہیں قانون ساز ہے۔ اس کے علاوہ آئین میں ابھی تک ایسی کوئی گنجائش یا آرٹیکل موجود نہیں جس کی بنیادپر شہریوں پر مقدمات چلانے کے لئے فوجی عدالتیںقائم کی جائیں۔ فوجی عدالتوں کے قیام سے پاکستان کے تمام عدالتی نظام کی نفی ہوتی ہے اور پاکستان میں آئین کی حکمرانی کے تصورپر زد پڑتی ہے۔یادرہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے1999ء میں فوجی عدالتوں کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دیا جا چکا ہے۔

مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما سینیٹرمشاہداللہ خان کا کہناہے’’ کوئی نہیں چاہتا کہ ملٹری کورٹس قائم کی جائیں لیکن جو مخصوص حالات ہیں اْس میں اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ گیا کہ یہ کام کیا جائے۔ ایسے ہی اقدامات دیگر ممالک میں بھی کیے گئے ہیں جو پاکستان سے کم دہشت گردی کا نشانہ بنے جیسے کہ امریکہ میں گوانتاناموبے کا قیام اور اسی طرح کے اقدامات برطانیہ اور انڈیا نے بھی کیے۔ جب انصاف دینے والا ہی خوفزدہ ہو تو آپ اس سے خاص توقع نہیں رکھ سکتے۔

ایسا بھی ہوا کہ جج نے فیصلہ دیا اور پھر خوفزدہ ہو کر اپنے بال بچوں سمیت ملک چھوڑ کر بھاگ گئے۔ اس نظام کو فوری طور پر ٹھیک نہیں کیا جا سکتا اور ابھی ہمیں دہشت گردی کا فوری چیلنج درپیش ہے‘‘۔ انھوں نے تسلیم کیا کہ عدالتوں میں اصلاحات ہونی چاہییں، عدالتوں کی تعداد بڑھانی چاہیے، ان کو زیادہ سے زیادہ وسائل دینے چاہئیں لیکن آج جس دہشت گردی کے عفریت سے ہمیں نمٹنا ہے اْس کے لیے ہماری ذیلی عدالتیں تو بالکل تیار نہیں ہیں۔‘‘

معروف قانون دان ، بیرسٹر احمد رضا قصوری کاکہناہے کہ ریاست کی بقا اور سالمیت کے لئے فوجی عدالتوں کی ضرورت ہے تو ضرور بننی چاہئیں لیکن اس کے لئے اپیلٹ فورم بھی بنایاجائے، دہشت گردی کے مقدمات میں سول عدالتوں کے ججز، پراسیکیوٹر اور گواہ خود کو غیرمحفوظ سمجھتے ہیں، اسی خوف کی فضا میں لکھے گئے فیصلے انصاف کے مطابق نہیں ہوتے۔

فوجی جج چونکہ محفوظ حصار میں ہوتاہے اس لئے وہ جرات مندانہ فیصلے کرسکتا ہے، فوجی عدالتوں سے تیزی اور تسلسل سے فیصلے آئیں گے، نائن الیون کے بعد امریکہ جیسے جمہوری ملک میں بھی فوجی عدالتیں بنائی گئیں۔ ایک دوسرے ممتازقانون دان ایس ایم ظفر کا موقف ہے کہ وزیراعظم ملک میں حالت جنگ کا اعلان کرسکتے ہیں اور اس کے بعد فوجی عدالتیں قائم کی جاسکتی ہیں جو فوجی ایکٹ کے تحت کام کرسکتی ہیں۔

دوسری طرف فوجی عدالتوں کے قیام کے مخالفین کا کہناہے کہ یہ اقدام آئین سے متصادم ہے،ان کاکہناہے کہ جس ناقص انٹیلی جنس نظام اور پولیس تفتیش کی ناکامی سے تنگ آ کر فوجی عدالتیں قائم کی جا رہی ہیں ان کی آنکھیں، ناک اور کان بھی تو یہی ناقص انٹیلی جنس نظام اور پولیس ہوگی۔ مخالفین کا یہ بھی کہناہے کہ فوجی عدالتوں میں ملزم کے پاس دفاع کا حق نہ ہونے کے برابر ہوتاہے۔

یہاں بسااوقات قانون کے بنیادی تقاضے بھی نہیں پورے کئے جاتے اور اعلیٰ عدلیہ میں ان کے فیصلوں کو چیلنج بھی نہیں کیاجاسکتا اور وہی اعلیٰ افسران اپیل سنتے ہیں جنھوں نے فیصلہ کیاہوتاہے۔ ماہرین کاکہناہے کہ فوجی عدالتوں کے قیام کے لئے سادہ سا اصول ہے کہ پہلے آرمی آپریشن کے علاقوں کو جنیوا کنونشن کے تحت کنفلکٹ زون قراردیاجائے، اس کے بعد اسی علاقے میں فوجی عدالتیں قائم ہوسکتی ہیں۔

بین الاقوامی قانون کے ماہر اور سابق وزیر قانون احمر بلال صوفی کے مطابق حکومت شدت پسندی کے خلاف جنگ کا باضابطہ اعلان کر کے ملک میں جنگ کا قانون نافذ کر دے تو اس کے تحت فوجی عدالتیں بنائی جا سکتی ہیں جنھیں بین الاقوامی اور مقامی قانون اور آئینی تحفظ حاصل ہو گا۔ اگر حکومت آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت حالت جنگ میں ہونے کا اعلان کر دے تو اسے بعض بنیادی حقوق معطل کرنے کا اختیار مل جائے گا جس کے بعد فوجی عدالتوں جیسے بعض دیگر فیصلے کرنے میں آسانی ہوگی۔

اس صورت میں حکومت کو نہ تو آئین میں ترمیم کی ضرورت پڑے گی اور نہ ہی اس طرح بننے والی عدالتوں کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جا سکے گا لیکن ایسا کرنے کے لیے حکومت کو باضابطہ نوٹیفیکشن جاری کرنا پڑے گا کہ وہ کسی ایسی جماعت، گروہ یا افراد کے خلاف حالتِ جنگ میں ہے جس نے پاکستانی آئین کو ماننے سے انکار کیا ہے اور ان سے پاکستانی شہریوں کی جانوں کو خطرات لاحق ہیں۔ اس صورت میں حکومت ہائیکورٹ کی انسانی حقوق سے متعلق مقدمات سننے کے اختیار کو معطل کر سکتی ہے۔ یہ قانون جنگ بین الاقوامی سطح پر قابل قبول ہے اور بہت سے ملکوں میں اس سے پہلے استعمال کیا جاچکا ہے۔

جنگی حالت میں ہونے کی صورت میں خصوصی عدالتوں کی سیاسی مخالفت بھی کم ہو جائے گی۔یادرہے کہ احمربلال صوفی ذاتی طور پر خصوصی فوجی عدالتوں کے قیام کے خلاف ہیں، ان کے خیال میں اگر وہ جنگی حالت نافذ کیے بغیر بنائی جائیں کیونکہ اس صورت میں یہ عدالتیں ایک مستقل اور متوازی نظام عدل بن جائیں گی۔انھوں نے کہا کہ ان خصوصی عدالتوں کی مخالفت بھی اسی لیے ہو رہی ہے کہ حکومت ابھی تک یہ وضاحت نہیں کر پائی کہ مجوزہ نظام جنگی حالت کے باعث محدود وقت اور علاقے کے لیے اور مخصوص افراد یا گروہوں کے خلاف ہے۔

سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے مقدمات سننے کے لیے فوجی عدالتوں کا قیام غیر آئینی ہے۔ سابق چیف جسٹس نے کہا کہ فوجی عدالتیں غیرآئینی اور غیرقانونی ہیں۔ آئین کا بنیادی ڈھانچہ آزاد عدلیہ کی ضمانت دیتا ہے اور آزاد عدلیہ کی موجودگی میں فوجی عدالتیں قائم نہیں کی جا سکتیں۔ انھوں نے کہاکہ کوئی بھی ایسی ترمیم یا قانون نہیں بنایا جاسکتا، جو آئین کے بنیادی ڈھانچے کو چیلنج کر سکے۔

سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن کی سابق صدر عاصمہ جہانگیر کا موقف ہے کہ ’’فوجی عدالتوں کا قیام فوج کے مفاد میں بھی نہیںہے، فوجی عدالتیں بنا کر جمہوری قدروں کا گلا گھونٹا جارہاہے، آئینی ترمیم کے بغیر فوجی عدالتیں نہیں بنائی جاسکتیں، آئین میں تبدیلی کرکے فوجی عدالتیں بنائی گئیں تو آئین کے اسٹرکچر اور جمہوری پروسیس ختم ہوجائے گا، خصوصی عدالتوں کے قیام پر سب متفق ہیں، خصوصی عدالتوں میںفوج کے لوگ نہیں بیٹھ سکتے۔

سانحہ پشاور عدلیہ کی کمزوری کے باعث نہیں ہوا بلکہ یہ انٹیلی جنس کی ناکامی ہے، ایک جج اور کرنل میں ٹریننگ کا بہت بڑا فرق ہوتاہے۔ ہمارے تمام ادارے اپنے کام میںکمزور ہیں لیکن دوسرے ادارے کے کام میں خود کو مضبوط سمجھتے ہیں۔‘‘

ممتاز قانون دان علی احمد کرد کے مطابق’’ فوجی عدالتوں کے قیام پر ملک کے ہرطبقہ فکر میںتحفظات پائے جاتے ہیں، فوجی عدالتیں پاکستانی معاشرے کے مزاج سے مطابقت نہیںرکھتیں، فوجی عدالتوں کے ہمیشہ برے اثرات سامنے آئے ہیں، ذہن یہ بات قبول نہیں کرتا کہ فوجی عدالتیں سول حکومت کے شیلٹر میں ہوں گی، فوجی عدالتوں کے کام کرنے کا اپنا اندازہوتاہے جسے لوگوں نے کبھی پسند نہیں کیا، فوجی عدالتیں کسی بھی لحاظ سے دہشت گردی کا علاج نہیں ہے، فوجی عدالتوں کے قیام کامطلب موجودہ جوڈیشل سسٹم پر عدم اعتماد ہے‘‘

معروف قانون دان احمد اویس کہتے ہیں: ’’ فوجی عدالتیں پاکستان کی تباہی کا باعث بن سکتی ہیں، فوجی سے یہ توقع کرنا صحیح نہیںکہ وہ عدالتی فیصلے کرے اور قانون کی باریکیوں کو سمجھے۔ سیاست دانوں کے اندر ملک کے مفاد میں بات کرنے کی اخلاقی جرات ہونی چاہئے۔‘‘

1997ء میں قائم کردہ فوجی عدالت میں خدمات سرانجام دینے والے کرنل(ر)انعام الرحیم کا کہنا ہے کہ ’’ہماراجیوڈیشل سسٹم کبھی ناکام نہیں ہوا، دہشت گردوں کی سزائوں پر عمل درآمد ججوں نے نہیں بلکہ حکومت نے روکا۔ اگرکوئی ناکامی ہے تو پراسیکیوشن کی ہے، ہمیںپراسیکیوشن کو موثر بنانا ہوگا، فوجی عدالت کا سربراہ فوجی افسر قانون اور انصاف کے تقاضوں سے نا واقف ہوتا ہے۔ اس کے سامنے ایک ملزم اور ایک چارج شیٹ ہوتی ہے۔

اس کے ذہن میں بھی نہیں ہوتا کہ ملزم کو دفاع کا حق بھی دینا ہے یا اس سے پوچھا جانا چاہیے کہ آپ کو وکیل چاہیے یا کون سا وکیل چاہیے۔ اس کے سامنے ایک مدت ہوتی ہے جس کے دوران اسے مقدمے کو نمٹانا ہوتا ہے۔ فوجی عدالتی طریقہ کار میں جو خامیاں ہیں، ان کی موجودگی میں عام شہریوں کو ان قوانین پر پرکھنا انصاف کے اصولوں کے منافی ہو گا۔

ایک کمانڈر ہے جو خود ہی چارج شیٹ بناتا ہے، اس کے ماتحت تفتیش ہوتی ہے، وہی عدالت مقرر کرتا ہے اور اسی کے پاس اپیل کی جاتی ہے۔ تو ایسے میں وہاں انصاف کیسے ملے گا؟فوجی عدالتوں میںفارمیشن کمانڈر گرفتاری کا حکم دیتاہے، اسی کے پاس تحقیقات ہوتی ہے، وہی کورٹ بناتے ہیں اور اس کا فیصلہ بھی وہی کنفرم کرتے ہیں، اس کی سزا چیف آف آرمی سٹاف کنفرم کرتے ہیں، جس کے بعد ایک جونئیرافسر اپیل سنتا ہے جو شخص ایک دفعہ گرفتار ہوجائے اس کا بچنا اور رہا ہونا ناممکن ہوتاہے۔

ماضی میں فوجی عدالتوں نے جن لوگوں کو سزائیں دی تھیں، ان میں بارہ سویلینز تھے جنھیں نہ تو ٹرائل پروسیڈنگ دی گئی اور نہ ہی انھیں گواہ لانے کی اجازت تھی، گواہ لانے کے بعد جب انھوں نے فوجی عدالتوں میں اپیل کی تو اس کا فیصلہ بھی نہیں دیا گیا بلکہ پانچ سویلینز ایسے تھے جنھیںچارج شیٹ بھی نہیں دی گئی۔‘‘

پاکستان میں انسانی حقوق کے کمیشن ’ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان‘(ایچ آر سی پی) نے فوجی اہلکاروں کی سربراہی میں خصوصی عدالتوں کے قیام پر خدشات کا اظہار کیا ہے۔ انسانی حقوق کمیشن کے مطابق: ’اس فیصلے سے نہ صرف عدلیہ کی وقعت کم ہوئی ہے بلکہ اس سے ملک میں آزاد اور مضبوط عدلیہ پر عدم اعتمار کا اظہار ہوتا ہے۔ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ ماضی میں کئی بار قرار دے چکی ہے کہ فوجی عدالتیں غیر آئینی ہیں۔

شہریوں کا فوجی عدالت میں مقدمہ ہمیشہ سے ایک متنازع مسئلہ رہا ہے اور اعلیٰ عدالتیں اس کی مخالفت کرتی رہی ہیں۔تیز تر انصاف کا نظام کبھی بھی شفاف ثابت نہیں ہوا اور نہ ہی تیز۔ اس فیصلے سے خدشہ ہے کہ ان فوجی عدالتوں میں سیاسی مخالفین کو خصوصاً بلوچستان اور سندھ میں نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ ادارے نے بیان میں کہا کہ ’ ایچ آر سی پی سمجھتی ہے کہ اس وقت زیادہ ضرورت تفتیش اور استغاثے کے نظام میں تیزی سے اصلاحات کرنے کی ہے۔

ان اصلاحات میں تفتیش کے زیادہ واضح طریقہ کار ہونے چاہئیں نہ کہ تشدد اور دباؤ سے، اس کے علاوہ اس میں گواہوں، وکلا اور ججوں کا تحفظ بھی شامل ہونا چاہیے۔ ایچ آر سی پی کا کہنا ہے کہ ’ایسے میں جب سپریم کورٹ خود دہشت گردی سے متعلق مقدمات جلد از جلد نمٹانے کی کوشش میں ہے، جلد بازی میں کیا گیا یہ فیصلہ جواب طلب ہے۔‘

فوجی عدالتوں کے خلاف قانون دان اور وکلابرادری ایک نظرآرہی ہے، جو ان عدالتوں کے حق میں ہیں، وہ بھی مانتے ہیںکہ قانونی تقاضے پورے کرنا ہوں گے۔ دوسری طرف ان عدالتوں کو مکمل طورپر سیاسی حمایت حاصل نہیں ہوپارہی۔ جب میاں نوازشریف نے عدالتیں قائم کرنے کا عندیہ دیاتھا، پیپلزپارٹی، تحریک انصاف اور اے این پی نے کھل کر حمایت نہیں کی، صرف یہی کہاتھا کہ اس کے لئے جو قانون سازی ہوگی، اسے دیکھ کر حمایت یا مخالفت کا فیصلہ کیاجائے گا البتہ جماعت اسلامی اور متحدہ قومی موومنٹ نے اسے غیرآئینی اقدام سے تعبیر کیا۔

بعدازاں پیپلزپارٹی نے موقف اختیارکیا کہ آرمی ایکٹ 1952 میں ترمیم کر کے فوجی عدالتیں قائم کی جا سکتی ہیں۔ ایم کیوایم نے اس شرط پراس اقدام کو قبول کرنے کا اعلان کردیا کہ ان عدالتوں کو سیاسی جماعتوں سے انتقام کرنے کے لئے استعمال نہیں کیا جائے گا اور یہ کہ یہ صرف طالبان کے خلاف قائم ہوں گی۔ اب تحریک انصاف ان عدالتوں کی کلی مخالف نظر آرہی ہے۔اس بارے میں معروف قانون دان حامدخان کا واضح موقف سامنے آچکا ہے۔

جبکہ مسلم لیگ ن کے بعض ارکان کو ان عدالتوں پر تحفظات ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ پارٹی قیادت 1998ء کی طرح غلطی کرنے جارہی ہے۔ جے یو آئی (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ایک واقعے کی بنیاد پر آئین سے ماورا اقدام کرنے پر سوالیہ نشان لگے گا جبکہ فوجی عدالتوں پر حکومت کی اتحادی جماعتیں بھی مطمئن نہیں اور ہمیں بھی فوجی عدالتوں کے استعمال سے متعلق اطمینان نہیں ہورہا ہے۔

قانونی اور سیاسی حلقوں کے موقف کاجائزہ لیاجائے تو بخوبی اندازہ ہوتاہے کہ ہرکوئی دہشت گردی کو سب سے بڑا مسئلہ قراردیتاہے اور اس کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہتاہے، کوئی بھی فوری انصاف کا مخالف نہیں ہوسکتا تاہم جولوگ فوجی عدالتوں کے قیام کی مخالفت کررہے ہیں،وہ ماورائے آئین اقدامات نہیں چاہتے۔

مخالفین کے اس موقف پر غورکرنے کی ضرورت ہے کہ دہشت گردی کے مقدمات کی مزید تیزرفتار سماعت کے لئے اضافی عدالتیں(سپیڈی ٹرائل کورٹس) بنانی ہیں تو آئین میں اس کی گنجائش موجود ہے، سویلین ججوں پر مشتمل عدالتیں بنائی جاسکتی ہیں، طریقہ کار طے کیاجاسکتاہے کہ مقدمہ کو ایک ہفتہ میں ختم کرنا ہے۔

اپیلوں کے بارے میں طے کیاجاسکتاہے کہ وہ کتنے عرصے میں دائر کی جاسکیں گی اور کب تک ان کا فیصلہ ہوگا۔ سپریم کورٹ کے جج اور ممتاز قانون دان جسٹس ناصر اسلم زاہد کا موقف ہے کہ عام عدالتوں کی تعداد بڑھائی جائے اور پولیس کے نظام کو بہتر کیا جائے تو ملزمان کو قرار واقعی سزائیں مل سکتی ہیں۔

اگر انسدادِ دہشت گردی کی عدالتوں ہی کے ججوں کو اتنی سکیورٹی اور سہولتیں دی جائیں جتنی کسی میجر یا کرنل جج کو ملتی ہیں، اگران کے لئے حفاظتی تدابیرکرلی جائیں تو یقینا کسی کو یہ کہنے کی ضرورت نہیں پڑے گی کہ عام جج انصاف کرتے ہوئے خوف کا شکارہوتے ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ فوجی عدالتیں قائم ہوں گی تو ان کے ججز کی شناخت عام نہیں کی جائے گی، اگرایسا ہی انتظام پہلے سے ہی قائم کردہ انسداددہشت گردی کی عدالتوں میں ججز کے لئے کرلیاجائے، تو وہ بلاخوف وخطر فیصلے دے سکتے ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ حکومتیں پراسیکیوشن وغیرہ کے مراحل میں اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کرتیں، جب پراسیکیوشن ہی تیزرفتار اور درست نہیں ہوگی تو کیسے فوری انصاف ہوسکتاہے۔ امن کے لئے انصاف شرط اول ہے، انصاف بھی ایسا جس میں اس کے تمام تر تقاضے پورے کئے جائیں۔

دیگر ممالک میں فوجی عدالتیں

جب سول عدالتیں فوری انصاف فراہم کرنے سے قاصر ہوجائیں تو اس کام کے لیے فوجی عدالتوں کا استعمال صدیوں سے کیا جا رہا ہے۔ پاکستان میں ضیاء الحق کے دور میں بھی فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا گیا تھا، جن کے جانب دارانہ فیصلوں نے لوگوں کے ذہنوں پر فوجی عدالتوں کے لیے کافی منفی اثرات پیدا کیے۔

دنیا بھر میں انصاف کی فوری فراہمی کے لیے فوجی عدالتوں اور کمیشن کا قیام کو ئی انہونی بات نہیں ہے۔ دنیا کے کئی ممالک دہشت گردی کے خاتمے کے لیے فوجی عدالتیں قائم کر چکے ہیں، جن میں امریکا سرفہرست ہے۔ پاکستان کی طرح دنیا بھر میں فوجی عدالتوں کے قیام پر انسانی حقوق کی تنظیمیں اپنے تحفظات کا اظہار کرتی رہی ہیں، جن ممالک نے اپنے حالات کے پیش نظر فوجی عدالتیں قائم کیں۔

٭امریکا

امریکا میں پہلی بار فوجی عدالتوں کا قیام انقلاب امریکا کے دوران جنرل جارج واشنگٹن نے کیا۔ جس کے تحت جاسوسی کے الزام میں ایک برطانوی میجر جان اینڈری کو پھانسی دی گئی۔ 1861ء سے 1865ء تک امریکا میں ہونے والی خانہ جنگی میں ریاست کے ساتھ لڑنے والے نسلی امریکیوں کو بھی فوجی عدالتوں نے ہی تختہ دار پر لٹکایا تھا۔ 1898میں اسپین کے ساتھ ہونے والی جنگ کے بعد امریکا نے فلپائن میں ایک فوجی کمیشن قائم کیا۔

دوسری جنگ عظیم کے دوران صدر فرینکلین روزویلٹ نے 8 جرمن قیدیوں کو سزائے موت دینے کے لیے فوجی عدالت قائم کی۔ ان افراد پر ’آپریشن پاسٹوریس‘ کے تحت امریکا کی جاسوسی کرنے اور ملک میں انتشار پھیلانے کا الزام تھا۔ ان میں سے چھے افراد کو برقی کرسی پر بٹھا کر ہلاک کردیا گیا، جب کہ دو افراد کو کچھ عرصے بعد رہا کردیا گیا تھا۔ امریکا کی بدنام زمانہ جیل ’گوانتا موبے‘ میں بھی ملٹری کمیشن ایکٹ کے تحت ایک فوجی کمیشن قائم کیا گیا ہے، جسے انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیموں کے شدید تنقید کا سامنا ہے۔

٭مصر

مصر میں آنے والے انقلاب کے بعد فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا گیا، جس میں شہریوں کے ٹرائل سے متعلق متنازعہ دفعہ کو بنا کسی ترمیم کے برقرار رکھا گیا ہے۔ مصر کے نئے دستور کی ترتیب وتدوین کا کام کرنے والے پچاس ارکان کے پینل میں سے 41 نے اس متنازعہ دفعہ کے حق میں ووٹ دیا ہے۔ مصر میں قائم یہ فوجی عدالتیں اب تک سیکڑوں شدت پسندوں کے خلاف مقدمات کا فیصلہ سناچکی ہیں۔ تاہم ان عدالتوں پر عام شہریوں پر بھی بلاجواز مقدمات قائم کرنے اور سزا دینے کے الزامات عائد کیے جارہے ہیں۔

٭بھارت

بھارتی پارلیمنٹ نے 2007میں ’آرمڈ فورسز ٹریبونل‘ کے نام سے ایک بل پاس کیا اور 8 اگست 2009 کو اُس وقت کے بھارتی صدر نے اس فوجی عدالت کا افتتاح کیا۔ یہ عدالتیں نئی دہلی اور علاقائی برانچیں چندی گڑھ، لکھنؤ، کول کتہ، گوہاٹی، چنائے، کوچی، ممبئی اور جے پور میں قائم کی گئیں۔ شروع میں ان فوجی عدالتوں میں ہائی کورٹ کے 9ہزار سے زاید کیسز کو منتقل کیا گیا۔ بھارت میں بھی ان عدالتوں کے قیام پر حکومت کوسیاست دانوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے شدید تنقید کا نشانہ بنا یا تھا۔

٭جرمنی

جرمنی کا آئین وفاقی حکومت کو خصوصی حالات میں فوجی عدالتیں قائم کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ تاہم ابھی تک یہاں فوجی عدالتیں بنائی نہیں گئیں ہیں۔ اور دوران ملازمت کسی جرم کا مرتکب ہونے والے فوجی کو بھی سول پینل کوڈ اور ملٹری پینل کوڈ کے تحت سزا دی جاتی ہے۔ ا س ملک میں کوئی وفاقی یا فوجی جیل نہیں ہے۔ اگر کسی سپاہی کو چھے ماہ تک لیے جیل میں ڈال کر فرد جرم عاید کی جائے تو اس پر عمل درآمد اس فوجی کی بیرک کی انتظامیہ کرتی ہے اور وہ فوجی حراست میں رہتے ہوئے اپنے یونٹ میں ڈیوٹی سرانجام دیتا رہے گا۔ تاہم اس مدت سے زاید سزا کی صورت میں فوج کو ملازمت سے فارغ کردیا جاتا ہے اور وہ عام قیدیوں کی طرح جیل میں اپنی سزا پوری کرتا ہے۔n

پاکستان میں فوجی عدالتوں کی تاریخ

٭پاکستان میں سب سے پہلا مارشل لاء 1953میں لاہور میںنافذ ہوا، فوجی عدالتیں قائم ہوئیں جنھوں نے قادیانی مخالف فسادات میں حصہ لینے والوں کو سزائیں دیں، اگرچہ فسادات کی تحقیقات کرنے و الے منیرکمیشن کی رپورٹ سے ثابت ہوا کہ پرتشدد واقعات کے پیچھے پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں ممتاز دولتانہ کاہاتھ تھا اور مقصد مشرقی بنگال سے تعلق رکھنے والے وزیر اعظم خواجہ نظام الدین کی حکومت کو کمزور کرنا تھا تاہم فوجی عدالتوں نے نہ صرف جماعت اسلامی کے بانی سیدابوالاعلیٰ مودودی، جمعیت علمائے پاکستان کے رہنما مولاناعبد الستارخان نیازی سمیت متعدد افراد کو سزائے موت اور دیگر بہت سوں کوقید و بند کی سزائیں سنادیں بلکہ ان افراد کو اپیل کے حق سے بھی محروم رکھاگیا۔مسلم دنیا کی طرف سے آنے والے بے پناہ دبائو کے نتیجے میں چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر نے مولانا مودودی اور عبد الستار نیازی کی سزائے موت عمر قید میں تبدیل کردی۔ سزاپانے والے بعض افراد جن میں روزنامہ زمیندار کے ایڈیٹر مولانا اختر علی خان شامل تھے۔

٭ اکتوبر 1958میں جنرل ایوب خان نے مارشل لاء نافذ کیا، انھوں نے پورے ملک میں فوجی عدالتیں قائم ہوئیں، جہاں بائیں بازو کے کارکنوں اور قوم پرستوں کو سزائیں سنائی گئیں۔ ان میں بلوچستان کے نامور سردار نوروز خان اور ان کے بیٹوں ، بھتیجوں کوسزائے موت جبکہ نواب اکبر بگٹی سمیت متعدد رہنماؤں کو عمر قید کی سزاہوئی۔ نوروز خان کی بزرگی کا لحاظ کرتے ہوئے ان کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کردیاگیاالبتہ ان کے جوان بیٹوں اور بھتیجوں کو پھانسیاں دیدی گئیں۔ مشرقی پاکستان، سندھ اور صوبہ سرحد میں بھی اسی طرح کا فوجی انصاف فراہم کیاگیا۔ ایوب خان نے دو سال بعد ہی مارشل لاء ختم کرکے عدالتیں کالعدم قرار دیدیں اور ملک کا روایتی عدالتی نظام بحال کردیا۔

٭سن1969میں جنرل یحییٰ خان نے بھی مارشل لاء نافذ کرکے فوجی عدالتیں قائم کیں، یہاں نیشنل عوامی پارٹی، پیپلز پارٹی، عوامی لیگ، کمیونسٹ پارٹی کے کارکنوں کے خلاف کارروائی ہوئی۔ ملتان میں اللہ وسایا ٹیکسٹائل ملز کے مزدوروں کے مطالبات کی حمایت کرنے پر نیشنل عوامی پارٹی کے رہنما اشفاق احمد خان، پیپلز پارٹی کے رہنما محمود نواز بابر، مزدور رہنما اشرف کو قید اور کوڑوں کی سزائیں دی گئیں۔ اس طرح پیپلز پارٹی کے رہنما معراج محمد خان کوبھی سزا سنائی گئی، ٹی وی کمپیئر طارق عزیز بھی سزا پانے والوں میں شامل تھے۔ معروف صحافی عبد اللہ ملک نے بھی سزاپائی۔ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کے لاتعداد کارکنوں کو طویل مدت کی سزائیں دی گئی۔ سپریم کورٹ کے جسٹس حمودالرحمن کی سربراہی میں1972ء میں عاصمہ جیلانی بنام ریاست کیس میں مارشل لاء کے نفاذ کو غیر آئینی اور فوجی عدالتوں کو انصاف کی پامالی کے مترادف قرار دیا تھا۔

٭جنرل ضیاء الحق نے بھی1977میں مارشل لاء نافذ کرتے ہی پورے ملک میں فوجی عدالتیںقائم کردیں، ان میںخصوصی فوجی عدالتیں اور سرسری سماعت کی عدالتیں شامل تھیں، نے لاکھوں لوگوں کو جو 1973کے آئین کی بحالی، پیپلز پارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے خلاف اور جمہوری حقوق کے لئے احتجاج کررہے تھے، قید و جرمانے اور کوڑوں کی سزائیںدی گئیں، فوجی عدالتوں نے متعدد لوگوں کو سزائے موت دی، ان میںمکران کا ایک طالب علم حمید بلوچ بھی شامل تھا۔ بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس خدا بخش مری نے فوجی عدالت کے فیصلے کے خلاف حکم امتناعی جاری کیا، انہوں نے عدالت میں یہ اعلان کیا تھا کہ وہ خود یہ حکم لے کر مچھ جیل جائیں گے۔ چنانچہ جنرل ضیاء الحق نے عبوری قانونی حکم نافذ کرکے جسٹس خدا بخش مری سمیت ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے بہت سے ججوں کو معذول کیا اور حمید بلوچ کو سزائے موت دیدی گئی، جنرل ضیاء الحق کی قائم کردہ فوجی عدالتوں نے سب سے زیادہ سزائیں سندھ میں دیں ،بالخصوص ایم آر ڈی تحریک کے ہزاروں کارکنوں کوبھی سزائیں ملیں جن میں خواتین بھی شامل ہیں۔

٭میاں نوازشریف نے بھی اپنے سابقہ دور میںکراچی کے مسئلے کا حل فوجی عدالتوں کو قراردیا۔ جمہوری دور میں فوجی عدالتوں کے قیام کی بڑے پیمانے پر مذمت ہوئی۔ سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کو خلاف قانون قرار دیدیا۔ سپریم کورٹ نے 1999ء میں اپنے فیصلے میں فوجی عدالتوں کو غیرآئینی اور بغیر کسی منطق کے قائم کی جانے والی قراردیاتھا، عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلہ پی ایل ڈی 1999ء سپریم کورٹ504جوکہ چیف جسٹس اجمل میاں اور دیگر جن میں سعید الزماں صدیقی، ارشادحسن خان، راجہ افراسیاب خان، محمد شبیرجہانگیری، ناصراسلم زاہد، منور احمد مرزا، مامون قاضی اور عبدالرحمن خان شامل تھے، نے دیاتھا۔ فیصلے میں کہاگیاتھا کہ ملک میں متوازی عدالتی نظام کی اجازت نہیں دی جاسکتی نہ ہی آئین ایسی چیز کی اجازت دیتاہے۔ سپریم کورٹ کے ا س فیصلے کے بعد دہشت گردی کے مقدمات کی عدالتوں کا قانون اسمبلی نے منظورکیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔