2014 میں پاکستانی معیشت ہچکولے کھاتی رہی

غلام محی الدین  اتوار 4 جنوری 2015
سال کھوکھلے دعووں اور بہانوں کی نذر، قرضے لے کر سود اتارے گئے۔ فوٹو: فائل

سال کھوکھلے دعووں اور بہانوں کی نذر، قرضے لے کر سود اتارے گئے۔ فوٹو: فائل

اسلام آباد: 2014 کاآغاز ہوا تو ایشیائی ترقیاتی بینک نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا کہ پاکستان میں گزشتہ ایک سال کے دوران متعارف کرائے گئے اقتصادی اصلاحات کے نتیجے میں معاشی سطح پر بہتری آئی ہے۔

شرح نمو میں اضافہ، بجٹ خسارہ میں کمی، غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں استحکام اوریورو بانڈز کے اجراء سے پالیسی ساکھ میں اضافہ ہوا ہے تاہم بجلی کے بحران پر قابو پانے میں ابھی کئی سال لگیں گے۔ 2015 میں حکومت کے اقتصادی ایجنڈے پر اطمینان بخش پیش رفت کی توقع کی جاسکتی ہے۔ اُس وقت اس رپورٹ کے متن کو پڑھ کر عام آدمی کو تسلی ہوئی مگر وقت نے ثابت کیا کہ یہ سب اعدادوشمار کے گورکھ دھندے والی طفل تسلی تھی ۔

یہ رپورٹ اُس وقت منظر عام پر آئی جب ایک جانب قرضوں اور سود کی ادائی کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ملک کی کمر توڑ رہا تھا تو دوسری جانب کالے دھن کی معیشت پاکستان کواندر سے کھائے چلی جا رہی تھی۔ سرما یہ دارانہ تجزیہ نگار اور معیشت دان بھی اس معیشت پر افسوس کر رہے تھے مگر اُن کے پاس بھی سود پھنسی معیشت کو نکالنے کا کوئی پائدار حل موجود نہیں تھا کیوں کہ گزشتہ 67 سال میں کئی حکومتیں بدلنے کے باوجود محنت کشوں کی حالت بہتر ہوئی اور نہ ہی اس ملک سے قرضوں کا بوجھ اترا بل کہ اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا۔

’’ایشین ڈویلپمنٹ آوٹ لک اپ ڈیٹ 2014 ‘‘ نامی اس رپورٹ میں البتہ یہ بتایا گیا تھا کہ 2014  میںبھی پاکستان کو کم شرح نمو، بجلی کی دیرینہ قلت اور بڑے پیمانے پر مالیاتی اور بیرونی ادائیگیوں میں عدم توازن کا سامنا رہے گا۔بجلی کی قلت کو دور کرنے کے لئے کئی سال کا مربوط عزم درکار ہو گا جب کہ زیادہ اور ہمہ جہت شرح نمو کے لئے ڈھانچہ جاتی اصلاحات کی اشد ضرورت ہو گی۔

اعداوشمار کے مطابق مالی سال 2014 کی پہلی ششماہی میں جی ڈی پی کی شرح نمو 4.1 فی صد رہی، جو 2013 میں 3.7  فی صدتھی۔ 30 جون 2014 کو اختتام پذیر ہونے والے مالی سال کے دوران اس کا اندازہ 3.4 فی صد لگایا گیا ۔ جی ڈی پی کی شرح میں کچھ اضافہ صنعتی شعبہ کی پیداوار میں بہتری کی وجہ سے ہوا تھا۔

اس دوران لارج سکیل مینو فیکچرنگ 4.0 فی صد اور بجلی کی سپلائی میں 3.7 فی صدبہتری آئی تھی جو حکومت کی جانب سے گردشی قرضوں کی ادائی کے باعث ممکن ہوئی مگرپاکستان کا قرضہ 17356 ارب روپے سے جب زیادہ ہوا تو اسی دوران ہر پاکستانی ایک لاکھ روپے کا مقروض بھی ہو چکاتھا۔

موجودہ حکومت کے صرف پہلے تین ماہ میں اس قرضے میں 1128 ارب روپے اضافہ ہوا ۔ موجودہ وزیر خزانہ حزب اختلاف میں رہتے ہوئے کشکول توڑنے کے نعرے لگایا کرتے تھے لیکن اقتدار میں آتے ہی انہوں نے آئی ایم ایف سے بھیک مانگنا شروع کر دی، جس کے بعد انتہائی سخت شرائط پر6.7 ارب ڈالر کا قرضہ ملا ۔ یہ قرضہ 2008 میں لیے گئے قرضے کا سود ادا کرنے کے لیے تھا۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستانی معیشت کی حالت کتنی نازک تھی اور اب تک صورت حال ویسی ہی ہے۔

پاکستان نے عالمی مالیاتی اداروں اور دوسرے ممالک کو 60 ارب ڈالر سے زیادہ کے بیرونی قرضے ادا کرنے تھے جب کہ پاکستان کے زرمبادلہ کے کل ذخائر اُس وقت 3.2 ارب ڈالر کی نحیف سطح پہنچ پر چکے تھے۔یاد رہے وفاقی وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی میں اپنی بجٹ تقریر برائے 2013-14 کے دوران بتایا تھاکہ انھیں گزشتہ حکومت کی کارکردگی کی وجہ سے ٹوٹی پھوٹی معیشت دیکھ کر افسوس ہوا، ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ معیشت خودکار طریقے یعنی آٹو پائلٹ پر چل رہی ہو، انھوں نے سنہ دو ہزار تیرہ، چودہ کے لیے 3985 ارب روپے کا بجٹ پیش کیا جوکہ گزشتہ سال کے بجٹ کے مقابلے میں 24.4 فی صد زیادہ تھا۔

پاکستان کی نو منتخب حکومت نے اپنے پہلے بجٹ میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے مجموعی طور پر ایک ہزار ارب روپے سے زیادہ مختص کیے۔ سالانہ ترقیاتی منصوبے 2013 اور 2014 کے مطابق وفاقی ترقیاتی منصوبوں کیلئے 540 ارب روپے مختص کیے گئے جب کہ صوبوں کا ترقیاتی بجٹ 615 ارب روپے رکھا گیا۔

وفاقی وزیر نے بتایا تھا کہ 2013  میں پاکستان پر قرضے کا بوجھ 14284 ارب روپے ہوچکا ہے۔ موجودہ مالی سال 2014-15 کے پہلے چھ ماہ جولائی تا دسمبر میں تجارتی خسارہ بھی گزشتہ سال کی نسبت 400 ملین ڈالر زیادہ ہوا جب کہ خدمات کے شعبے میں بھی 1383 ملین ڈالر خسارہ  ریکارڈ کیا گیا جو 2012 سے 10 ملین ڈالر زیادہ تھا۔

اس کی ایک وجہ امریکا کی جانب سے کولیشن سپورٹ فنڈ کی معطلی تھی۔اس دوران پاکستان امریکا سے مطالبہ کر تارہا کہ افغانستان سے 2014 میں اپنی فوجوں کے انخلا کے بعد بھی امریکا اس مد میں دی جانے والی رقم جاری رکھے مگر امریکا نے آرمی چیف کے دورہ امریکا تک کوئی فیصلہ نہ کیا تھا۔ موجودہ مالی سال جولائی تا اکتوبر 2014کے دوران در آمدی بل16 ارب 78 کروڑ50 لاکھ ڈالر رہا جب کہ گزشتہ مالی سال کے اسی مدت یعنی جولائی تا اکتوبر 2013 کے دوران درآمدی بل کی مالیت 14 ارب 45 کروڑ90 لاکھ ڈالر کی رہیں۔ اس طرح تجارتی خسارہ 8 ارب 81 کروڑ 30 لاکھ ڈالر تک پہنچ گیا۔ یوں تجارتی خسارے میں 49  فی صد اضافہ ہوا۔

دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ پاکستان کے موجودہ حکم راں اور مالیاتی ادارے معاشی مسائل کے حل کے لیے غیر ملکی سرمایہ کاری کو اکسیر قرار دیتے ہیں لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ ایسی سرمایہ کاری کے لیے ملک کو پر کشش بنانا در حقیقت اپنے ہی ملک کے غریبوں اور بھوکے ننگوں کی تعداد میں اضافہ کرنا بھی ہوتاہے جسے عرف عام میں سستی لیبر کہا جاتا ہے۔ یہ درست ہے کہ ہر ملک برآمدات بڑھانا چاہتا ہے مگر اس دوڑ میں صرف وہی کامیاب ہوتا ہے جو معیاری اور کم قیمت اشیا پیدا کرے کیوں کہ صارف صرف سستی اور معیاری اشیا ہی خریدنا چاہتا ہے۔

ہر چیز کی قیمت اس کے پیداواری خرچے کے مطابق ہوتی ہے۔خام مال، لیبر اور توانائی کی قیمت پیداواری خرچے کا تعین کرتے ہیں۔ اس لیے کم قیمت اشیا پیدا کرنے کے لیے سستی توانائی کی اشد ضرورت ہوتی ہے بہ صورت دیگر لوگ دوسرے ممالک کی اشیا خریدتے ہیں کیوں کہ وہاں سے وہ سستی ملتی ہیں۔ جہاں توانائی سستی ہوگی وہاں اشیا کی قیمتیں بھی کم ہوں گی۔

رائج معشیت کا اصول ہے کہ محنت کشوں کی اُجرت جتنی کم ہوگی سرمایہ دار کا منافع اتنابڑھے گا۔ اسی طرح حکم رانوں کو بھی علم ہوتا ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کاری، اسٹاک ایکس چینج کے اتار چڑھائو، روپے کی قیمت میں کمی بیشی یا در آمد بر آمد میں خسارے یا منافعے سے عام شہریوں اور کارکنوں کی زندگی پر کوئی اثر نہیں پڑتا کیوں کہ اصل تن خواہ روپیہ نہیں بل کہ اس روپے سے خریدی جانے والے اجناس اور مصنوعات ہوتی ہیں۔

بہ ظاہر ہمارے ارباب اختیارملک ملک انویسٹر کی تلاش میں بھاگے پھر رہے ہیں تاکہ لوگ پیسہ لائیں لیکن سینٹ،قومی اور ساری صوبائی اسمبلیوں  میں سے ایک نمائندہ بھی، جو اربوں روپے کا مالک ہے، ایک پیسہ ملک میں لگانے کو تیار نہیں کیوں کہ انہیں معلوم ہے کہ یہ گھاٹے کا سودا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ بجلی مہنگی ہونے کی وجہ سے کوئی بھی کاروبار منافع بخش نہیں رہا۔ یہ سوچنے کا وقت ہے کہ ہماری حکومت کی ترجیحات کیا ہیں؟ حکومت کس کے فائدے کے لیے یہ سب کچھ کر رہی ہے۔

ملکی معیشت کا اگر سرسری جائزہ پاکستان کے سرکاری اداروں کے اعدادوشمار کی روشنی میں لیا جائے تو تب بھی تصویر بامعنی نہیں بنتی۔ ذیل میں چند نکات پر غور کیا جائے تو اس معاملے کی نزاکت سمجھنے میں دیر نہیں لگتی۔

٭پاکستان کے گذشتہ ایک سالہ دور میں نان ٹیکسٹائل مصنوعات میں 17’20 فی صد کمی آئی ۔ سال 2013 میں اس شعبے کی برآمد 3’14 ارب سے کم ہو کر سال 2014 میں 2’60 ارب تک جاپہنچی جب کہ بجٹ 2014-15 میں حکومت نے نان ٹیکسٹائل شعبے میں 9 مختلف اقسام کی مصنوعات پر کیش سبسڈی پیکج کا اعلان کیا تھا لیکن ماہرین کے مطابق جب تک حکمران خود اپنا ذاتی سرمایاملک میںنہیں رکھیں گے، اُس وقت تک کوئی بھی شہری اپنے سرمائے کو ملک میں رکھنے کا خطرہ مول نہیں لے گا۔

٭ اسٹاک ایکس چینج مارکیٹ کی حالت اکتوبر کے آخری ہفتے میں یوں تھی کی دوران ٹریڈنگ مارکیٹ 13 پوائنٹس نیچے آئی تو ملک کے پانچ بڑے اور متعدد چھوٹے کاروباری گروپوں کے اربوں روپے ڈوب گئے۔

٭پاکستان اسٹیٹ آئل کے منافع میں جولائی سے ستمبرتک 33 فی صد کمی ریکارڈ ہوئی۔اس عرصہ میں عالمی سطح پر تیل کی فی بیرل قیمت 125 ڈالر سے کم ہوتی ہوئی ’’سلائیڈنگ پوزیشن‘‘ پر آئی، جو اب تک جاری ہے ۔اس پوزیشن میںقیمت میں مزید کمی کا واضح امکان ہے مگر پاکستان میں اس عرصہ کے دوران بھی قیمتوں میں اضافہ برقرار رکھا گیا۔نومبر اور دسمبر میں جب تیل کی قیمت میں کمی کا اعلان ہوا تو حقیقی معنوں میں اُس کے ثمرات عام لوگوں تک نجی اور حکومتی مافیا کے ہتھکنڈوں کے باعث پہنچ ہی نہ پائے۔ادارہ برائے شماریات کے اعدادوشمار کے مطابق تیل کی قیمتیں کم ہونے کے باوجود روزمرہ کی ضروری اشیا کی قیمتوں میں کمی اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف تھی۔ شور مچنے پر دسمبر میں تیل کی قیمتوں میں مزید کمی کی گئی جب کہ دوسری جانب کابینہ کی کمیٹی برائے اقتصادی رابطہ نے تیل کے تاجروں کے کمیشن بڑھا کر یہ عندیہ دیاکہ یہ کمی عارضی ہے لیکن ضرورت اس بات کی تھی کہ صوبائی حکومتیں تیل کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ عام آدمی تک پہنچاتیں، مثال کے طور پر روٹی کی قیمت پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے باعث 4 روپے سے بڑھاکر 8 روپے تک کردی گئی ہے، اس کی قیمت میں اب کمی ہونی چاہیے تھی، چینی کی قیمت میںصرف 2 روپے فی کلو کمی کی اطلاع آئی، جو 54 روپے سے کم ہوکر 52 روپے فی کلو ہوئی جب کہ ایل پی جی ڈسٹری بیوشن ایسوسی ایشن کی جانب سے ایل پی جی کی قیمت میں 25 روپے فی کلو کمی کا اعلان کیا گیا۔

٭پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیوپلپمنٹ اکنامکس کی ان دنوں سامنے آنے والی ایک تحقیقی رپورٹ میں بتایا گیا کہ آئل کمپنیوں اور ڈیلروں کے 30 فی صد بڑھنے والے منافع کے بعد آئندہ بجٹ تک تیل کے صارفین کی قوت خرید اتنی کم زور ہوجائے گی کہ لوگ سفر کرنا چھوڑ دیں گے۔

٭اسی عرصہ میںشعبہ ٹیکسٹائل کی مخدوش صورت حال پر پاکستان ٹیکسٹائل ایکسپورٹرایسوسی ایشن کے چیئرمین نے انڈسٹری کے بند ہونے کی پیشین گوئی کی تو آل پاکستان ٹیکسٹائل پروسسنگ ملز ایسوسی ایشن کے عہدے داروں نے اپنے اخباری بیانوں میں ملک سے سرمایہ باہر جانے اورایکسپورٹ میں 10’16 فی صد تک کمی کی خبر دی۔

٭منافع میں چلنے والے ادارے ’’او جی ڈی سی ایل ‘‘ کے 10 فی صد حصص کی نج کاری پر ملک بھر میں تحفظات اور اس ادارے کی یونین کارکنوں کے احتجاج پر شدید حکومتی تشدد کے بعد اس ادارے کے منافع میں 27 فی صد کمی نے اس نج کاری کوہی مشکوک بنا دیا۔ اس ادارے کے مزدورں کو اسٹاک آپشن سکیم کے تحت ملنے والی ساری مراعات کو روک کر جمہوری حکومت نے آمریت کی راہ اپنائے رکھی۔نومبر کے پہلے ہفتے اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس نج کاری کے خلاف اُسی دن سماعت شروع کی ، جب حکومت نے اس نج کاری حتمی اعلان کیا تھا۔ اس کے بعد حکومت کو عارضی طور پر اس نج کاری کو موخر کرنا پڑا۔

٭پنجاب میں صنعتوں کے لیے تین ماہ تک گیس کی مکمل بندش کا فیصلہ اس آڑ میں ہوا کہ گھریلو صارفین کو گیس ملے گی مگر گیس کے پریشر میں کمی کی اطلاعات نومبر کے آغاز میں ملنے لگیں۔ اس کے بعد کی حالت زار سب کے سامنے ہے ۔

٭اس مخمصے نے بھی تماشا لگائے رکھا کہ حکومت کے چند وزیر اسلام آباد کے دھرنوں کو معاشی قتل اور اربوں ڈالر کا نقصان قرار دیتے رہے تو دوسری جانب وزیر خزانہ سمیت دیگر وزرا حکومت کی کارگردگی اور ساکھ کو عیاں کرنے کے لیے یہ کہتے رہے کہ دھرنے والوں کے ناپاک عزائم معیشت کے پہیے کوآگے بڑھنے سے روکنے میں مکمل طور پر ناکام ہوئے ہیں، زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہواق ہے ، ترسیلات زر کا حجم بڑھا ہے اور منہگائی میں کمی واقع ہوئی ہے۔

٭یکم جنوری 2014 سے پاکستان کو یورپی یونین کے 27 ممبر ممالک سے جی ایس پی مراعات ملنے کے بعد امید کی جارہی تھی کہ یورپی یونین کو پاکستان کی ایکسپورٹ بالخصوص ٹیکسٹائل ڈیڑھ ارب ڈالر تک سالانہ بڑھ جائے گی لیکن پنجاب میں گیس اور بجلی کی لوڈشیڈنگ اور گزشتہ چند ماہ سے دھرنوں کی وجہ سے سیاسی بے یقینی کے باعث ٹیکسٹائل ایکسپورٹ میں رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں 4% کمی ہوئی ، جس کے نتیجے میں ٹیکسٹائل ایکسپورٹ 3.6 بلین ڈالر سے کم ہوکر 3.4 بلین ڈالر ہوئی ، ایکسپورٹ میں سب سے زیادہ کاٹن یارن 21.78%، کاٹن فیبرک 13.52% اور بیڈویئر میں 2.27% میں کمی آئی ،جب کہ نٹ ویئر، تولیے، خیموں، ترپال اور ریڈی میڈ گارمنٹس میں معمولی اضافہ ہوا تھا۔عالمی مارکیٹ میں کاٹن اور یارن کی گرتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے پاکستانی یارن کی سب سے بڑی مارکیٹ چین نے نہ صرف نئی خریداری روک دی بلکہ منہگے داموں کے یارن کے پرانے کئی بڑے سودے بھی تکنیکی بنیادوں پر لینے سے انکار کردیا، جس کی وجہ سے پاکستانی یارن ایکسپورٹرز کے سیکڑوں کنٹینر چین کی بندر گاہوں پر پڑے رہے۔اس کے برخلاف انڈیا، جسے یورپی یونین سے جی ایس پی پلس کی مراعات حاصل نہیں، کی یورپی یونین میں ٹیکسٹائل ایکسپورٹ میں 25% اور بنگلہ دیش کی ٹیکسٹائل ایکسپورٹ میں 28% اضافہ ہوا۔

اس دوران عالمی بینک کی بزنس کے حوالے سے سالانہ رپورٹ بھی سامنے آئی۔ اس میں پاکستان کو 189 ملکوں کی فہرست میں 128 واں درجہ دیا گیا۔ واضح رہے کہ پاکستان گزشتہ سال اس حوالے سے 110 ویں درجے پر تھا، اس سال وہ 18 درجے نیچے آ گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کاروباری شخصیات کے لیے کاروبار کا آغاز کرنا، بجلی کا کنکشن حاصل کرنا اور پاکستان میں ایک کنٹینر درآمد کرنا نہایت مشکل ہوگیا ہے۔

اس رپورٹ میں لیبر مارکیٹ ریگولیشن کے اعداد و شمار جمع کرنے کے لیے کراچی کے ساتھ پہلی مرتبہ لاہور کو بھی شامل کیا گیا تاہم بھرتیوں کی مشکلات، کام کے سخت اضافی گھنٹے، کام نہ ہونے پر نوکری کے خاتمے سے مشکلات، بے روزگاری سے تحفظ کی اسکیم، مستقبل ملازمین کے لیے صحت کی انشورنس اور مزدوروں کے تنازعات کے لیے عدالت کے خصوصی حصوں کے حوالے سے دونوں شہروں سے حاصل ہونے والے اعداد و شمار ایک جیسے ہی تھے ۔ کاروبار کے لیے آسانیاں فراہم کرنے والے ملکوں کی اس درجہ بندی میں سنگاپور سب سے اوپررہا۔ اس کے بعد دوسرے سے دسویں درجے پر بالترتیب نیوزی لینڈ، ہانگ کانگ، ڈنمارک، جنوبی کوریا، ناروے، امریکا، برطانیہ، فن لینڈ اور آسٹریلیاتھے۔

ایک طرف ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان امریکا اور اْس کے اشاروں پر چلنے والے مالیاتی اداروں کی معاشی غلامی سے آزادی حاصل کرے، معیشت مضبوط ہو، قومی خودانحصاری کی منزل پر پہنچا جائے لیکن ہمارے ارباب واختیارکے پاس کوئی ایسا کوئی حل نہیں جس سے پاکستان کی معاشی مشکلات کم ہو سکیں۔ یہ حقیت ہے کہ آج پاکستان کی معیشت ایشیا میں بدترین کارکردگی والی معیشت بن چکی ہے۔

گذشتہ تین سالوں کے دوران پاکستان نے غیرملکی مالیاتی اداروں سے 13 ارب ڈالرز کی خطیر رقم قرض لی مگر اس کے باوجود اوسط شرح نمو محض 2.6 فی صد رہی اور افراط زر کی سالانہ شرح 15 سے 20 فی صد۔ ماہرین معیشت کے محتاط تخمینوں کے مطابق کرپشن اور مالیاتی بدانتظامی کی وجہ سے پاکستان کو ہر سال 1200 ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔

نااہلی اور کرپشن کی وجہ سے ہمارے قومی ادارے پاکستان ریلوے، پی آئی اے، پاکستان سٹیل، پاکستان ایگریکلچرل سٹوریج اینڈ سروسز کارپوریشن، یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن مجموعی طور پر سالانہ 360 ارب روپے کا خسارہ برداشت کر رہے ہیں۔ ورلڈ بنک اور ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل کے مطابق ملک کے ترقیاتی بجٹ کا 40 فیصد (70 ارب روپے میں سے 280 ارب روپے) بے ضابطگیوں یا کرپشن کی نذر ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں بجلی کی قلت اور کمی کے باعث معیشت کو جی ڈی پی کا 3 سے 4 فی صد سالانہ نقصان ہو رہا ہے۔

توانائی کے شعبے کا سرکلر ڈیٹ وہیں کھڑا ہے، بجائے اس کے کہ حکومت اس سرکلر ڈیٹ کے مسئلے سے نبٹتی، اربوں روپوں کے کمیشن پر مزید رینٹل پاور پراجیکٹس حاصل کر لیے گئے، جن میں سے اکثریت بجلی پیدا نہیں کر رہے مگر ہماری حکومت اْن کو ماہانہ کروڑوں روپے کرایہ ادا کر رہی ہے۔ اسی طرح پاکستان کی نصف آبادی غربت کا شکار ہے اور محض دو ڈالر یومیہ پر گزارا کر رہی ہے جب کہ 7 کروڑ 70 لاکھ افراد انتہائی غریب ہو چکے ہیں اور محض سوا ڈالر روزانہ پر جی رہے ہیں۔

اب آیے! بنیک دولت پاکستان کی طرف، جو یہ کہ رہا ہے کہ مالی سال 14 معیشت کے لیے بہتر سال تھا۔ یہ بات بینک دولت پاکستان کی سالانہ رپورٹ معیشت کا جائزہ برائے 14 -2013 میں کہی گئی۔ رپورٹ کے مطابق سب سے قابل ذکر عوامل یہ تھے، ملک کے زرِ مبادلہ کے ذخائر میں ٹھوس بہتری ہوئی، اوائل مارچ میں روپے کی قیمت میں اضافہ ہوا، مالیاتی خسارے میں کمی ہوئی، توقع سے کم شرح گرانی رہی، نجی شعبے کے قرضے میں بہتری آئی۔ خسارہ رپورٹ میں کہا گیا کہ آئی ایم ایف کے نئے پروگرام کے آغاز کے ساتھ ہی دیگر بین الاقوامی مالی اداروں سے بیرونی رقوم کی آمد بھی تقریباً تین سال کے وقفے کے بعد شروع ہوئی۔

اس سے سٹیٹ بینک کے زرِ مبادلہ کے ذخائر کی بتدریج کمی روکنے میں مدد ملی۔ فروری مارچ 2014 کے دوران پاکستان ڈیویلپمنٹ فنڈ میں 1.5 ارب ڈالر کی آمد کے ساتھ دیگر رکی ہوئی رقوم آنے لگیں جس سے پاکستانی روپے کو مستحکم کرنے میں مدد ملی۔اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے 5 ماہ جولائی سے نومبر 2014  تک بینکوں کی طرف سے مجموعی طور پر 4 کھرب 71 ارب 60 کروڑ روپے کی نئی سرمایہ کاری کی گئی۔ سرمایہ کاری میں سب سے زیادہ اضافہ نومبر میں ہوا۔ موجودہ مالی سال کے پہلے 5 ماہ کے دوران بینکوں نے نجی شعبوں کے لیے ان کے کاروباری سرگرمیوں کی خاطر 112 ارب 80 کروڑ روپے کے قرضے دیے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ قرضے گزشتہ مالی سال کی نسبت 26 ارب 50 کروڑ روپے کم ہیں۔

سال کے آخر میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے پاکستان میں معاشی اصلاحات کے عمل پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے حکومت کو 1،1 ارب ڈالر کی نئی قرضہ قسط دسمبر میں جاری کرنے کا عندیہ دیا۔ آئی ایم ایف پاکستان مشن کے سربراہ جیفری فرینک نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اور پاکستانی حکام کے درمیان پاکستان کے معاشی پروگرام پر واشنگٹن میں ہونے والے مذاکرات کو مثبت قرار دیا۔

کہا گیا کہ مذاکرات کے دوران دونوں فریقوں نے پاکستان کے معاشی پروگرام کے چوتھے اور پانچویں جائزے کو ایک ساتھ کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ دسمبر میں آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس سے پاکستان کو قرض کی دو اقساط کی ایک ساتھ ادائی منظور ہو سکے۔ نومبر میں زرمبادلہ کے ذخائر 13 ارب ڈالر تک تھے۔ دسمبر 2014  تک زرمبادلہ کے ذخائر 15 ارب ڈالر تک لے جانے کا آئی ایم ایف سے وعدہ کرلیا گیا تھا۔ حکومت نے اپنے طور پر زرمبادلہ کے حصول کے لیے سکوک بانڈز کے اجرا کا فیصلہ کیا۔

نومبر کے وسط میں وزیراعظم پاکستان نے دورہ برطانیہ کے دوران سرمایہ کاری کانفرنس سے خطاب کیا، جس میں برطانیہ کے بڑے سرمایہ کاروں نے شرکت کی۔ جب سکوک بانڈز کے اجرا کا اعلان کیا گیا تو اس کے حوصلہ افزا نتائج سامنے آئے۔ حکومت کا خیال تھا کہ وہ 50 کروڑ ڈالرز کے بانڈز عالمی مارکیٹ میں پیش کرے گی لیکن عالمی سرمایہ کاروں کی طرف سے 2 ارب 30 کروڑ ڈالرز کے بانڈز کے لیے دل چسپی ظاہر کی گئی۔ان بانڈز کی خریداری میں دنیا بھر کے بڑے بڑے سرمایہ کاروں نے حصہ لیا ہے۔

بانڈز کی عالمی مارکیٹ میں بتایا جاتا ہے کہ 9 سال کے بعد پاکستان کی واپسی اس طرح ہوئی کہ جتنے کے بانڈز فروخت کرنا چاہتی تھی حکومت کو اس کے مقابلے میں 5 گنا زیادہ کی پیش کشیں ہوئیں۔ اس طرح زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کے باعث روپیہ پر دباؤ میں کمی واقع ہوئی۔ اب اگر ان قرضوں کو درست طریقے سے ادائی کے لیے استعمال کرلیا گیا تو سود کی ادائی میں بھی 5 ارب روپے کی کمی واقع ہوسکے گی ۔

16 دسمبر 2014 کو ہونے والی دہشت گردی کی خبر ملتے ہی کراچی اسٹاک مارکیٹ کریش ہوئی اور تاریخ میں سب سے بڑی مندی ریکارڈ کی گئی، جس سے سرمایہ کاری مالیت میں ایک کھرب 76 ارب روپے سے زائد کی کمی ہوئی۔ دوسرے روز بھی کراچی اسٹاک ایکسچینج میں مندی اور سوگ کا راج رہا اور مزید 209 پوائنٹس کی کمی واقع ہوئی۔ دہشت گردی کے باعث پاکستان کی معیشت میں برآمدی جمود مزید بڑھا۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان اپنی رپورٹ میں واضح طور پر یہ بیان کر چکا ہے کہ 2010 سے پاکستان برآمدی شعبے میں جمود کا شکار ہے۔

جی ایس پی پلس اسٹیٹس ملنے کے بعد اس بات کی توقع تھی کہ برآمدات میں اضافہ ہو گا لیکن جی ایس پی پلس ملنے کے باوجود اس کو پاکستان کے پاس رہنے دینے یا نہ دینے کے بارے میں تمام فیصلوں کے حقوق یورپی یونین کے پاس ہی ہیں، جسے انھوں نے مختلف شرائط کے ساتھ منسلک کر رکھا ہے اور پاکستان کو ایک طویل فہرست تھما رکھی ہے کہ یہ مختلف شرائط ہیں اگر ان پر عملدرآمد نہ ہوا تو پھر پاکستان سے تجارتی مراعات واپس لے لی جائیں گی۔ اگرچہ جی ایس پی پلس ملنے کے بعد بھی پاکستان اپنی برآمدات میں خاطرخواہ اضافہ نہیں کر سکا۔ کیوںکہ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات کے سبب غیر ملکی تاجر و صنعتکار اس طرف رخ نہیں کرتے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔